مصطفی کمال کا نظریہ اور فلسفہ قوم کی تقدیر بدل سکتا ہے !

کہتے ہیں کہ انسان اپنی باتوں سے پہچانا جاتا ہے اگر ہم 3 مارچ2016 سے لے کر تا حال مصطفی کمال کی کہی گئی باتوں کو غورسے سنیں اورسیاسی مخالفت،بدگمانی اور تعصب کی عینک اتار کر ان کی باتوں سے عیاں ہونے والے نظریے اور فلسفے کو سمجھنے کی کوشش کریں تو ہمیں اندازہ ہوگا کہ مصطفی کمال کی کہی گئی باتوں پر عمل کرلیا جائے تو پاکستانی قوم کی تقدیر بدل سکتی ہے کہ مصطفی کمال اول روز سے جو باتیں کرتے چلے آرہے ہیں ان سے ان کا کسی قسم کا ذاتی مفاد وابستہ نہیں ہے بلکہ مصطفی کمال نے تو عہدے ،مراعات ،پروٹوکول اور لاکھوں روپے کی آمدنی کو جوتے کی نوک پر مار کر سیاست میں ایک نئے ولولے ، عزم اور ایک نئی پہچان کے ساتھ قدم رکھا ہے۔مصطفی کمال کی پاکستان ،پاکستانی جھنڈے اور پاکستانی عوام کے مسائل سے دلچسپی ان کے قول وفعل سے روز روشن کی طرح عیاں ہے وہ پاکستانیت کے جذبات سے بھرپور ایک ایسے سیاست دان ہیں جو عوام کو کرپشن ،دہشت گردی ،بھتہ خوری اور مفاد پرستی کی سیاست سے نجات دلا کر عوام کو ان کے حقوق ان کے گھر کے دہلیز پر دلوانے کے لیے میدان سیاست میں ایک نئی امنگ اور ولولے کے ساتھ آئے ہیں وہ اختیارات کی تقسیم نچلی سطح سے شروع کرنا چاہتے ہیں وہ چاہتے ہیں کہ پاکستان میں عوام کی فلاح وبہبود اور پاکستان کی ترقی اور استحکام کے حوالے سے صرف وعدے اور دعوے نہ کیئے جائیں بلکہ ان کا آغاز اختیارات کو گراس روٹ لیول پر پہنچا کر شروع کیا جائے کہ بلدیاتی نظام کو فعال کرکے عوام کے روزمرہ کے مسائل کو ان کی گلی اور محلے میں ہی حل کیا جائے کہ یہ عوام کی خدمت کا کرنے کا کا سب سے اچھا اور قابل عمل طریقہ ہے حکومتی اختیارات صرف چند چند لوگوں تک محدود رہنا ہی تمام مسائل کا سبب ہے ،عام آدمی کو انصاف اور سہولیات اس کے گھرکی دہلیز پر پہنچانا ان کے طرز سیاست کا سب سے اہم نکتہ ہے جس کا برملا اظہار وہ اپنی تمام تقریروں ،انٹرویوز اور بیانات میں کرتے رہتے ہیں۔لیکن مشکل یہ ہے کہ ایک تو اقتدار کے ایوانوں پر کئی عشروں سے قابض سیاست دانوں کو عوامی مسائل سے درحقیقت کوئی دلچسپی ہی نہیں ہے و ہ تو صرف اپنے اقتدار کو مستحکم کرکے کرپشن کے ذریعے کمائی گئی اپنی بے پناہ دولت کو بچانے کی فکر میں لگے رہتے ہیں اور انہیں عوام صرف اس وقت یاد آتے ہیں جب انتخابات کا وقت قریب آتا ہے اور انہیں اپنے انتخابی حلقوں کے عوام سے ووٹ مانگنے ہوتے ہیں تاکہ عوام کے ووٹوں کی اس طاقت کو وہ اقتدار میں آنے کے لیئے استعمال کرسکیں اور جب یہ مفاد پرست اقتدار میں آجاتے ہیں تو پھر یہ اپنی