وفاقی وزیر بین الصوبائی رابطہ ریاض پیرزادہ کے مطابق اگر
وزیراعظم نواز شریف نے گلگت بلتستان کو ملک کا پانچواں صوبہ بنانے کی
منظوری دی ہے تواس فیصلے کے ردعمل میں تحفظات اور خدشات کا اظہار ہونا اور
اس پر بحث نئے سرے سے شروع ہونا کافی معنی خیز ہے۔مشیر خارجہ وزیراعظم
سرتاج عزیز کی سربراہی میں گلگت بلتستان سے متعلق جو کمیٹی تشکیل دی گئی
تھی، اس کی سفارشات منظر عام پر نہیں لائی گئیں، اس لئے تفصیلات کسی کو
معلوم نہیں۔یہ ریاست منقسم ہے۔ آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کا بھی وہی حا
ل ہے جو کرگل اور گلگت کا ہے۔ فرق جنگ بندی لائن کا ہے۔ کرگل اور گلگت
بلتستان جڑواں شہر ہیں۔ انمیں جغرافیائی فاصلہ زیادہ نہیں۔ مگر 70سال سے یہ
ایک دوسرے سے جدا ہیں۔ یوں تو منقسم ریاست جموں و کشمیر کے تقریباً تمام
شہروں کا یہی حال ہے۔ مگر کرگل اور گلگت بلتستان کی اپنی جداگانہ اہمیت ہے۔
آج جب بھارت مقبوضہ کشمیر میں نہتے عوام کا قتل عام تیز کر رہا ہے۔ برہان
وانی کی شہادت کے بعدوادی میں طویل عرصہ تک سرکاری اور سول کرفیو نافذ رہا۔
بھارت نے عوام کو جھکنے پر مجبور کرنے کے لئے جموں سے سرینگر مال بردار
ٹرکوں کی سپلائی روک دی ۔ دیہی علاقوں سے شہروں کو سبزیاں، دودھ اور دیگر
اشیاء کی سپلائی میں بھی رکاوٹیں پیدا کی گئیں۔ ان حالات میں کرگل کے عوام
نے پہلی بار وادی کے عوام کا بھر پور ساتھ نبھانے کا اعلان کیا ۔ کرگل در
اصل لداخ کا ایک حصہ ہے۔ انتظامی طور پر لداخ کوکشمیر ڈویژن کے ساتھ رکھا
گیا ہے۔ جبکہ وادی کی دوسری طرف بانہال کے پار ڈوڈہ، کشتواڑ، بھدرواہ،
پونچھ، راجوری، ہیرا نگر، کٹھوعہ، اودھم پور اور دیگر علاقے جموں ڈویژن کے
ساتھ ہیں۔ مقبوضہ کشمیر کے ان دو ڈویژنوں کو دو ڈویژنل کمشنرز اور دو آئی
جی پی چلاتے ہیں۔ جن کی نگرانی چیف سیکریٹری اور ڈی جی پی کرتے ہیں۔ یہ سول
انتظام ہے۔ عملی طور پر مقبوضہ ریاست پر بھارتی فوج اور نیم فوجی دستوں کا
کنٹرول ہے۔ یہاں تک کہ فوج کو ڈیوپلمنٹ فنڈز بھی دیئے جاتے ہیں۔
جب وادی میں بھارتی فورسز نے مسلمانوں کی نسل کشی تیز کر دی ۔ ایسے میں
لداخ کے بودھ اکثریت والے ضلع لیہہ کی طرف سے ایک بار پھر لداخ کو ریاست سے
کاٹ کر اسے یونین ٹریٹری یا بھارت کے مرکز کے زیر انتظام علاقہ قرار دینے
کا مطالبہ کیا گیا۔ ظاہر ہے یہ مطالبہ بی جے پی کی ایما پر کیا گیا۔ جس نے
لیہہ میں تمام مذاہب پر مشتمل جوائینٹ ایکشن کمیٹی تشکیل دی ۔ اس کی کمان
لداخ بدھسٹ ایسوسی ایشن کے ہاتھ میں رہی۔ تا ہم کمیٹی میں انجمن امامیہ اور
