سیدنا حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ

نام اور کنیت:
آپ ؓ کا نام نامی اسم گرامی عبداﷲ ہے ۔ زمانۂ جاہلیت میں آپؓ کو’’عبدالکعبۃ ‘‘ کہا جاتا تھا۔ حضوراقدس ؐنے آپؓ کا یہ نام بدل کرعبداﷲ نام رکھا۔لقب صدیق اور عتیق ۔والد کا نام عثمان،کنیت ابوقحافہ بن عامرہ اور والدہ کا نام سلمیٰ بنت صخر ہے۔

سلسلہ نسب:
والد کی طرف سے سلسلۂ نسب یہ ہے:’’عبداﷲ بن عثمان بن عامر بن عمرو بن کعب بن سعد تیم بن مرہ بن کعب بن لوی القرشی التمیمی۔‘‘اوروالدہ کی طرف سے سلسلۂ نسب یہ ہے :’’ام الخیر بنت صخر بن عامر بن کعب بن سعد بن تمیم بن مرہ۔‘‘ اس طرح حضرت ابو بکرؓ کا سلسلہ نسب چھٹی پشت میں آنحضرتؐ سے جا ملتا ہے۔ (طبقات ابن سعد: ج ۳ ص ۱۱۹،الاصابہ :ج ۴ص۲۲۱ )

قبول اسلام:
حضرت ابو بکر صدیقؓ اسلام لانے سے پہلے کپڑے کے تاجر تھے اور بچپن سے آپؐ کے دوست تھے اور اکژ سفر وں میں ساتھ ہوتے تھے،جب آپؐ کو نبوت ملی اور آپؐ نے اس کااظہارپہلے اپنے چند دوستوں سے کیاتو ان میں سے سب سے پہلے حضرت ابوبکرصدیقؓ نے ہاتھ بڑھایااور اسلام قبول کیا۔(سیرالصحابہ ؓج۱ص۱۹ بحوالہ کنز العمال : ج ۶ ص ۳۱۳ )

اشاعت اسلام:
آپؓ نے اسلام قبول کرتے ہی اسلام کی اشاعت کے لیے کام شروع کر دیا، آپؓ کی دعوت پر جن شخصیات نے اسلام قبول کیا ان میں حضرت عثمانؓ حضرت زبیرؓ حضرت عبدالرحمان بن عوفؓ حضرت سعد بن وقاصؓ اورحضرت طلحہؓ جیسے جلیل القدر صحابہؓ شامل ہیں اور حضرت عثمان مظعونؓ حضرت عبیدہ ؓحضرت ابو سلمہؓ حضرت خالد بن سعیدبن العاصؓ بھی آپؓ ہی کی ہدایت سے دائرۂ اسلام میں داخل ہوئے ہیں۔ (سیرالصحابہؓج اوّل ص۲۰ بحوالہ صحیح بخاری )

حضرت ابوبکر صدیقؓ اﷲ تعالیٰ کی نظر میں:
وہ شخص جوصدق یعنی قرآن اور دین حق لے کر تشریف لائے(ابو بکر صدیقؓ نے)اس کی تصدیق کی ،عنقریب دور رکھا جائے گااس شخص(یعنی ابوبکر صدیقؓ) کو جو اپنے مال کو تزکیہ کے لیے اد اکرتے تھے اور اس کا منشایہ نہیں تھاکہ کوئی اس کی ان نعمتوں کا بدلہ د ے بلکہ اس کا منشااورعقیدہ اپنے رب اعلیٰ کی رضامندی اور خوش نودی حاصل کرنی ہے اورقریب ہی وہ رب اپنی رضا مندی کا اظہارکرے گاجبکہ نکال دیاتھا کافروں نے ثانی اثنین(یعنی حضرت محمدؐاور حضرت ابوبکر صدیق ؓ ) کوجب کہ وہ دونوں حضرات غار میں تھے اور جب کہ اس نے اپنے ساتھی(یعنی ابو بکر صدیقؓ) کو کہا تھا :’’لا تحزن‘‘ یعنی فکرمت کیجئے ! بے شک اﷲ ہما رے ساتھ ہے ۔البتہ سن لی اﷲ تعالی نے بات ان لوگوں کی جنہوں نے کہا تھا اﷲ فقیر اور محتاج ہے اور ہم مال دار ہیں۔‘‘