عوام کو فراموش کربیٹھتے ہیں یہی وجہ ہے کہ پاکستان کے مفاد پرست اور کرپٹ سیاست دانوں نے اپنے برے کردار کی وجہ سے عام لوگوں کو اتنا زیادہ بدظن کردیا ہے کہ اب اگر کوئی سیاست دان اچھی اور سچی بات کرتا ہے تو لوگوں کو اس پر یقین نہیں آتا اور وہ اس اچھے سیاست دان کی دل سے نکلی ہوئی ہمدردانہ باتوں میں بھی کوئی سازش تلاش کرنے میں لگ جاتے ہیں لیکن جو لوگ خود سچے پاکستانی ہیں جن کا دل پاکستان اور پاکستان کی عوام کے لیئے دھڑکتا ہے ، جنہیں پاکستانی قوم کی موجودہ اور آئندہ آنے والی نسلوں کے مستقبل کی فکر ہے اور جو پاکستان کو ایک مثالی فلاحی ریاست اور ایک ترقی یافتہ مستحکم ملک بنانا چاہتے ہیں انہوں نے تمام تر مخالفانہ پروپیگینڈے کو مسترد کرتے ہوئے نہ صرف مصطفی کمال کی آواز پر لبیک کہا ہے بلکہ وہ مصطفی کمال کی باتوں میں چھپے ہوئے نظریے اور فلسفے کو بھی جاننے لگے ہیں،مصطفی کمال کی قائم کردہ پاک سرزمین پارٹی کوئی عام اور روایتی سیاسی جماعت نہیں ہے بلکہ اس کا نظریہ اور فلسفہ میدان سیاست میں موجود سیاسی پارٹیوں کی اکثریت سے بالکل جد ا اور منفرد ہے یہی وجہ ہے کہ مصطفی کمال کی قائم کردہ نئی سیاسی جماعت پاک سرزمین پارٹی نے صرف ایک سال کے اندر کراچی ،حیدرآباد اور میرپورخاص سمیت ملک کے تمام صوبوں میں جس تیز رفتاری کے ساتھ مقبولیت حاصل کرتے ہوئے عوام کے دلوں میں اپنی جگہ بنائی ہے وہ کراچی اور پاکستان کی سیاست کرنے والے بہت سے سیاست دانوں کے لیئے ایک حیران کن سیاسی دھچکہ ہے جس کے اثرات کی وجہ سے ان کی برسوں کی سیاست کو عام لوگوں نے مسترد کرنا شروع کردیا ہے اور وہ وقت دور نہیں جب مصطفی کمال کا نظریہ اور فلسفہ اس ملک کے ہرباشندے کے دل میں اپنی جگہ بنالے گا اور پورے پاکستان میں ایک ایسا انقلاب لے کر آئے گا جس کی پاکستانی عوام برسوں سے منتظر ہے۔

مصطفی کمال جیسے محب وطن اوردلیر سیاست دان سے بد ظن اور بدگمان لوگوں کو اس بات کو مد نظر رکھنا چاہیئے کہ ایم کیوایم سے وابستگی کے زمانے میں بالفرض اگر مصطفی کمال میں کچھ انسانی خامیاں موجود بھی رہی ہوں تو اب وہ ان سے بھی جان چھڑا کر ایک مکمل نئی سوچ، نیا نظریہ اور فلسفہ لے کرمحض ملک اور قوم کے مفاد میں ایک نئی سیاسی جماعت پاک سرزمین پارٹی بنا کر میدان سیاست میں کودے ہیں ،ان کے سیاسی ماضی سے اب ان کا کوئی تعلق باقی نہیں رہا ،ضمیر کی عدالت نے انہیں ایک بہت اچھا اور مخلص سیاست دان بنا دیا ہے جو محض عوام کی خدمت کرنے کے جذبے کے ساتھ اس وقت نہایت برق رفتاری کے ساتھ عوام کی تقدیر بلدلنے کی جدوجہد میں مصروف عمل ہے،ایک ٹی وی انٹرویو