انجمن معین الاسلام نامی نام نہاد مسلم تنظیموں کو بھی شامل کیا گیا ۔ لداخ
کبھی آزاد خطہ تھا۔ مگر یہ گلگت بلتستان سے جدا نہیں رہا۔ کرگل ضلع مسلم
اکثریتی ہے۔ جس کا رابطہ سرینگر سے سونہ مرگ کے راستہ زوجیلا پہاڑی سلسلہ
سے ہوتا ہے۔ یہ راستہ سال میں بھاری برفباری کی وجہ سے چھ ماہ سے زیادہ
عرصہ تک بند رہتا ہے۔ یہ خطہ اس دوران دنیا سے کٹ جاتا ہے۔ بھارت نے موسمی
اور جغرافیائی حالات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ریاست سے باہر ہماچل پردیش کو
لیہہ سے جوڑ دیا ہے۔ لیہہ سے منالی تک 490کلو میٹر سڑک لیہہ کو ہماچل سے
ملاتی ہے۔ اب لیہہ کی آمد و رفت سرینگر کے بجائے ہماچل کے ساتھ جاری ہے۔
جبکہ لیہہ سے سرینگر براستہ کرگل کا فاصلہ ہماچل کے مقابلے میں تقریباً
80کلو میٹر کم ہے۔ یعنی لیہہ سے سرینگر کے بجائے منالی کو ترجیح دینے سے
عوام کے تقریباً تین گھنٹے زیادہ کا سفر کرنا پڑتا ہے۔ اس کے باوجود لیہہ
کے عوام کو کشمیرسے کاٹ کر ہماچل کے ساتھ جوڑ دیا گیا ہے۔ یہ بھارت
کاریاستی تقسیم کی جانب ایک قدم ہے۔ پہلے مرحلہ میں لداخ کو بھارت کے زیر
انتظام علاقہ قرار دلانے میں یہی حکمت عملی کا ر فرما ہو سکتی ہے۔ مگر گلگت
بلتستان کو آزاد کشمیر سے انتظامی طور پر جوڑنے کے بجائے اسے سی پیک کی
خاطر الگ کرنے کی منطق سمجھ سے بالاتر ہے۔گلگت بلتستان منقسم ریاست کا حصہ
ہے۔گلگت بلتستان کے عوام کے آزاد کشمیر کے عوام سے متعلق آراء جو بھی ہوں ،
مگر تاریخی حقائق کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ تقسیم کا عنصر بھارت کا
ہے۔جس طرح لیہہ کی بدھسٹ آبادی کو کشمیری عوام سے دور کیا جا رہا ہے اورہہ
کو کرگل سے بھی الگ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے جبکہ دونوں کے درمیان
200کلومیٹر سے زیادہ ہے۔ اس کے باوجود کرگل کے عوام نے لیہہ والوں کے
مطالبے کو مسترد کر دیا ۔ وہ کشمیر کے ساتھ رہنے میں ہی لداخ کا مفاد
سمجھتے ہیں۔ کرگل سے سرینگر کا فاصلہ 200کلو میٹ کے قریب ہے۔ تا ہم یہ
فاصلہ کرگل کو گلگت سے جوڑنے کے مساوی ہے۔ البتہ کرگل سے اسکردو کا فاصلہ
تقریباً90کلو میٹر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کرگل اسکردو شاہراہ کو کھولنے کے
مطالبات ہو رہے ہیں۔ یہ قدرتی راستے ہیں۔ بھارت منقسم جموں و کشمیر کے
قدرتی راستوں کو کھلونے کے بجائے مقبوضہ ریاست کو بھارت سے جوڑنے کے مصنوعی
راستے تلاش کر رہا ہے۔ اس کی سیاست میں بھی یہی حال ہے۔
گلگت بلتستان کے مستقبل کا فیصلہ کرتے وقت انتہائی محتاط انداز اختیار کرنا
