زنا انسانی معاشرہ سب سے قبیح جرم ہے ، اس کے اثرات فرد
سے لیکر مجتمع تک مرتب ہوتے ہیں ۔ اسلام نے اس سنگین جرم کی روم تھام کے
لئے متعدد پاکیزہ تعلیمات دی ہے جنہیں بروئے کار لاکر نہ صرف فرد کی اصلاح
ممکن ہے بلکہ صالح معاشرہ کی تعمیر میں بھی بڑا اہم رول ہے ۔
پہلے ہم زنا کی روک تھام سے متعلق اسلام کا پیارا اصول دیکھتے ہیں ۔
(1) اسلام نے ہمیں شرمگاہ چھپانے اور اس کی حفاظت کی تعلیم دی ہے تاکہ
خواہشات نفس پہ کنٹرول رہے ۔ مرد کے لئے ناف سے لیکر گھٹنے تک جبکہ عورتوں
کے لئے سر سے پیر تک ستر پوشی کرنی ہے ، ستر بھی ایسا کہ اعضائے بدن کی
نمائش نہ ہو، نہ ہی کپڑا جاذب نظر ہو، نہ باہر نکلتے وقت زیب وزینت کا
اظہار ہو۔
(2) عورتوں کے لئے حجاب کا حکم اسے ہر قسم کے شہوانی شر سے محفوظ رکھتا ہے
۔
(3) عورت کے لئے بغیرمحرم کے کسی قسم کا سفر کرنا حرام ہے ۔
(4) اسلام نے مردوعورت دونوں کو نظریں نیچی کرنے کا حکم دیا تاکہ ایک دوسرے
کے اوپر نظر نہ پڑے جس سے شہوانی خیالات پیدا ہونے اور اس سے گناہ میں واقع
ہونے کا امکان ہے۔ اگر خدانخواستہ اچانک نظر ٹکرا جائے تو پھر نگاہ نیچی
کرلے ۔
(5) بالغ ہونے پر لڑکا اور لڑکی شادی کرلے تاکہ شرمگاہ کی حفاظت ہو اور
انسانی نفس کنٹرول میں رہے جنہیں شادی کی طاقت نہیں وہ روزہ رکھے جو نفسانی
خواہشات کے ازالے کا سبب ہے ۔
(6) کوئی اجنبی کسی اجنبیہ سے خلوت نہ کرے کیونکہ وہاں شیطان گناہ پر
ورغلانے کا کام کرسکتا ہے ۔
(7) بلاضرورت اجنبی مرد کا عورت سے یا اجنبیہ عورت کا مرد سے بات کرنا منع
ہے ، اگر ضرورت پڑے تو پردے کے اوٹ سے بات کرے اور اس طرح بات نہ کرے کہ
ایک دوسرے کی طرف میلان کا سبب بن جائے ۔
(8) مخلوط تعلیم ، مخلوط محفل ، مخلوط تجارت اور مخلوط کام کاج وغیرہ زنا
میں واقع ہونے کا سبب ہے اس لئے اسلام کی نظر میں مردوزن کا اختلاط حرام ہے
۔
(9) ان تمام باتوں کے ساتھ اسلام نے ہمیں یہ بھی تعلیم دی ہے کہ زنا کے
قریب بھی نہ جاؤ ، اس کا مطلب یہ ہے کہ زنا میں وقوع کا جو بھی سبب ہو تم
اس سے دور رہو۔
(10) اگر کسی سماج میں کسی سے جرم زنا ہوجا ئے اور اس جرم زنا پہ چار عینی
گواہ بھی مل جائے تو تعزیرات اسلام کے تحت شادی شدہ کو سنگسارکرنا ہے اور
غیرشادی شدہ کو سوکوڑے اور ایک سال کے لئے شہر بدر کرنا ہے ۔
زنا سماج کی تباہی وبربادی کا سبب ہے اس وجہ سے اسلام میں اس کی سزا بھی
بہت سنگین ہے ۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آج کل سائنس کافی ترقی کرگیا
