آبائی وطن سے ہجرت کرکے کسی دوسرے ملک کی فضاؤں میں
زندگی گزارنا آزمائش سے بھرپور،مشکل امر ہے۔ جنم دھرتی کے دینی، معاشی یا
امن و امان کے حالات سازگار نہ ہوں تو ہجرت اختیار کرکے کہیں اور بسیرا
کرنا روزاول سے انسانی زندگی کا حصہ رہا ہے۔ قرآن کریم کی آیات گواہ ہیں کہ
انبیائے کرام علیھم السلام کی ذوات قدسیہ نے بھی ہجرتیں کیں۔ ہمارے پیارے
نبیﷺ نے مکی زندگی میں دو دفعہ صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم کوحبشہ کی طرف ہجرت
کرنے کی اجازت عنائت فرمائی۔ جب مکہ مکرمہ میں رہنا از حد دشوار ہو گیا تو
حکم الہی کی تعمیل فرماتے ہوئے خودبھی مکہ مکرمہ کو چھوڑا اور یثرب تشریف
لے گئے جو آپ کے قدموں کی برکت سے ’’مدینہ طیبہ‘‘ بن گیا۔ جب آپﷺ مکہ مکرمہ
سے الوداع ہو رہے تھے ، تو بار بار مڑ کے واپس دیکھتے اور فرماتے کہ ’’ا ے
مکہ مکرمہ عنقریب ہم واپس لوٹ کر آئیں گے‘‘۔ یہ بھی نبی کریمﷺ کاجائے ولادت
سے محبت و الفت کا ایک انداز تھا۔یہ حقیقت ہے کہ تارکین وطن کو دوسری جگہ
سکونت اختیار کرنے کیلئے کئی مسائل اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہ
مسائل عموما دو طرح کے ہوتے ہیں۔اک طرف تارکین وطن کونئے ملک کے موسمی
حالات ، انسانی رویوں اورریاستی قوانین کا سامنا ہوتا ہے۔میزبان کمیونٹی
بھی باہر سے آنے والوں کو آسانی سے قبول نہیں کرتی جس کی وجہ سے دشواریاں
پیش آتی ہیں۔ دوسرے مسائل وہ ہوتے ہیں جن کا تعلق آبائی ممالک سے ہوتا ہے ۔
آج ہم سمندر پار پاکستانیوں کے چند وہ مسائل ذکرکررہے ہیں جن کا تعلق آبائی
وطن عزیز’’ پاکستان‘‘ سے ہے۔ اوورسیز پاکستانی ملک کا عظیم سرمایہ ہیں جو
اپنی جان جوکھوں میں ڈال کر ہر سال اربوں ڈالرز کا زر مبادلہ وطن بھیجتے
ہیں۔ بہت سے سکول، مساجد، ہسپتال اورووکیشنل ادارے سمندرپار پاکستانیوں کے
عطیات سے تعمیر ہوئے اورکام کر رہے ہیں۔ بیشمار غریبوں، یتیموں، بیواؤں اور
بے کسوں کاسہارا وہ تارکین وطن ہیں جو خون پسینے کی کمائی پاکستان بھیجتے
ہیں۔ زلزلے ہوں یا سیلاب، ہر قدرتی آفت کے وقت ان سمندرپار پاکستانیوں نے
ہم وطن بہن بھائیوں کی بھرپور مدد کی اور مشکل کی گھڑی میں کبھی انہیں بے
سہارا نہیں چھوڑا ۔ دہشت گردی ہو یا بم دھماکے اوورسیز پاکستانیوں کے دل
اپنے ہم وطنوں کے ساتھ دھڑکتے ہیں۔ پاکستان کے تمام ائر پورٹس کی آباد کاری
اور چہل پہل زیادہ تر ان سمندر پار پاکستانیوں کی آمد و رفت سے ہی ہے۔ لیکن
اس کے باوجود ان تارکین وطن کو اپنے ہی ملک میں کئی دشواریوں کا سامنا ہے۔
لین دین کے تنازعات ہیں تو کہیں زمینوں اور گھروں پر ناجائز قبضوں کے مسائل۔
اک طرف سرمایہ کاری میں دھوکہ دہی کے کیسز ہیں تو دوسری طرف جائداد کی
تقسیم میں نا انصافی کے جھگڑے۔ اس کے ساتھ ساتھ امن و امان اور جان و مال
کے تحفظ کے خدشات بھی موجود ہیں ۔ جب تعلیمی اداروں میں چھٹیاں ہوتی ہیں تو
پی آئی اے کے کرائے بڑھا دئے جاتے ہیں جس سے فیملی کیساتھ پاکستان جانامشکل
ہوجاتاہے۔ یہ مسائل دیرینہ ہیں اور سالہا سال سے سمندر پار پاکستانی برداشت
کررہے ہیں۔ مشرق وسطی میں رہنے والے تارکین وطن زیادہ ترانفرادی طور پر
محنت مزدوری کیلئے جاتے ہیں ۔ خاندان کے باقی افراد گھر پرموجود ہوتے ہیں ۔
اس لئے ان کے مسائل کی نوعیت قدرے مختلف ہے ۔ لیکن مغربی ممالک خصوصا
برطانیہ میں لوگ اپنے خاندانوں کے ہمراہ رہ رہے ہیں۔ جب واپس جاتے ہیں تو
کئی مذکورہ مسائل ان کی راہ دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ برطانیہ میں رہنے والی
