پرنٹ میڈیا سے لیکر الیکٹرانک میڈیا تک آج ہر جگہ
ایک ہی بات موضوع بحث بنی ہوئی ہے کہ آخر فوج اور دوسری سیکورٹی ایجنسیوں
کے’’ہتھیار بندمجاہدین‘‘کو گھیرنے کے بعدکشمیر کی نہتی عوام انھیں بچانے کے
لئے اپنی زندگی کیوں داؤ پر لگا دیتی ہے ؟حیرت یہ کہ عوام کچھ عرصے سے تمام
تر تنبیہات کو نظرانداز کرتے ہو ئے بلا تاخیر ان مقامات کی طرف نعرے لگاتے
ہو ئے پیش قدمی کرتی ہے جہاں فوج نے عسکری نوجوانوں کو گھیر لیا ہوتا ہے
۔5مارچ2016ء کے بلندکشمیر اور رائزنگ کشمیر کے مطابق مصدقہ اطلاع ملنے پر
فورسز نے 4مارچ 2016ء کی شام کو تقریباً نو بجے چلی پورہ ہف شوپیان گاؤں کا
جونہی محاصرہ کرنا شروع کیاتو عسکری نوجوانوں نے سامنے سے فورسز پر ایک ہتھ
گولہ پھینکا اورساتھ ہی گولیاں بھی چلائیں۔ فورسز نے بھی جواب میں گولیاں
چلائیں لیکن جنگجو گاؤں کے اندر گھس گئے۔ اسکے بعد فورسز نے آناً فاناً
پورے گاؤں کو سیل کیااورساتھ ہی فوج، سی آر پی ایف اور پولیس کی بھاری نفری
یہاں لائی گئی۔ اس کے بعد فورسز نے گھر گھر تلاشی کارروائی کا آغاز کیا۔
فورسز نے دو مکانوں کے گرد گھیرا بڑھا دیا جہاں جنگجوؤں کے چھپے ہونے کا
شبہ تھا۔ فورسز نے جنگجوں کی حرکت پر نظر رکھنے کے لئے ڈرون کیمروں کو بھی
کام پر لگا دیا جو رات بھر گاؤں کے اوپر گردش کرتے رہے۔رات بھر تلاشی
کارروائیوں کا سلسلہ بھی جاری رہا جبکہ اس دوران دو بار فائرنگ بھی ہوئی
اور دھماکوں کی آواز بھی سنی گئی۔ صبح گیارہ بجے تک محاصرہ جاری رہنے کے
بعد بھی جنگجوؤں کا کوئی اتہ پتہ نہ ملنے کے بعد فورسز نے محاصرہ اٹھا لیا۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق ابھی سیکورٹی فورسز محاصرہ اٹھا ہی رہی تھیں کہ کئی
علاقوں سے سینکڑوں نو جوان ہف اور سوگن پہنچ کر فورسز پر زبردست پتھراؤ
کرنے لگے۔فورسز کی پارٹی جب واپس لوٹ رہی تھی تو ہف کے قریب سی آر پی ایف
کی ایک گاڑی الٹ گئی جس سے پانچ اہلکاروں کو معمولی زخم آئے۔اسی بیچ یہاں
بھی نوجوانوں کی ٹولیاں پہنچیں اور انہوں نے ان پر پتھراؤکیا۔ جواب میں
فورسز نے آنسو گیس کے گولے داغے اور پیلٹ کا بھی استعمال کیا ،ساتھ ہی ہوا
میں گولیاں بھی چلائیں، جس کی وجہ سے عنایت احمد نامی ایک نوجوان کے ہاتھ
میں گولی لگی جبکہ شوکت احمد نامی دوسرے نوجوان کی آنکھ میں پیلٹ لگے۔ان
دونوں کو پہلے پلوامہ ضلع اسپتال پہنچایا گیا جہاں سے انہیں سرینگر منتقل