میں مصطفی کمال نے ایک بار کہا تھا کہ’’ ہم باہر سے مولوی نہیں دکھتے لیکن ہم اندر سے ایک مولوی کی طرح ہیں‘‘ جو لوگ آج کے مصطفی کمال کو قریب سے جانتے ہیں انہیں اس بات کا اچھی طرح علم ہے کہ مصطفی کما ل ایک مظبوط ایمان رکھنے والا انسان ہے جو نماز روزے کا بھی پابند ہے اور اس کے اندر کہیں نہ کہیں ایک سچا اور اچھا مولوی بھی چھپا ہوا ہے جو صرف باتیں نہیں دعوے اور وعدے نہیں کرتا بلکہ جو کہتا ہے اس پر عمل بھی کرکے دکھاتا ہے ،گزشتہ ایک سال کے دوران اس کا قول وفعل ،سرگرمیاں اور کردار اس کو ایک اچھا اور سچامحب وطن انسان اور پاکستانی ثابت کرنے کے لیئے کافی ہے ،مصطفی کمال کی شخصیت اور کردار میں موجود اس حقیقت پر مبنی سچائی کو جتنی جلدی سمجھا جائے گا اتنا ہی پاکستان ،پاکستانی قوم اور خاص طور پر کراچی کے باشندوں کے لیئے بہتر ہوگا کہ اب آسمان سے فرشتے حالات بدلنے کے لیئے نہیں آئیں گے اور نہ ہی کوئی انسان فرشتے جیسے کام کرسکتا ہے لیکن موجود کرپٹ ترین سیاسی دور میں اگر کوئی اپنے عہدے اور مراعات کو ٹھوکر مار کر اپنی جان کو خطرے میں ڈال کرملک اور قوم کی تقدیر بدلنے کے لیئے سیاست میں قدم رکھتا ہے تو اس کی نیت پر شک وشبہ کرتے ہوئے اس پر بے جا تنقید کے نشتر چلانے کی بجائے پاکستان اور خاص طور پر کراچی وحیدرآباد کی عوام کویہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیئے کہ اگر 2018 کے انتخابات میں انہوں نے بار بار کے آزمائے ہوئے کرپٹ اور مفاد پرست سیاست دانوں کو مسترد کرتے ہوئے نئے اور محب وطن سیاست دانوں کو منتخب نہیں کیا تو پھر آئندہ وہ اپنے حالات بدلنے کی کسی سے کوئی امید نہ رکھیں کہ جو لوگ گزشتہ کئی عشروں سے عوامی جذبات ،امیدوں اور امنگوں کا خون کرکے اقتدار کے مزے لوٹتے رہے ہیں وہ کرپشن سے کمائی ہوئی دولت اور مسلسل اقتدارمیں رہنے کی وجہ سے اتنے زیادہ طاقتور ہوگئے ہیں کہ انہیں اب صرف ووٹ کی طاقت سے ہی ہرایا جاسکتا ہے یا پھر اﷲ کی پکڑ اور فوجی حکومت ان برے سیاست دانوں سے قوم کو نجات دلا سکتی ہے لہذا ملک بھر کی عوام کو اس بار عام انتخابات میں اپنا ووٹ ڈالتے ہوئے بہت زیادہ ہوش مندی اور سمجھ بوجھ کا مظاہرہ کرنا ہوگا اور باربار کے آزمائے ہوئے کرپٹ ترین سیاست دانوں کو مسترد کرکے مصطفی کمال اور عمران خان جیسے محب وطن قابل اور فعال سیاست دانوں کو منتخب کرنا ہوگا تب ہی کوئی تبدیلی آسکتی ہے ورنہ آئندہ کئی عشروں تک قوم ایک بارپھر جاگیرداروں ،وڈیروں اور سیاسی دہشت گردوں کے چنگل سے آزاد نہ ہوسکیں گے۔