پاکستانی و کشمیری کمیونٹی کے نادرا کارڈ، پاسپورٹ، ویزہ اور دستاویزات کی
تصدیق کے مسائل کی شدت میں کمی آچکی ہے ۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ ہائی
کمشنر برائے پاکستان لندن سید ابن عباس اور ڈپٹی ہائی کمشنر ڈاکٹر اسرار
حسین تجربہ کار بیوروکریٹس ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ حکمت عملی اور جانفشانی کے
ساتھ وہ ان مسائل کے حل کی طرف بھرپور توجہ دے رہے ہیں۔خوش آئند بات یہ ہے
کہ اوورسیز پاکستانیوں کے مسائل کے حل اور جلد انصاف مہیا کرنے کیلئے حکومت
پنجاب نے OVERSEAS PAKISTANIS COMMISSION کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا ہے
جس کا ہیڈ آفس لاہور میں ہے جبکہ ذونل دفاتر ہر ضلع میں قائم ہیں اور ڈی پی
اوز اور ڈی سی اوز بھی اس ضلعی کمیٹی کا حصہ ہیں ۔ او ۔پی۔سی پنجاب کا
کمشنر افضال بھٹی کو مقرر کیا گیا ہے۔ڈی آئی جی کیپٹن احمد مبین زیدی (شہید)
جیسے ایمان دار افسر بھی او۔ پی۔ سی کا حصہ رہ چکے ہیں۔گزشتہ ہفتے لندن میں
اوورسیز پاکستانیز ویلفئر کونسل کے ایک وفد نے چیئرمین نعیم عباسی کی
سربراہی میں اوورسیز کمشنر افضال بھٹی سے ملاقات کی جس میں اس تنظیم کے
مرکزی ترجمان کے طور پر راقم الحروف بھی شریک تھا۔ پاکستانی کمیونٹی کووطن
عزیز میں پیش آنے والی مشکلات اور مسائل سے انہیں آگاہ کیا گیا اور ان کی
کاوشوں کو خراج تحسین پیش کرتی ہوئے تعریفی شیلڈ بھی پیش کی گئی ۔ کمشنر نے
بتایا کہ حکومت پنجاب نے آسان طریقے سے اپنی شکایات دج کرانے کیلئے او ۔پی۔
سی کی ویب سائیٹ https://www.opc.punjab.gov.pk بنادی ہے۔ اس ویب سائیٹ کا
وزٹ کرکے کوئی بھی فرد بغیر کسی سیاسی جانبداری اور سفارش کے بحیثیت سمندر
پار پاکستانی آن لائین اپنی شکایت درج کروا سکتا ہے اور بعد ازاں درخواست
گزاروں کو کمشن کی جانب سے کیس کی پیشرفت سے بھی آگاہ کیا جاتا ہے۔سائلین
کو یہ بات بھی ذہن نشین رکھنی چاہیے کہ بعض مسائل بہت پیچیدہ اور پرانے ہیں۔
ان کے حل میں وقت لگ سکتا ہے لیکن کمیشن کی بھرپور کوشش ہوتی ہے کہ جلد
ازجلد لوگوں کو انصاف مہیا ہو۔ سمندر پار پاکستانیوں کی طرف سے ابھی تک سات
ہزار کے قریب شکایات درج کروائی جا چکی ہیں جن کو او۔پی۔ سی پنجاب ڈیل
کرہاہے ۔ کچھ کیسز عدالتوں میں ہوتے ہیں جہاں کمشن کا دائرہ کار محدود
ہوجاتاہے کیونکہ عدالتی فیصلوں کا انتظار کرنا پڑتا ہے ۔ اس نوعیت کے کیسز
میں فیصلہ آنے میں تاخیر کے بھی امکانات ہوتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ہائی
کمیشن برائے پاکستان لندن کی وساطت سے جن لوگوں نے او پی سی پنجاب کو
درخواستیں دیں ان کے نتائج بھی حاصلہ افزا ہیں اور لوگوں کو انصاف مل رہا
ہے۔ بہرکیف اوورسیز پاکستانی کمیونٹی حکو مت پنجاب کے اس اقدام کا خیر مقدم
کرتی ہے کیونکہ ان کے دکھ کو محسوس کرتے ہوئے پہلی دفعہ مسائل کے حل کیلئے
حکومتی سطح پرکوئی کمشن تشکیل دیا گیا ہے ۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ
اس کمیشن کا دائرہ کار توصرف پنجاب تک محدود ہے۔ برطانیہ و یورپ اور دنیا
بھر کے دیگر ممالک میں آزاد کشمیر سمیت ملک کے دوسرے صوبوں سے بھی کثیر
تعداد میں لوگ رہ رہے ہیں۔ ان کے مسائل کے حل کیلئے ایسا کوئی کمشن کیوں
نہیں؟ سمندر پار پاکستانی کمیونٹی کابھرپور مطالبہ ہے کہ وفاقی اور صوبائی
سطح پر ان کے مسائل کے حل کیلئے بھی ایسے اداروں کا قیام عمل میں لایا جائے
تاکہ ان کے مسائل حل ہوں اورجلد انصاف مہیا ہوسکے ۔ |