کیا گیا۔اس کے علاوہ جھڑپوں میں مزید آٹھ نوجوان زخمی ہوئے۔ یہ جھڑپیں
تقریباً دو بجے تک جاری رہیں اور فوج کی جانب سے گاڑی اٹھانے اور اسے وہاں
سے لے جانے کے بعد ہی ختم ہوئیں۔اسکے ایک روز بعد ترال میں بھی یہی صورتحال
اس وقت دیکھنے میں آئی جب ترال کے مضافات میں ریشی پورہ نامی گاؤں میں
محصور عساکر اور فورسز کے مابین گھمسان کی لڑائی شروع ہوئی جس کے دوران
وہاں پر مظاہرین کی خاصی تعداد جمع ہوئی جنہوں نے فورسز پر پتھراؤ کیا جس
کے بعد وہاں شدید جھڑپیں ہوئیں۔اس دوران ترال قصبے میں بھی پر تشدد احتجاج
شروع ہوا ۔پولیس کے مطابق محاصرے میں شامل اہلکاروں پر پتھراؤشروع کیا
گیاجس کے ساتھ ہی علاقے میں شدیدجھڑپوں کا آغاز ہو گیا۔ پولیس نے احتجاج
اور پتھراؤ کرنے والے نوجوانوں پر آنسو گیس کے لا تعداد گولے داغے لیکن اس
کے باوجود احتجاج کرنے والے نوجوانوں کے ساتھ مختلف علاقوں سے آئے ہوئے
مزید سینکڑوں نوجوان شامل ہو ئے۔مظاہرین اور فورسز کے درمیان تصادم اندھیرا
ہونے تک جاری رہااور پتھراؤکرنے والے نوجوان ایک لمحے کے لئے بھی اپنی جگہ
سے پیچھے نہیں ہٹے۔ چوبیس گھنٹوں تک جاری رہنے والے اس تصادم میں دو عسکریت
پسنداورایک پولیس اہلکار جاں بحق جبکہ تصادم میں مقامی فوجی یونٹ کے ایک
میجرسمیت 7 اہلکار زخمی ہوئے ، جن میں پولیس اور سی آر پی ایف سے وابستہ
جوان بھی شامل ہیں۔
جھڑپ کے خاتمے پرپولیس نے بتایا کہ جھڑپ میں حز ب المجاہدین سے وابستہ حافظ
قرآن عاقب احمد بٹ عرف ذیشان ولد عبد الخالق بٹ ساکن نازنین پورہ ہاین کے
علاوہ اس کا ایک ساتھی حماس ساکن پاکستان کے علاوہ پولیس کانسٹیبل منظور
احمد نائیک ساکن اوڑی سلام آبادجاں بحق ہوئے۔ تصادم میں مقامی فوجی یونٹ
42RRکا میجر ،جموں کشمیر پولیس، آرمی اور سی آر پی ایف کے سات اہلکار بھی
بری طرح زخمی ہوئے۔جس جگہ جھڑپ ہورہی تھی وہاں سے تھوڑی دوری پر قریب ایک
درجن دیہات کے لوگ جمع ہوئے تھے جو دن بھر فورسز کیساتھ الجھتے رہے۔مظاہرین
محاصرہ توڑنے کی کوشش کرنے کے دوران شدید پتھراؤ کا سہارا لے رہے تھے جنہیں
منتشر کرنے کیلئے شدید لاٹھی چارچ، شلنگ اور پیلٹ فائرنگ کی گئی جس کے باعث
20مظاہرین مضروب ہوئے جن میں سے بیشتر پیلٹ لگنے سے زخمی ہوئے جن میں 8کو
سرینگر منتقل کیا گیا۔ 20زخمی افرادکو ایس ڈی ایچ ترال میں داخل کیا گیا ۔
اسی طرح 9مارچ2017ء کو سرینگر جموں شاہراہ پر اونتی پورہ قصبہ سے ڈیڑھ کلو
میٹر دور پدگام پورہ میں فورسز اور عسکریت پسندوں کے مابین ایک خونریز