پاک سرزمین پارٹی کے بانی و چئیرمین سید مصطفی کمال میں وہ تمام خوبیاں بدرجہ اتم پائی جاتی ہیں جو کسی بھی اچھے اور سچے محب وطن سیاست دان میں ہوں تو اسے عوامی مقبولیت اور انتخابی سیاست میں برق رفتار کامیابی حاصل کرنے سے کوئی نہیں روک سکتا اور ان میں یہ خوبیاں آج سے نہیں پائی جاتیں بلکہ اگر ہم ان کے سیاسی ماضی پر نظر ڈالیں تو ہمیں اندازہ ہوگا کہ وہ شروع سے ہی ایک قابل اور فعال سیاست دان کے طور پر پہچانے جاتے تھے یہی وجہ تھی کہ مصطفی کمال کو ایم کیو ایم کے بانی وقائد الطاف حسین نے اپنی قائم کردہ سیاسی جماعت ایم کیوا یم میں شامل ہونے کے چند سال بعد جنرل پرویز مشرف کے دور حکومت میں سٹی ناظم کے طور نامزد کیا تو اس وقت کے چیف ایگزیکٹو پرویز مشرف نے مصطفی کمال کی قابلیت،اہلیت اور فعالیت سے متاثر ہوکر ان پر اعتماد کرتے ہوئے ان کو بھرپورسپورٹ اور ترقیاتی فنڈ فراہم کیے جنہیں مصطفی کمال نے پوری ایمانداری اور اور دن رات کی محنت کرکے کراچی کی تعمیر وترقی پر بلاامیتاز خرچ کرتے ہوئے ذاتی دلچسپی لے کر کراچی شہر کا حلیہ ہی بدل کر رکھ دیا یہی وجہ ہے کہ مصطفی کمال کے 5 سالہ دور میں کراچی میں ہونے والے ترقیاتی کاموں کی تعداد ،معیار اور رفتار کراچی کی تاریخ میں ہونے والے تمام ترقیاتی کاموں سے زیادہ تھی اور مصطفی کمال کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ انہوں نے اس وقت ایم کیوایم کا حصہ ہونے کے باوجود صرف اردوبولنے والوں کے علاقوں میں کام نہیں کیا بلکہ پورے کراچی میں بلاامتیاز ترقیاتی کام کروائے جس کی وجہ سے ان کی عزت اور مقبولیت میں اضافہ ہوا پھر انہوں نے ان تمام ترقیاتی کاموں کے فنڈ میں کوئی خرد برد اور کرپشن نہیں کی جس کی وجہ سے ان کی شخصیت اور کردار پر عوام کا اعتماد قائم ہوا یہی وجہ ہے کہ جب مصطفی کمال نے ایم کیو ایم کو چھوڑ کر اپنی نئی سیاسی جماعت پاک سرزمین پارٹی قائم کی تو انہیں بہت جلدمقبولیت اور اہمیت حاصل ہوگئی اور ان کی کہی گئی سچی اور کھری باتوں کو ہر طبقہ فکر میں غورسے سنا گیا اور پھر اﷲ تعالیٰ نے ان کے جذبے ،کردار اور قول وفعل میں پکا ہونے کی وجہ سے صرف ایک سال کے اندر وہ برق رفتار مقبولیت اور سیاسی اہمیت عطافرمائی جو اس سے قبل قیام پاکستان کے بعد صرف ذوالفقار علی بھٹو کو ہی حاصل ہوسکی تھی۔ جس برق رفتاری سے صرف ایک سال کے عرصے میں مصطفی کمال اور ان کی سیاسی پارٹی لوگوں کے دلوں میں عوامی مسائل کو حل کرنے کے حوالے سے خصوصی دلچسپی ،مسلسل سیاسی جدوجہد ،سچی اور کھری باتوں اور عوامی اسٹائل کی وجہ سے اپنی جگہ بنارہی ہے اس کو دیکھ کر اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ مصطفی کمال اور پاک سرزمین پارٹی مستقبل کی سیاست میں کتنی اہمیت ،مقبولیت اور کامیابی حاصل کرسکتی ہے۔

