"افوہ امی اس ٹھیپے کو تو اندر رکھیں"۔ امی کے نوکیا
موبائل فون سے اسے چڑ تھی۔ کوئی دیکھ لیتا تو کیا کہتا۔۔"کونسے زمانے کا
فون رکھا ہے؟ ہاہا"
اللہ اللہ کرکے نیا سمارٹ فون دلوایا تو اب اگلا مسئلہ اسے چلانا کیسے ہے
یہ سکھانا تھا۔
"کال کہا سے کرنی ہے؟ اوہ یہ کیا ہوگیا دیکھنا ذرا۔۔ چلو ہن اے کی ہوگیا؟"
کتنے جتن کرکے روز اولاد فون چلانا سکھاتی ہے۔ "یہ رضیہ کو سکائپ پر کال
کیسے کرنی ہے؟" اولاد اکتا کر کہتی ہے "اف امی! آپ کو تو فون یوز کرنا بھی
نہیں آتا۔۔۔یہ لیں ایسے کرتے ہیں"
والدین کو "اف" تک نا کہو والی حدیث پر شاید عمل کرنا اولاد نے ختم کردیا
ہے۔
اور گھر کے جانے کس کونے میں والدین چھپ کر اشک بہا لیتے ہیں ۔ جن کے لیے
انہوں نے اتنا کچھ کیا وہ کیسا سلوک کر رہی ہے انکے ساتھ۔۔ "اچھا بیٹا رہنے
دو مجھے نہیں کرنی بات۔۔میں کھانا لگاتی ہو کھالو آکر"۔ والدین نم آنکھوں
سے بھی مسکرا دیتے ہیں لیکن اولاد کو "اف" تک نہیں کہتے۔
|