تصادم آرائی میں دو نوجوان جاں بحق ہو گئے۔پورے علاقے میں زبردست احتجاجی
مظاہرے اور جھڑپیں ہوئیں۔ادھر ایک طرف تصادم جاری تھا تو دوسری جانب کئی
دیہات سے سینکڑوں نوجوان یہاں جمع ہوئے اور انہوں نے فورسز پر چاروں اطراف
سے زبر دست پتھراؤ کیا۔ جواب میں فورسز نے آنسو گیس کے سینکڑوں گولے داغے
تاہم جب مظاہرین منتشر نہیں ہوئے تو فورسزنے مظاہرین پر راست فائرنگ کی ،فائرنگ
کے دوران پندرہ سالہ نویں جماعت کے طالب علم عامر نذیر ولد نذیر احمد وانی
ساکن بیگم باغ کی گردن پر گولی لگی اور وہ خون میں لت پت گر پڑا۔ اگرچہ اسے
فوراً کاکہ پورہ اسپتال پہنچایا گیا لیکن یہاں ڈاکٹروں نے اسے مردہ قرار
دیا۔اسکے موت کی خبر پھیلتے ہی پورے علاقے میں مظاہروں اور جھڑپوں میں شدت
آگئی۔جواب میں فورسز نے گولیاں چلائیں جس کے نتیجے میں کم از کم 9 افراد کو
گولیاں لگیں۔ جنہیں سرینگر منتقل کیا گیا جبکہ مزید25 افراد زخمی ہوئے جن
کو پیلٹ اور شل لگے تھے۔ زخمیوں میں سے16 کو کاکاپورہ اسپتال پہنچایا گیا
جن میں سے7 زخمیوں جنہیں گولیاں لگی تھیں،کو برزلہ اسپتال منتقل کیا گیا
جبکہ 3کو جن میں سے ایک کو گولی اور دو کو آنکھوں کے اندر پیلٹ لگے تھے، کو
ایس ایم ایچ ایس پہنچایا گیا۔ پانچ بجے کے قریب کچھ افراد نے جلال الدین
گنائی ساکن ٹہاب نامی نوجوان کی لاش جھڑپ والے علاقے سے ضلع اسپتال لائی۔
لیکن اس کے جسم پر کوئی بھی زخم یا گولی کا نشان نہیں پایا گیا۔ عینی
شاہدین نے بتایا کہ اس کی موت بے تحاشہ شلنگ سے اخراج شدہ دھویں کے سبب دم
گھٹنے سے ہوئی ہے۔
اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ مارچ کی پہلی تاریخ سے لیکر اب تک جن جن مقامات پر
فوج اور پولیس نے ’’مجاہدین‘‘کو گھیرنے کی کوشش کی وہاں ایک جیسی صورتحال
پیش آئی ۔ان حالات میں جہاں ایک طرف سیکورٹی ایجنسیاں پریشان ہیں وہیں
عوامی غیض و غضب میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے اور یہ کوئی 2017ء کی خصوصیت
نہیں ہے بلکہ عرصہ دراز سے سے یہ معاملہ اسی طرح جاری ہے فوج کے سابق جرنیل’’
جنرل ڈووا‘‘ نے یہاں تک میڈیا کے ساتھ بات کرتے ہو ئے کہا تھا کہ جنوبی
کشمیر عملاََ ہمارے ہاتھوں سے نکل چکا ہے ۔رہی حکومت تو اس کی ’’رٹ کا عالم
‘‘قوم نے 2008ء سے لیکر2016ء تک دیکھ ہی لیا ہے کہ یہ عوامی محافظ کس طرح
’’فول پروف ‘‘ سیکورٹی میں ٹی وی اسکرینوں کے ساتھ چپک کر ’’گھومنے پھرنے