زرداری اور نواز کے سیاسی گٹھ جوڑپر مبنی کرپشن اور مفاد پرستی سے بھرپور اس دور سیاست میں عمران خان اور مصطفی کمال کی صورت میں عوام کو امید کی جو کرنیں نظر آرہی ہیں وہ بہت غنیمت ہیں ورنہ گزشتہ 9 سال کے دور سیاست و حکومت میں جس بری طرح کرپشن اور مفاد پرستی کا مظاہرہ کرکے عوامی مفادات اور امنگوں کا خون کیا گیا ہے وہ پاکستان کی سیاست کا وہ شرمناک باب ہے جس نے پاکستان سے ،عوامی مسائل سے دلچسپی ،ملک کے ترقی و استحکام کی فکر، اخلاقیات اورمساوات جیسی اقدار کا جنازہ نکال دیا ہے اگر اس دور میں عمران خان اور مصطفی کمال جیسے سیاست دان پاکستان میں موجود نہ ہوتے تو یہ مفاد پرست کرپٹ سیاسی لٹیرے عوام کو بیچ کر کھاجاتے ۔ آج کل پیپلز پارٹی ،نوازلیگ اور ایم کیو ایم پر جس بری طرح زوال آیا ہوا ہے وہ خود ان کے قائدین کے شرمناک طرز سیاست اور سیاست کے میدان میں عمران خان اور مصطفی کمال جیسے دبنگ ،دلیر ،محب وطن اور سچے سیاست دانوں کی آمد کی وجہ سے آیا ہے ورنہ یہ لوگ تو تاحیات اس قوم کو اپنا غلام بنا کر حکومت کرنے کا خواب دیکھ رہے تھے لیکن اﷲ کی لاٹھی بے آواز ہوتی ہے جب وہ حرکت میں آتی ہے تو وقت کے فرعونوں کو ذلت کی گہرائیوں میں اس بری طرح غرق کردیتی ہے کہ وہ اپنا چہرہ کسی کو دکھانے کے قابل نہیں رہتے آج کل سیاست میں فرعونوں کے زوال اور ذلت کے جو مظاہرے نظر آرہے ہیں وہ سب ان سیاست دانوں کے کرتوتوں کی وجہ سے ہے جنہیں اﷲ تعالی نے اقتدار اور رعایا پر حاکمیت سے نوازا لیکن انہوں نے اپنے اقتدار کو ملک اور قوم کے مفاد اور استحکام کے لیئے استعمال کرنے کی بجائے صرف ذاتی مفادات اور کرپشن کرکے رقم اور جائیدادیں بنانے کے لیئے استعمال کیا یہی وجہ ہے کہ کسی دور میں پاکستان کی سب سے بڑی پارٹی سمجھی جانے والی سیاسی جماعت پیپلز پارٹی آج عملا صرف صوبہ سندھ تک محدود ہوکر رہ گئی ہے جبکہ نواز لیگ کے کرپشن کے چرچے پانامہ لیکس اور پانامہ کیس کے ذریعے پاکستان سمیت ساری دنیا میں اس کے لیئے شرمندگی کا باعث بن رہے ہیں اور الطاف حسین جو کبھی ایم کیوایم کے مائی باپ سمجھے جاتے تھے اب ماضی کا حصہ بن کر ’’ تھا‘‘ ہوچکے ہیں اور ایم کیو ایم جس کی طاقت کو کراچی میں کوئی چیلنچ کرنے کا تصور بھی نہیں کرسکتا تھا مصطفی کمال کے ہاتھوں ذلیل وخوا ر ہوکر کسی بھیگی بلی کی طرح دبک کر بیٹھی ہوئی ہے نہ وہ جاہ و جلال باقی رہا اور نہ ہی وہ ہڑتالوں کا جال باقی رہا نہ بھتہ خوری کرسکتے ہیں اور نہ ہی بدمعاشی ہائے بے چارے ایم کیوایم پاکستان اور ایم کیوایم لندن والے عبرت کی مثال بن کر لوگوں کے لیئے تماشہ اور تفریح کا سامان بن کر رہ گئے ہیں ۔