ہے وہ ڈی این اے(DeoxyRibonuclec Acid) ٹسٹ کے ذریعہ زانی کا پتہ لگا لیتا
ہے اس وجہ سے سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ڈی این اے ٹسٹ کسی کو زانی قرار
دینے اور اس پر سزا نافذ کرنے کے لئے کافی ہے ،اس سلسلے میں شریعت کا کیا
موقف ہے؟
یہاں سب سے پہلے آپ کو یہ بتلادوں کہ زنا کے ثبوت کے لئے اسلام کا کیا طریق
کار ہے ؟
اسلام نے زنا کے ثبوت کے لئے دو طریقہ متعین کیا ہے ۔ ایک طریقہ تو یہ ہے
کہ خود زانی مرد یا زانیہ عورت بغیر کسی جبروتشدد کےاقرار کرلے کہ اس نے
زنا کیا ہےاس حال میں کہ وہ بالکل ہوش وحواش میں ہو ۔ بخاری شریف میں ایک
دیہاتی کے بیٹے کے زنا کا واقعہ مذکور ہے کہ اس نے نبی ﷺ سے کہا کہ میرا
بیٹا اس آدمی کے پاس کام کرتا تھا ، میرے بیٹے نے اس آدمی کی بیوی سے زنا
کرلیا اس کے بدلے میں نے سوبکری اور ایک باندی دیدی ہے اور جب اہل علم سے
پوچھا تو پتہ چلا کہ میرے بیٹے کو سو کوڑے لگیں گے اور ملک بدر کیا جائے گا
تو نبی ﷺ نے فرمایا: تمہار ے بیٹے کو سو کوڑے لگائے جائیں گے اورایک سال کے
لئے ملک بدر کیا جائے گا۔ اس حدیث میں مزیدیہ الفاظ ہیں :
وأمَّا أنتَ يا أُنَيسُ - لِرَجُلٍ - فَاغْدُ على امرَأةِ هذَا فَارْجُمهَا
. فغَدا عليهَا أُنَيسٌ فَرَجَمَهَا .(صحيح البخاري:2695)
ترجمہ: اےانیس ! تم اس عورت کے گھر جاؤ اور اسے رجم کر دو ( اگر وہ زنا کا
اقرار کر لے ) چنانچہ انیس گئے، اور ( چونکہ اس نے بھی زنا کا اقرار کر لیا
تھا اس لیے ) اسے رجم کر دیا۔
زنا کے ثبوت کے لئے دوسرا طریقہ یہ ہے کہ چار عادل مسلمان جو عینی شاہد ہو
وہ گواہی دے اس حال میں کہ ان چاروں نے شرمگاہ کو شرمگاہ میں داخل دیکھاہو۔
اس کی دلیل اللہ کا یہ فرمان ہے :
وَاللَّاتِي يَأْتِينَ الْفَاحِشَةَ مِن نِّسَائِكُمْ فَاسْتَشْهِدُوا
عَلَيْهِنَّ أَرْبَعَةً مِّنكُمْ ۖ(النساء : 15)
ترجمہ: تمہاری عورتوں میں سے جو بے حیائی کا کام کریں ان پر اپنے میں سے
چار گواہ طلب کرو۔
زنا اور ڈی این اے ٹسٹ کی شہادت
آج کل جو ڈی این اے ٹسٹ سے زانی کا پتہ لگایا جاتا ہے وہ یقینا ترقی یافتہ
زمانے کی سہولیات میں سے ایک سہولت ہے جس سے بہت سارے کاموں میں مدد لی
جاسکتی ہے لیکن زنا کے ثبوت میں شرعا ڈی این اے ٹسٹ کابالکلیہ اعتبار نہیں
کیا جائے گا ۔ اس کے بہت سے عقلی ونقلی دلائل ہیں جنہیں میں مختصرا پیش
کرنا چاہتا ہوں جس سے اسلام کاموقف بآسانی سمجھا جاسکتا ہے ۔
(1) انسان کی عقل محدود ہے وہ وہیں تک سوچ سکتا ہے جہاں اس کی عقل کی انتہا
ہے ۔ جس خالق نے ہماری عقل بنائی ،اسی نے انسان کو ڈی این اے کا سراغ دیا