کی سہولیات کے فقدان‘‘سے بیزار اپنے مقدر پر روتے ہو ئے نظر آتے ہیں اور ان
کی زبانیں کس طرح ایک ہی وظیفہ دہراتے دہراتے گھستی ہوئی نظر آتی ہیں کہ
ہمیں ’’ایک موقع‘‘دو ،ہمارے دور میں مسئلہ کشمیر حل نا ہوا تو سیاست چھوڑ
دیں گے وغیرہ وغیرہ ۔مگر وہ عوام چینی یا روسی نہیں ہے جن کے سامنے یہ
دہائی دی جاتی ہے وہ اب مین اسٹریم کے ان بیانات سے دق ہو چکی ہے لہذا
انھیں اپنے غم و غصے کے اظہار کا موقع جب بھی ملتا ہے تو وہ پہلے سے زیادہ
شدت کے ساتھ اس کا اظہار کرتے ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ 2008ء سے لیکر اب تک جتنے
بھی احتجاج ہو ئے وہ پہلے سے زیادہ سخت اور بے قابو نظر آئے ۔
عوامی نفسیات کو سمجھنے میں دلی والے اس لئے ناکام ہیں کہ وہ حالات کے
دیانتدارانہ ادراک سے گھبراہٹ اور خجالت محسوس کرتے ہیں کہ عوامی تحریک کو
ستر برس تک پاکستان کے سرمڑنے والے اب اپنی عوام سے کیا کہیں گے کہ کشمیر
کی پوری قوم برگشتہ ہے اور آزادی مانگتی ہے ۔1990ء تک پرامن جدوجہد کو خاطر
میں نا لاتے ہو ئے دلی کے لئے 1990ء کی عسکریت سونے پر سہاگہ ثابت ہوئی کہ
یہ چند ’’سر پھرے اوربھاڑے کے ٹٹو‘‘ ہیں جنہیں ہم بہت جلد کچل دیں گے حتیٰ
کہ فوج کے بعد اخوان اور ایس او جی نے ان عناصر کو کچلنے میں کوئی کسر باقی
نہیں چھوڑی مگر دنیا 2008ء میں اس وقت حیرت میں ڈوب گئی جب عوام نے خوف سے
نجات حاصل کر کے ’’دلی کے منشاء کے عین مطابق‘‘پر امن اور سیاسی طریقوں کو
اپنا کر جلسوں جلوسوں کا لامتناہی سلسلہ شروع کردیا جو آج تک جاری ہے ۔میرا
یقین ہے کہ بندوق کے عروج کے دور میں فوجی ہلاکتوں سے خوف زدہ دلی جس طرح
’پر امن اور جمہوری‘طریقوں کی دہائی دیکر شرافت کا درس دیتے نہیں تھکتی ہے
وہ آج پر امن نہیں پر تشدد بلکہ صرف بندوق کے طریقہ جدوجہد کی متمنی ہوگی
تاکہ بندوق کو عالمی دہشت گردی سے نتھی کرتے ہو ئے بلا خوف و شرم جی بھر
کرمن پسند طریقوں سے کچلا جائے مگر 2008ء تحریک کشمیر کے لئے ایک زرخیز سال
ثابت ہوا جبکہ دلی کے لئے بدترین بنجر؟
کانگریس کو 66سالہ ’’ضیاعِ وقت‘‘کا فارمولہ اسی کو لے ڈوبا مگر اب نریندر
مودی اور اس کی ڈوول ڈاکٹرائین بھرپور قوت اور طاقت سے تحریک کو کچلنے کی
درپے یہ سوچتے ہو ئے نظر آتی ہے کہ پچھلوں نے سیکورٹی ایجنسیوں کو کھلا
ہاتھ فراہم نہیں کیا تھا ورنہ یہ بانسری کب کی بند ہو چکی ہوتی ۔2016ء کے