اسے کہتے ہیں اﷲ کی پکڑ جس نے آج نواز لیگ ،زرداری کی پیپلز پارٹی اور الطاف و فاروق ستار کی ایم کیو ایم کو بری طرح جکڑا ہوا ہے لیکن بجائے اس کے کہ مذکورہ پارٹیوں کی قیادت ہوش میں آئے وہ حسب سابق مکارانہ سیاست کی منافقانہ چالیں چل کر اپنے ڈوبتے ہوئے سیاسی و حکومتی اقتدارکو بچانے کی ناکام کوششوں میں جتے ہوئے ہیں لیکن شاید وہ یہ بات بھول چکے ہیں کہ اب قوم کو جگانے کے لیئے عمران خان اور مصطفی کمال جیسے سیاست دان موجود ہیں جن کی وجہ سے آج کی عوام کافی باشعور ہوچکی ہے جس کا اندازہ مصطفی کمال کے نظریہ اور فلسفے کو ملنے والی غیرمعمولی پذیرائی سے بھی بخوبی لگایا جاسکتا ہے لہذا ہم کہ سکتے ہیں کہ مصطفی کمال کا نظریہ اور فلسفہ پاکستانی قوم کی تقدیر بدل سکتا ہے بشرطیکہ لوگ انہیں اور ان کی قائم کردہ سیاسی جماعت پاک سرزمین پارٹی کو ووٹ دے کر انتخابات میں بڑی اکثریت سے کامیابی دلوا کر اقتدار کے ایوانوں میں پہنچادیں۔ مصطفی کمال اورپاک سرزمین پارٹی کی مقبولیت اور کامیابی کے حوالے سے تاریخ کا ایک فیصلہ ابھی باقی ہے جو 2018 کے الیکشن کے موقع پر سامنے آجائے گا اور جو لوگ مصطفی کمال کی نئی سیاسی جماعت پاک سرزمین پارٹی کو ایم کیو ایم کا ہی ایک ’’دھڑا ‘‘ قرار دیتے ہیں ان کی بدتمانی بھی بہت جلد دور ہوجائے گی اور اس طرح اﷲ نے چاہا تو اس ملک کو کرپٹ اور مفاد پرست سیاست دانوں سے ہمیشہ کے لیئے نجات مل جائے گی۔

اﷲ تعالیٰ پاکستانی قوم کو مصطفی کمال کے جذبے ،نظریے اور فلسفے کو اچھی طرح سمجھنے کی صلاحیت عطا فرما کر انہیں مصطفی کمال جیسے اچھے اور سچے سیاست دانوں کا ساتھ دینے کی توفیق عطا فرمائے تاکہ وہ اپنی ان امنگوں اور امیدوں کو پورا کرسکیں جس کے خواب دکھا کر ایک طویل عرصہ سے چند مخصوص سیاست دان ان کا استحصال کرتے چلے آرہے ہیں۔ آخر میں دعا ہے کہ مصطفی کمال اور عمران خان سمیت پاکستان اور پاکستانی عوام سے سچی محبت کرنے والے تمام محب وطن سیاست دانوں کو نمایاں ترین انتخابی کامیابی عطا فرمائے تاکہ پاکستان سے مفاد پرست اور کرپٹ ترین حکمرانوں کے شرمناک دور حکومت کا خاتمہ ممکن ہوسکے (آمین)
مصطفی کمال کا نظریہ اور فلسفہ قوم کی تقدیر بدل سکتا ہے !

Fareed Ashraf Ghazi
About the Author: Fareed Ashraf Ghazi Read More Articles by Fareed Ashraf Ghazi : 119 Articles with 142487 views Famous Writer,Poet,Host,Journalist of Karachi.
Author of Several Book on Different Topics.
.. View More