جسے پہلےسے ہی اس کے متعلق علم بھی ہے۔ دین اسلام کی تعلیمات اسی خالق کی
طرف سے ہے ، زنا کے ثبوت میں اس کی رہنمائی ہی ہمارے لئے سب سے بہتر اور
کافی ہے ۔ اسے انسان کی بھلائی کا علم ہے اور اس نے ہمیں جو علم دیا ہے بہت
محدود وقلیل ہے ۔ اللہ کا فرمان ہے:
وَمَا أُوتِيتُم مِّنَ الْعِلْمِ إِلَّا قَلِيلًا (الاسراء:85)
تمہیں تو تھوڑاسا علم دیا گیا ہے۔
(2) اللہ تعالی نے جو دین دیا ہے وہ قیامت تک کے لئے ہے ، اس دین میں زنا
کے ثبوت پہ چارمردوں کی گواہی سیکڑوں سال سے ہے اور یہ قانون شہروگاؤں ساری
جگہوں کے لئے ہے ۔ آج بھی بہت سے گاؤں ہیں جہاں ڈی این اے ٹسٹ کی سہولت
نہیں ہے اور پھر ٹسٹ کی سہولت آلات وتکنیکی مادے پر منحصر ہے جب یہ ناپید
ہوں تب بھی ٹسٹ ناپید ہوجائے گا ۔ اللہ کا دیا ہوا قانون ہرزمانے اورہرجگہ
کے لئے ہے اس لئے قانون الہی ہی ہمارے کافی ہے اور اسی میں لوگوں کی بھلائی
مضمر ہے۔
(3) زنا کی سزا سنگین ہونے کے سبب اس کی گواہی بھی ٹھوس اصول پر مبنی میں
جو علم یقین کا فائدہ دیتا ہے اور وہ ہے چار مسلمان مرد کی عینی گواہی ۔
حدود وقصاص میں ڈی این اے ٹسٹ معتبر نہیں کیونکہ حدودوقصاص میں اسلام کا
اصول کہتا ہے کہ اگراس میں شبہ پیدا ہوجائے تو حد ساقط ہوجاتی ہے ۔
ادرَؤُوا الحدودَ بالشُّبُهاتِ(نيل الأوطار:7/272 (
ترجمہ: حدود شبہات کی بنا پر ساقط ہوجاتی ہیں ۔
٭ اسے امام شوکانی نے احتجاج کے قابل کہا ہے اور شیخ ابن باز نے کہا یہ
متعدد طرق سے مروی ہے ، سب میں ضعف ہے مگر ایک دوسرے کی تقویت سے حسن لغیرہ
کے درجے تک پہنچ جاتی ہے ۔
اس معنی کا ایک صحیح اثرجو ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے شیخ البانی
نے ذکر کی ہے ۔
ادرؤوا الجَلْدَ والقتلَ على المسلمينَ ما استطعتُمْ(إرواء الغليل:8/26(
ترجمہ: جہاں تک تم سے ہوسکے مسلمانوں پر کوڑے اور قتل کو نافذ کرنے سے بچو۔
یہ بات نبی ﷺ نے بھی بیان فرمائی ہے جو ترمذی شریف میں حدیث نمبر1424کے تحت
ذکر ہے ۔
تو زنا کے ثبوت کے لئے ایسی گواہی تسلیم نہیں ہوگی جس میں شبہات ہوں ۔ ڈی
این اے ٹسٹ میں شبہات بھی ہیں اور خطا کا امکان بھی ہے ۔اس لئے اسے علم و
گمان کا درجہ تودیا جاسکتا ہے لیکن قطعی علم کبھی نہیں کہا جائے گا جبکہ
زنا کے ثبوت کے لئے قطعی علم چاہئے جوچار گواہوں کی گواہی سے ہی حاصل ہوگا۔
اللہ کا فرمان ہے :
إِنَّ الظَّنَّ لَا يُغْنِي مِنَ الْحَقِّ شَيْئًا ۚ إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ
بِمَا يَفْعَلُونَ (یونس:36)