پورے چھ مہینوں نے یہ ثابت کردیا کہ عوام ہی قوت کا اصل سرچشمہ ہے جس کو
کوئی فوج یا طاقت ہرا نہیں سکتی ہے ۔عوام یہ سمجھ رہی ہے کہ دلی کی جارحانہ
پالیسی نے اس کی گود میں ایک لاکھ جنازے ،تیس ہزار بیوائیں،ہزاروں یتیم بچے
اور دس ہزار لاپتہ افراد ڈالد ئیے ہیں اب اگر مرنا ہی ہے تو ایک ساتھ کیوں
نہیں ۔اس سوچ کے پروان چڑھانے میں اہم ترین رول ’’ دلی کی کشمیریوں کو الگ
تھلگ کرنے کی پالیسی ‘‘نے ادا کیا۔اور شاید اسی ’’سر میں سر ملاتے ہو ئے ‘‘
آرمی چیف کے بعد ڈی جی پولیس نے بھی سخت بیانا ت کے بعدعوام کو متنبیہ کیا
یہ دیکھیے بغیر کہ کشمیری عوام ستر سال کی دھمکیوں اور تنبیہات سے عادی ہو
چکی ہے ۔پھر حیرت یہ کہ پولیس چیف کے ایک پولیس آفیسر کے گھر عساکر کے داخل
ہو کر مالی نقصانات پر سخت پریشانی لاحق تو ہوئی مگر کبھی اس عوام کو ان کے
ماتحتوں کے ذریعے پہنچائے ہو ئے نقصانات پر نہیں جن گذشتہ اٹھائیس برس سے
روز یہی ظلم دیکھ دیکھ کر اب آنکھیں پتھرا گئی ہیں ۔
دلی کا فی الحال من بدلنے کا ارادہ نہیں ہے نا مین اسٹریم کرسی سے بڑھکر
کچھ سوچ سکتی ہے ایسے میں کشمیری عوام مایوسی کے گہری کھائی میں گر کر دلی
کے ہی انداز میں سوچنے لگی ہے اور وہ ہے دلی کو اپنے طریقوں سے دق کرنا
شاید عساکر کو بچانے اور پرتشدد احتجاج کے پیچھے یہی سوچ کارفرما ہے کہ اگر
دلی کو پرامن طریقے اچھے نہیں لگتے ہیں تو کشمیریوں کو ہی کس حکیم نے پرامن
ذرائع استعمال کرنے کا مشورہ دیدیا ہے ۔ورنہ کو ن نہیں جانتا ہے کہ جہاں
دوبدو جنگ جاری ہو اس جگہ جانے سے جان کا خطرہ ہے ۔پھر سیکورٹی ایجنسیاں یہ
کیوں بھول جاتی ہیں کہ ان کے نزدیک عساکر کی پوزیشن جو بھی ہو مگر وہ عوام
کی اکثریت ایک خاص پسِ منظر میں انہیں ’’مجاہدین اسلام ‘‘سمجھتی ہے ،اور
یہی وجہ ہے وہ ناصرف انھیں پناہ دیتے ہیں بلکہ اب ایک عرصے سے اپنی جان داؤ
پر لگا کران کی جان بچانے کے لئے سر دھڑ کی بازی بھی لگاتی ہے ۔سابق وزیر
اعلیٰ عمر عبداﷲ درست کہا ہے کہ یہاں نوے میں بندوقیں تھیں پر اٹھانے والے
کم تھے اور آج اٹھانے کے لئے تیار تو ہیں پر بندوقیں دستیاب نہیں ہیں ۔دلی
والوں کے پاس اب بھی موقعہ ہے کہ وہ تکبرانہ روش چھوڑکر براہ راست بات چیت
کا آغاز کرے ایسا نا ہے کہ دلی کافی وقت گذرجانے کے بعد جب بات چیت کی حامی
بھر لے گی تو یہاں ان کیساتھ بات چیت کے لئے ہی کوئی تیار نا ہو جائے اس
لئے کہ کشمیریوں کے بدلتے تیور کی مکمل ذمہ دار دلی ہے عوام نہیں ۔ |