سفر

بس میں بیٹھے ابھی ہمیں ایک گھنٹہ ہی ہوا تھا کہ میری بہن نے تھیلی نکالی اور اندر سےچپس کا پیکٹ نکالا اور کھانے لگی۔ میں نے بھی تھوڑا سا 'لطف' لے لیا۔ حالانکہ گھر سے نکلتے وقت پیٹ بھر کر نکلے تھے۔ اور ہم دونوں جانتے تھے سفر کے دوران ان دس گھنٹوں میں ہم ہر گھنٹے میں کتنی بار 'ٹھونسے' گے۔
ہم ریاض (سعودیہ کے شہر) سے مکہ تک بذریعہ بس جا رہے تھے۔ والد اور امی اگلی سیٹ پر دونوں بھائی پچھلی نشست پر اور ہم درمیان میں تشریف فرما تھے۔ اور ہر دو منٹ بعد ہم چونچیں لڑا رہے تھے۔ (شکر ہے امی سو رہی تھی ورنہ دو دو ہاتھ ہمارے گالوں پر رسید ہوجاتے)۔

جانے یہ مکہ تک کا سارا راستہ کھڑکی سے باہر ایک ہی سین چلتا ہے یا ہر پہاڑ اور سڑک کے دائیں اور بائیں جانب اڑتی مٹی ہر جگہ ایک سی تھی۔ میں تو کھڑکی والی سیٹ پر بمشکل بہن سے لڑ کر بیٹھی تھی اور آدھا راستہ یہ 'صحرائی منظر' ہی دیکھتی رہی تھی۔ پھر سو گئی اور آنکھ تب ہی کھلی جب احرام باندھنے کے لیے طائف اترے۔

احرام باندھ کر ہم واپس آبیٹھے اور میری لڑاکا بہن کھڑکی والی سیٹ پر بیٹھ گئی۔ میں نے سوچا ابھی سیٹ "ملنے" کے لیے آواز اٹھاؤں لیکن بقول میری والدہ " اب اول فول باتوں کی بجائے اللة کا ذکر کرو مکہ آنے تک"۔ میں تو نہا کر نیا جوڑا اور احرام کہ لیے خریدا نیا سکارف پہن کر تازہ محسوس کر رہی تھی بس مکہ آنے تک اذکار زیرِلب پڑھتی رہی۔ ہم عمرہ کتنے سالوں بعد کرنے آئے تھے۔ وہ کیسا احساس ہوگا جب میں مسجد الحرم اپنی آنکھوں سے دیکھوں گی؟ جب آخری دفعہ آئے تھے تب تو میں بہت چھوٹی تھی۔
اب بس رک چکی تھی اور چیکنگ کی جا رہی تھی۔ پیچھے سے کسی کی آواز آئی "ہم مکہ کی حدود میں آگئے۔۔"۔ میں فوراً زبردستی بہن کو ہٹا کر (ایک دو مکے کھا کر)کھڑکی والی سیٹ پر بیٹھی اور پردہ ہٹا کر باہر دیکھنے لگی۔ اب پلک جھپکانا مشکل تھا۔ اب تو بس اس جگہ پر جلد از جلد پہنچنا تھا۔ ماما نے کہا تھا "مینار نظر آتے ہی دعا مانگنا"۔ تھوڑا آگے جا کر ہی مجھے دور سے "clock tower" نظر آیا۔ وہ اتنا اونچا تھا کہ پورے مکہ میں نظر آتا۔ میری نظریں اب مسجد کو ڈھونڈ رہی تھیں اور سڑکوں پر گھومتے چلتے میری نظر کچھ دور ایک روشن سی جگہ پر پڑی۔ ہاں وہی۔۔۔مجھے مینار نظر آگیا تھا۔ میرے دل کی دھڑکن تیز ہوئی۔ اس کی روشنی نے دور سے ہی میری آنکھوں کو چمکا کر رکھ دیا تھا۔ میری آنکھیں بھرنے لگیں۔ میں نے دعا مانگنا چاہی۔۔۔ لیکن کیا مانگتی؟ یہاں اس کے گھر آگئی اب کچھ پانا باقی رہ گیا تھا کیا؟ پھر بھی میں نے نظریں مینار پر ٹکا دیں اور جب تک مینار میری نظروں کے سامنے رہا میں دعا کرتی رہی۔۔ پھر دعا ختم کرکے آنسوں پونچھے کیونکہ بس ہمیں ہوٹل پر اتانے لگی تھی اور وہاں سامان رکھ کر ہم مسجد جائیں گے اور وہاں قدم رکھنے کو میرا دل بےقرار اور آنکھیں چلھکنے کو تیار تھیں۔

مسجد میں پہلا قدم رکھ کر میری کیا صورتِ حال تھی وہ بیان کرنے کے لئے الفاظ میرا ساتھ نہیں دے سکتے تھے۔بس دل میں ایک طوفان سا تھا جو یک تھم گیا تھا۔ آنکھوں میں ایک سیلاب سا تھا جو یک دم بہہ جانے کو بیتاب ہوگیا۔

یوں لگا جیسے مسجد کی ساری روشنی میری آنکھوں میں چمک بھر دیں گی۔ میں بالکل اپنے رب کے سامنے کھڑی ہونگی۔ مجھ سے زیادہ خوش اور کون ہو سکتا ہے۔ مجھے بہترین تحفے سے نوازا گیا تھا۔
 

Amna Shafiq
About the Author: Amna Shafiq Read More Articles by Amna Shafiq: 14 Articles with 21377 views I'm a Student. I love to read novels . And i like to write too just so i can share my words with world... View More