ترجمہ: اوربیشک گمان حق بات میں مفید نہیں ہوتا، یہ جو کچھ کررہے ہیں یقینا
اللہ کو سب خبرہے۔
(4) سدا سے پاکباز عورتوں پر زنا کی تہمت لگائی جاتی رہی ہے اور آج بھی جب
کسی فاسق وفاجر مرد کو کسی مومنہ عورت سے برائی کا موقع نہیں ملتا تو اس پر
زنا کا الزام لگاکر مطعون کرنے اور سزا دلوانے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ اس لئے
اسلام اس کی گواہی کی کڑی شرط رکھی ۔ اگر چار مرد گواہ میں سے ایک بھی کم
ہوا یا ان میں سے کسی ایک نے بھی زنا کرتے نہیں دیکھا تو گواہی نہیں مانی
جائے اور جس نے عورت پہ الزام لگایا اس حال میں کہ اس نے چار لوگوں کی
گواہی نہ پیش کرسکا تو اسے اسی کوڑے لگائے جائیں گے ۔اللہ کا فرمان ہے :
وَالَّذِينَ يَرْمُونَ الْمُحْصَنَاتِ ثُمَّ لَمْ يَأْتُوا بِأَرْبَعَةِ
شُهَدَاءَ فَاجْلِدُوهُمْ ثَمَانِينَ جَلْدَةً (النور:4(
ترجمہ: اور جو لوگ پاکدامن عورتوں پر تہمت لگائیں پھر چار گواہ پیش نہ
کرسکیں انھیں اسی کوڑے لگاؤ۔
مان لیتے ہیں ڈی این اے ٹسٹ ایک مرد کی گواہی کے برابر ہے پھر بھی تین مرد
کی گواہی باقی ہے اور چار گواہی میں سے ایک گواہ بھی کم ہوا یا کسی ایک
گواہ نے بھی شرمگاہ ملتے نہیں دیکھا تو گواہی مسترد ہوجائے گی ۔
ڈی این اے ٹسٹ : شبہات اور امکانیات خطا
(1) اگر ٹسٹ کرنے والے آلے یا تکنیک میں گڑبڑی ہو تو ٹسٹ رپورٹ صحیح نہیں
ہوگی ۔
(2) ٹسٹ کرنے والا ناتجربہ کار ہو یا ٹسٹ کرتے ہوئے غلطی کرجائے تو اس صورت
میں بھی رپورٹ غلط آئے گی ۔
(3) ٹسٹ کے وقت جانچ کی چیزیں ادھر سے ادھر ہوجا ئے جس کا علم ٹسٹ کرنے
والے کو نہ ہوسکے ، تجربہ گاہ میں ایسا ممکن ہے جہاں ہزاروں لوگوں کے خون ،
پیشاب ، منی اور آلات وغیرہ رکھے ہوئے ہوتے ہیں ۔
(4) اگر مسلمان آدمی کا معاملہ ہواور ٹسٹ کرنے والے غیرمسلم ہوں تو کسی
منفعت کی وجہ سے رپورٹ غلط بناسکتے ہیں مثلا اسے رشوت دیا گیاہو یا اسے اس
مسلم سے یا اسلام سے نفرت ہو وغیرہ ۔
(5) دنیا کے سارے ٹسوں کے متعلق عام طور سے ایسا تجربہ ہوا ہے کہ رپورٹ میں
کچھ تھا اور حقیقت اس کے برعکس نکلی ۔ مجھے ایک آدمی کی حقیقت معلوم ہے جس
نے الٹراساؤنڈ سے جنین کا علم حاصل کیا رپورٹ میں لڑکی بتلائی گئی جب حمل
ساقط کروایا تو پتہ چلا لڑکا تھا۔ تو ٹسٹ خطا کرسکتا ہے اس وجہ سے اس پہ
پورا انحصار نہیں کیا جائے گا۔
(6) اجتماعی عصمت دری میں آج بھی ڈی این اے ٹسٹ کارگر نہیں ہے ، ملے جلے
سگنل کسی تیسرے شخص کی طرف بھی غلط نشاندہی کرسکتے ہیں ۔
زنا کے ثبوت میں ڈی این اے ٹسٹ کے اعتبار سے خطرات ونقصانات