چاہیئے۔ آزاد کشمیر کی طرح اسے بھی صوبہ بنانا مسلہ کشمیر کا حلیہ بگاڑنے
کے مترادف ہو گا۔گلگت بلتستان کے عوام کو جملہ حقوق کی ضرورت ہے۔ یہاں کی
تعمیر و ترقی، یونیورسٹی، میڈکل کالج، انجیئرنگ یونیورسٹی، با اختیار عدلیہ،
اپنا چیف سیکریٹری، آئی جی پی، غرض عوام کو تمام آئینی مراعات کی ضرورت ہے۔
یہ سب اس خطہ کو پاکستان کا صوبہ بنائے بغیر بھی ہو سکتا ہے۔ یا پاکستان کے
آئین میں ترمیم کر کے گلگت بلتستان کو مسلہ کشمیر کے حل تک صوبے جیسے
اختیارات دیئے جا سکتے ہیں۔ قومی اسمبلی اور سینٹ میں ہی نہیں بلکہ پاکستان
کے تمام پالیسی ساز اداروں میں اسے نمائیندگی ملنی چاہیئے۔ یہی مطالبہ آزاد
کشمیر کا بھی ہو سکتا ہے۔ اسے بھی مسلہ کشمیر کے حل تک مشروط طور پر
پاکستان کے آئین میں گنجائش کے طور پر شامل کیا جا سکتا ہے۔ تا کہ عوام کا
استحصال بند ہو سکے۔کہا جاتا ہے کہ ماضی میں آزاد کشمیر کو بھی پاکستان کا
صوبہ بنانے کی کوشش کی گئی۔ تا ہم معاملے کی حساسیت کی وجہ سے یہ کوشش ترک
کر دی گئی۔آزاد کشمیر یا گلگت بلتستان کو صوبہ بنانا سیاسی حماقت ہو گی۔ تا
ہم جوابدہی کا عمل اور پالیسی سازی میں آئینی حیثیت کا تعین بھی ضروری ہے۔
مسلہ کشمیر کے حل تک مشروط طور پر ایسا بندو بست ہو جس کی وجہ سے بھارت کو
لداخ یا مقبوضہ ریاست کے کسی حصہ پرمستقل قبضہ کرنے کی تاویل نہ مل سکے۔ آج
اگر نریندر مودی لال قلعہ کی فصیل پر کھڑے ہو کر اعلانیہ طور پر گلگت اور
آزاد کشمیر سمیت بلوچستان کی آزادی کی بھڑکیں مار رہے ہیں تو اس کھیل میں
سازش کو عمل دخل ہے۔ مودی نے یو پی ، اترا کھنڈ، گوا میں ریاستی اسمبلی پر
قبضہ کر لیا۔ یو پی بی جے پی نے ایک بھی مسلمان کو ٹکٹ نہ دیا۔ مسلمانوں کی
تقسیم نے انہیں کم از کم 80اسمبلی سیٹوں سے محروم کر دیا۔بھارت مودی کی زیر
قیادت مسلمانوں کی تقسیم،افغانستان اور ایران کو پاکستان کے خلاف استعمال
کرنے یا متنازعہ ریاست جموں و کشمیر کی بندر بانٹ کے لئے سرگرم ہے۔ پاکستان
کو گلگت بلتستان کے سیاسی مستقبل کا کوئی فیصلہ کرنے سے پہلے باریک بینی سے
حقائق کا علمی جائزہ لینا چاہیئے۔ تا کہ بھارت ریاست جموں و کشمیر کے ٹکڑے
ٹکڑے کرنے اور ریاستی اکائیوں میں مستقل سرحد قائم کرنے کی سازشوں میں
کامیاب نہ ہو سکے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ مقبوضہ وادی میں بھارتی قتل عام
کے خلاف اور ریفرنڈم کے حق میں آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کو مشترکہ طور
پر سفارتی اور سیاسی طور پر صف آراء کیا جائے۔ یہ ان کی کسی مستقل تقسیم کے
بجائے ون یونٹ بننے سے آسان ہو گا۔ |