دستگیر نواز
آج ہمارے ہاتھ ایک نئی کتا ب آئی،ہم اپنے کسی عزیز سے ملاقات کے لئے اُنکے
دولت خانہ پرگئے ہوئے تھے ۔وہیں پر مہاراشٹرا کے ضلع پربھنی سے تعلق رکھنے
والے صاحب بھی آئے ہوئے تھے۔بات چیت کے دوران رفیق جعفر پونے کا ذکر ِ خیر
چھڑگیا ،صاحب ِ خانہ نے موصوف سے کہا آپ،اس جواں یعنی (راقم الحرف) سے واقف
ہیں ؟ موصوف نے کہانہیں،اس پر اُنھوں نے ہمارا تعاروف کروایا کہ یہ جناب
بھی ایک ادیب ہیں۔
صاحب پھر کیا تھا جب دو با ذوق مل جائیں تو پھر بات مختصر نہیں دونوں پر ہی
منحصر ہو جاتی ہے۔ ہوا بھی یہی ایک طویل گفتگو چل پڑی ۔اسی دوران موصوف نے
ناندیڑ کے مشہور و معروف مزاحیہ شاعر تمیز احمد پرواز صاحب کا تذکرہ کیا ،ہم
نے موصوف کو بتایا کہ ہمارے بہی خواہ ہیں تمیزصاحب۔ ایسے ہی ڈھیر سارا وقت
بہت اچھی گفتگو میں گزر گیا۔ موصوف نے ہماری اپنی تصانیف کا تحفہ ایک شرط
پر قبول کیا ۔ وہ بھی تحفہ دینگے ہم نے ہامی بھر لی ،اس لئے نہیں کہ ہم
تحفہ کا بدلہ تحفہ چاہتے ہیں۔لیکن اس لئے کہ ہمیں اپنی کتابیں کسی صورت
موصوف کے حوالے کرنی ہی تھی۔آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کے موصوف نے جو تحفہ
ہمیں دیا وہ کچھ اور نہیں ہمارے ہاتھ آنے والی نئی کتاب ہے یعنی وہی کتاب
جسکا ہم نے ذکر کیا!
لیجئے صاحب نئی کتاب کا خلاصہ: کتاب ہے ’’ عابد معز کی ادبی شناخت ‘‘ جسے
تحریر کیا ہے رفیق جعفر نے۔ اپنے ذوق کے آگے مجبور ہم نے رات دیر گئے تک
اُس کتاب کا مطالعہ کیا اور رات ہی میں اس میں سے چند ایک نکات پرنشان بھی
لگا ڈالا کہ پھر کبھی فرصت کے دوران اس پر قلم اُٹھایا جائے،ہوا بھی یہی
ہمیں فرصت کے چند لمحات کی دستک اپنی روز مرہ مصروفیات کی دنیا پر سُنائی
دی۔ ہم نے خوش آمدید کہا اور ان چند فرصت کے لمحات کی دین ہے یہ سارا خلاصہ۔
جو آپ کی نظر ہے۔
رفیق جعفر ادبی،شعری،فلمی اور ٹی وی کی دنیا کا ایک جانا پہچانا اور مانا
ہوا نام ہے جو سارے ہندوستان میں اپنی ایک شناخت رکھتا ہے۔ دیکھئے صاحب ہم
جن نکات پر قلم اُٹھانے کی ٹھانی تھی اُس میں اہم نکتہ تو یہ ہے کہ ایک
ایسی شخصیت جس کو سارا ہندوستان اُس کے کارناموں سے پہچانتا ہو جب وہ کسی
ادبی شخصیت کی ادبی شناخت پر کتاب لکھتا ہے تو ظاہر ہے وہ بھی کچھ کم نہیں
ہو گی ۔ہاں ہے بھی ۔عابد معز کی شخصیت کسی تعاروف کی محتاج نہیں دنیا
اُنھیں ایک بہترین مزاح نگار کی نظر سے دیکھتی ہے،جانتی ہے اور پہچانتی بھی
ہے۔ لیکن رفیق جعفر نے ’’ عابد معز کی ادبی شناخت ‘‘ سے عابد معز کی ہمہ
رنگی شخصیت کو متعارف کروایا ہے اور یہ کرنا رفیق جعفر جیسے قابل ترین ادبی
سپہہ سالار کا ہی فریضہ ہے۔
ہمیشہ کی طرح اس کتاب کو بھی ہم نے ورق ورق بغور مطالعہ کیا تو صفحہ 64 پر
صرف ایک لفظ ــ’’ حرف ِخاص‘‘ دیکھ کر ہم یہ سوچنے پر مجبور ہو گئے ایسا کیا
خاص حرف ہے جو پورے ایک صفح پرتحریرکیا گیا ہے۔ بات دراصل یہ ہے کہ یہ حرفِ
خاص صفحہ 65سے لیکرصفحہ74 تک ہے اور ان اوراق پر دنیائے ادب کی نامور ،مشہور
و معروف شخصیات نے جو اپنی رائے عابد معزسے متعلق قائم کی ہیں۔ اُن تمام کے
اظہارِ خیال کو یکجا کیا گیا ہے۔ رفیق جعفر کی تحریر کا یہ ایک خاص وصف ہے
۔ ہم نے محسوس کیا کہ مصنف عابد معز کی تحریر کردہ تمام کتابوں کے بارے میں
