میں جب اپنے شیخ کے ساتھ تھا تو میرے استاد نے مجھے
مزدوری پر لگا دیا‘ میں بحری جہازوں میں لوڈنگ ان لوڈنگ کرتا تھا‘ میں سارے
دن کی محنت کے بعد جتنے پیسے کماتا تھا۔
میرا استاد ان میں سے دو وقت کے کھانے کی رقم رکھ کر میری باقی کمائی خیرات
کر دیتا تھا‘ میں نے ان سے ایک دن اس حکمت کی وجہ پوچھی‘ وہ مسکرا کر بولے‘
تم گیارہ مہینے یہ کام کرو‘ میں تمہیں اس کے بعد اس کا جواب دوں گا‘ میں
گیارہ ماہ لوڈنگ ان لوڈنگ کرتا رہا‘ میرا وظیفہ مکمل ہو گیا تو میرے استاد
نے مجھ سے کہا ’’تم آج مزدوری کے لیے جاؤ‘ کام شروع ہو جائے تو تم جھوٹ موٹ
کے بیمار پڑ جانا‘ سارا دن کام کو ہاتھ نہ لگانا‘ شام کو اپنا معاوضہ لینا
اور واپس آ جانا‘‘ میں نے شیخ کے حکم پر عمل کیا‘ میں سارا دن پیٹ میں درد
کا بہانہ بنا کر گودی پرلیٹا رہا‘ شام کو معاوضہ لیا اور استاد کے پاس آ
گیا۔
استاد نے فرمایا‘ تم اب دو وقت کے کھانے کے پیسے رکھ کر باقی رقم خیرات کر
دو‘ آپ یقین کریں وہ گیارہ ماہ میں پہلا دن تھا جب میرادل خیرات کو نہیں
چاہ رہا تھا‘ میں نے اس دن خوب سیر ہو کر کھانا کھایا لیکن میری بھوک ختم
نہیں ہوئی‘ میں نے اس رات پہلی بار اپنے کمرے کی کنڈی لگائی‘ میں گھوڑے بیچ
کر سویا لیکن میری نیند مکمل نہیں ہوئی۔
مجھے اگلے دن اپنے جسم سے بو آئی اور مجھے پہلی مرتبہ اپنے کپڑوں پر پرفیوم
لگانا پڑا اور مجھے پہلی مرتبہ نماز میں لذت محسوس نہیں ہوئی‘ میں نے شیخ
کو اپنی ساری کیفیات بتائیں‘ وہ ہنس کر بولے‘ بیٹا یہ حرام کا کمال ہے‘
حرام آپ کی زندگی کی تمام نعمتوں کا جوہر اڑا دیتا ہے‘ آپ انسان سے جانور
بن جاتے ہیں‘ میرے استاد نے بتایا‘ جلال الدین ، حرام ہمیشہ آپ کی بھوک
بڑھا دیتا ہے‘ یہ آپ کی نیند میں اضافہ کرتا ہے‘ یہ آپ کے جسم میں بو پیدا
کرتا ہے‘ یہ آپ کا دل تنگ کر دیتا ہے‘ یہ آپ کی سوچ کو چھوٹا کر دیتا ہے‘
یہ آپ کی نیند کو پھیلا دیتا ہے اور یہ آپ کی روح سے سکون کھینچ لیتا ہے۔
میرے استاد نے مجھے بتایا‘ آپ کو آج ایک دن کا حرام 40 دن ستائے گا‘ آپ ان
40 دنوں میں جھوٹ کی طرف بھی مائل ہوں گے‘ آپ غیبت بھی کریں گے‘ آپ کے دل
میں لالچ بھی آئے گا‘ آپ دوسروں کو دھوکا بھی دیں گے اور آپ کے اندر امیر
بننے کی خواہش بھی پیدا ہو گی‘ میں ڈر گیا اور میں نے استاد سے پوچھا‘ میں
اگر حرام کے ان برے اثرات سے بچنا چاہوں تو مجھے کیا کرنا پڑے گا‘ وہ بولے
’’روزہ رکھو اور خاموشی اختیار کرو‘ یہ دونوں تمہیں اندر سے پاک کر دیں
گے‘‘ وہ رکے‘ لمبا سانس لیا اور بینچ پر بیٹھ گئے۔
بارش تھم چکی تھی‘ دھند کی چادر سرک رہی تھی‘ سمندر کا نیلا پانی مزید نیلا
ہو رہا تھا‘ میں نے عرض کیا ’’میں پاکستان سے آیا ہوں‘ کیا میرا یہ سفر
رائیگاں چلا جائے گا‘‘ انھوں نے نفی میں سر ہلایا اور بولے ’’ہرگز نہیں‘
میں نے چالیس سال کی تپسیا کے بعد جو سیکھا‘ وہ میں تمہیں بتا دیتا ہوں‘ یہ
کائنات ایک صندوق ہے‘ اس صندوق پر اسرار کا موٹا تالا پڑا ہے‘ یہ تالا ایک
اسم اعظم سے کھلتا ہے اور وہ اسم اعظم ہے حلال۔
آپ زندگی میں حلال بڑھاتے جاؤ کائنات کا صندوق کھلتا چلا جائے گا‘‘ میں نے
عرض کیا ’’اور حرام کی پہچان کیا ہے‘‘ وہ بولے ’’دنیا کی ہر وہ چیز جسے
دیکھنے‘ سننے‘ چکھنے اور چھونے کے بعد آپ کے دل میں لالچ پیدا ہو جائے وہ
حرام ہے‘ آپ اس حرام سے بچو‘ یہ آپ کے وجود کو قبرستان بنا دے گا‘ یہ آپ کو
اندر سے اجاڑ دے گا‘ یہ آپ کو بے جوہر کر دے گا‘‘ ماحول پر چھائی دھند چھٹ
گئی ‘ باسفورس پر سورج چمکنے لگا۔
|