(1) اگر ڈی این اے ٹسٹ کو زنا کی حد قائم کرنے کے لئے معتبر اور کافی مان
لیا جائے تو آج کے پرفتن دور میں جعلی ٹسٹ رپورٹ بنوانا، پاکباز عورتوں پر
تہمت لگانا اور رشوت دے کر رپورٹ تبدیل کرنا آسان ہوجائے گا بلکہ ہندوستان
جیسی جگہوں پہ آج کل ایسا ہوبھی رہاہے ۔
(2) ہندومسلم زنا کیس میں معاملہ بیحد سنگین ہوسکتا ہے ، تنازع کے ساتھ
معصوم لوگوں کے ساتھ بھی تکلیف دہ برتاؤ ہوسکتا ہے اور ٹسٹ کے مراحل میں
ہندوستان جیسے ملک میں کیا کیا گل کھلے گاتصور نہیں کیا جاسکتا۔
(3) اگر ٹسٹ کی بنیاد پر کسی کو سزائے موت دیدی گئی اور بعد میں معلوم ہوا
کہ ٹسٹ جعلی تھا یا ٹسٹ رپورٹ کسی وجہ سے غلط آئی تو جس کی جان گئی ہے وہ
توواپس نہیں آسکتی ہے ۔ اسلام نے ناحق کسی کے قتل کرنے کو پوری انسانیت کے
قتل کے مساوی قرار دیا ہے، وہ اسلام محض ڈی این اے ٹسٹ پہ کسی کے قتل کا
فیصلہ کیسے سنائے گا؟ جو ایسا فیصلہ کررہے ہیں وہ فطری قانون کے خلاف بھی
اور انسانیت کے حق میں بھی نہیں ہے ۔
اسلام ڈی این اے کے مخالف نہیں ہے۔
اسلام کبھی سائنس و ٹیکنالوجی کے مخالف نہیں رہا ہے ۔ڈی این اے کی ایجاد سے
بہت سارے باریک مسائل اور اہم معاملات کے حل میں کافی مدد ملی ہے اس لئے
اسلام نہ تو اس کی افادیت سے انکار کرتا ہے ، نہ ہی اس کا مخالف ہے ۔ زیر
نظر مضمون میں یہ بتلایا گیا ہے کہ اسلام نے حدود و قصاص کی بنیاد عینی
گواہ پر رکھی ہے اس لئے اس سلسلے میں ڈی این اے ٹسٹ بالکلیہ معتبر قرار دے
کر مجرم کے قتل کا فیصلہ صادر نہیں کیا جا سکتا تاہم یہ ٹسٹ مجرم کی شناخت
میں ضرور معاون بن سکتا ہے۔
(1 ) اس ٹسٹ کو مجرم کے اقبال جرم کے لئے وسیلہ بنایا جاسکتا ہے۔
(2 ) آج سائنس کی ترقی سے قتل کے واردات سے ملے آثار کے ذریعہ قاتل تک
پہنچا جا سکتا ہے۔ واضح رہے اس بنیاد پر کسی کو متہم تو قرار دیا جاسکتا ہے
مگر اسے قاتل قرار دے کر اس پرقتل کی سزا نافذ نہیں کی جاسکتی ہے کیونکہ
مضمون میں واضح کردیا گیا ہے کہ حدود و قصاص میں اس ٹسٹ کی بنیاد پر کسی کو
سزا نہیں دی جاسکتی۔
(3 ) یہ ٹسٹ وہاں کارگر ہے جہاں کسی ایک بچے کے کئی دعویدار ہوں ۔
(4 ) اسی طرح اسپتال میں چند نومولود میں اختلاط ہونے پر ڈی این اے سے مدد
لی جاسکتی ہے۔
(5 ) حدود و قصاص کے علاوہ دیگر تمام جرائم میں یہ ٹسٹ معتبر ہوگا۔
(6 ) حتی کہ قاضی زنا کیس میں ملوث افراد کو بھی ڈی این اے ٹسٹ پہ مجبور
کرسکتے ہیں تاکہ معاملہ کی جانچ پڑتال میں آسانی ہو سکے۔
اس لئے یہ کہنا کہ اسلام سائنس یا ڈی این اے کے مخالف ہے سراسر بیجا ہے۔ |