نہایت ہی اہم معلومات فراہم کی ہے جس سے قاری کو مدد ملے گی۔ ساتھ ہی ساتھ
مصنف نے تحقیق و محنت کے ساتھ اس کتاب کے ذریعہ قاری کو یہ بتانے کی کوشش
کی ہے کہ عابد معز نہ صرف طنز و مزاح میں یکتا ہیں بلکہ طب و معلوماتی ادب
میں بھی اپنی مثال آپ ہیں۔آج کے دور میں ہرایک عنوان پر قلم اُٹھانے میں
کسی سے بھی انکا تقابل نہیں کیا جا سکتا ہے۔ روز مرہ زندگی میں ضرورت پڑنے
والے اشیائے ضروری مثال کے طور پر نمک ،شکر،تیل،پانی ،ترکاری وغیرہ وغیرہ
جیسے موضوعات پر بھی موصوف کی کئی تصانیف مل جائیگی جس کے مطالعہ سے قاری
کو اہم معلومات دستیاب ہوتی ہے۔ جس پر عمل کرکے قاری اپنی صحت کو اپنے حساب
سے قائم رکھ سکتا ہے۔نہ صرف صحت بلکہ وقت اور پیسہ دونوں کو فضول خرچ ہونے
سے محفوظ کرسکتا ہے۔
چند کُتب جیسا کہ اتنی سی بات، واہ حیدرآباد،بات سے بات، عرض کیا ہے، یہ نہ
تھی ہماری قسمت،پھر چھڑی بات،فارغ البال اور اردو ہے جس کا نام کے حوالہ سے
عابد معز کی ہمہ جہتی شگفتہ اور توانا تحریروں پر پر اثر انداز میں مصنف نے
اپنے روشن خیال ہونے کا قاری کو یقین دلایا ہے۔ساتھ ہی ساتھ عابد معز کی
چند تحریروں کا انتخاب کیا اور ان تحریروں میں بھی موصوف کی علاحدہ سوچ و
فکر کے مختلف رنگوں کو قاری کے سامنے یوں پیش کیا کہ قاری بھی عابد معز کے
رنگ میں اپنے آپکو رنگنے کے لئے بے چین ہوجائے۔ڈاکٹر عابد معز کے عنوان سے
صفحہ 85 سے 92 تک(عابدمعزکی سوانح،جو خود عابد معز کی تحریر کے زریعہ) رفیق
جعفر نے پیش کیا ہے۔ کچھ اس طرح سے موصوف سے متعلق تفصیلی جائزہ پیش کیا ہے
کہ اس کے مطالعہ کے بعد قاری کو وہ سب معلومات اور اپنے پسندیدہ قلم کار کے
بارے میں کچھ اور جاننے یا پھر اس سے متعلق کسی سوال کی گنجائش نہیں رہ
جاتی اور قاری اپنے آپکو عابد معز کے بہت ہی قریبی اور بھروسہ مندملنے
جھلنے والوں میں سے ایک محسوس کرنے لگتا ہے۔کیونکہ اس مضمون یعنی اس تفصیلی
خاکہ کو پڑھ لینے کے بعد قاری کو اُن تمام باتوں کا علم ہوجاتا ہے کہ ڈاکٹر
معزہندوستان میں کیا کرتے تھے، کیا کر رہے ہیں۔ سعودی عرب میں کب تک رہے
اور وہاں کیا کارنامہ انجام دئیے،ابتک کتنی کتابیں آئی اور کتنی کتابوں پر
انعامات حاصل کئے۔ادبی دنیا ہو کہ طبی دنیا دونوں کے لئے کس طرح اپنی خدمات
پیش کئے۔ادبی انجمنوں اوررسائل کے لئے کیسے اپنے آپکو پیش کیا اور انھیں
پروان چڑھانے میں کتنی مشقت اور لگن سے کام کیا وغیرہ وغیرہ اس تفصیلی
مضمون کوپڑ ھنے کے بعد یہ بات بھی واضع ہوجاتی ہے کہ عابد معز نہ صرف ایک
اچھے مصنف ہے بلکہ ایک بہترین انسان بھی ہے۔رفیق جعفر کی اس جستجو کو جتنا
سرہایا جائے کم ہے کیونکہ موصوف نے ایک ادیب ہونے کا حق ادا کیا ہے اور
موجودہ دور میں بین ریاستی ادباء کے بیچ ایک کڑی بنے ہیں اس کڑی کو مضبوط
سے مضبوط تر کرنے کی ضرورت ہے جس کی مثال سارے ہندوستان بلکہ تمام عالم تک
پہنچنی چاہئے !
عابد معز کی ادبی شناخت اس کتاب کو ہمیشہ کی طرح ھدیٰ پبلی کیشن حیدرآباد
کے سید عبدلباسط شکیل نے پیش کیا ہے لاجواب طباعت اور متاثر کن سرِورق کا
یہ مجموعہ 200 صفحات پر مشتمل ہے جسکی قیمت صرف 230 روپے رکھی گئی ہے جسے
ھدیٰ پبلی کیشن سے حاصل کیا جاسکتا ہے۔
٭٭٭٭٭٭٭ |