حضرت ابوبکر صدیق ؓرسول اﷲ ؐکی نظر میں:
حضرت عمرو بن العاصؓ سے مروی ہے کہ نبی کریم ؐنے ان کوذات السلاسل نامی سریہ میں بھیجا تو عمروبن عاصؓ فرماتے ہیں کہ: ’’ میں حضرت رسو ل ا ﷲ ؐکی خدمت میں حاضر ہوا ٗاورعرض کیا کہ لوگوں میں کون شخص آپؐ کے نزدیک زیادہ پسندیدہ ہے ؟‘‘ رسول اﷲؐ نے فرمایاکہ: ’’ عائشہ صدیقہؓ میرے نزدیک سب سے زیادہ پسندیدہیں‘‘ اس کے بعد اس نے دو بارہ سوال کیا کہ: ’’ مردوں میں سب سے زیادہ پسندیدہ کون ہے؟‘‘ آپؐ نے فرمایا: ’’اس کے وا لد ماجد یعنی ابوبکر صدیقؓ ہیں‘‘اس کے بعد کون؟ فرمایا: ’’عمربن خطابؓ ہیں‘‘اسی طرح کئی لوگوں کوشمار کیا۔

حضرت ابو ہریرہؓ سے مروی ہے کہ حضرت رسول اﷲؐ ایک مرتبہ’’ کوہِ حرہ‘‘ پر تھے اور آپؐ کے ہمراہ حضرت ابو بکر صدیقؓ حضرت عمرؓحضرت عثمانؓ حضرت علیؓ حضرت طلحہؓ اورحضر ت زبیرؓتھے ،اس وقت پتھر ہلنے لگا توحضورؐ نے اس کو حکم دیاکہ اے پتھر تو ٹھہر جا!کیوں کہ تیرے اوپرنبی اورشہید کے علاوہ کوئی نہیں۔ حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ رسول اﷲؐ نے فرمایاکہ ابو بکرصدیقؓ کے مال سے جتنا فائدہ مجھے پہنچا ہے اور کسی کے مال سے نہیں پہنچا،یہ سن کرحضرت ابوبکرصدیقؓ رونے لگے کہ یارسول اﷲؐ!میں اور میرا جتنا مال ہے سب آپ پر قربان ہے ۔آپؐ نے فرمایا’’ أبوبکرخیر الناس الاان یکون نبي ۔ ‘‘ (معجم طبرانی)ت رجمہ: ابوبکرؓ سوائے نبیوں کے سب انسانوں سے افضل ہے۔ایک اور جگہ فرمایا: ’’ أرحم أمتی بأمتی ابوبکر۔ ‘‘ (جامع ترمذی،مؤطا امام مالک) ترجمہ:میری اُمت میں میری اُمت پر سب سے زیادہ مہربان ابوبکرؓ ہیں۔ایک دوسری جگہ فرمایا: ’’ أنت صاحبي عليٰ الحوض وأنت صاحبي في الغار ‘‘( جامع ترمذی)ترجمہ: تم حوضِ کوثر پرمیرے رفیق ہواور تم غار میں بھی میرے رفیق تھے۔ایک اور جگہ فرمایا : ’’ مروا أبا بکر فلیصل بالناس ‘‘ (صحیح بخاری،سنن ابن ماجہ) ترجمہ: ابوبکرصدیقؓ سے کہو کہ کہ وہ لوگوں کونمازپڑھائیں۔

حضرت ابوبکر صدیقؓ کی رسول اﷲؐ سے رشتہ داری:
آپؓ کی بیٹی حضرت عائشہ صدیقہؓ رسول اﷲؐکے نکاح میں آئیں اور ام المؤمنین کہلائیں۔

حضرت ابوبکرصدیقؓ کا حیات رسول اﷲؐ میں نماز پڑھانا:
فضیل بن عمروالفقیمیؓسے مروی ہے کہ حضرت ابو بکرصدیقؓ نے نبیؐ کی حیات میں تین مرتبہ لوگوں کو نماز پڑھائی(جس میں آپؐ نے خود ان کی اقتداء کی،ورنہ یوں تو اُنہوں نے سترہ(۱۷)مرتبہ نماز پڑھائی۔ (طبقات ابن سعد:ج۳ص۲۴)

نظام حکومت:
حضرت ابوبکرصدیقؓ کے عہد خلافت و حکومت میں نظام حکومت وہی رہا جو آنحضرتؐکے عہد مبارک میں تھا،تمام اُمورِملکی کبار صحابہؓ کے مشوروں سے انجام پاتے تھے، ان میں حضرت عمر فاروقؓ حضرت عثمان ذوالنورینؓ حضرت علی المرتضیٰؓ حضرت ابو عبیدہ بن جراحؓ اورحضرت عبد الرحمان بن عوفؓ شامل تھے۔ نظام حکومت میں کل آٹھ صوبے شامل تھے۔ (طبقات ابن سعد : ج ۳ ص ۲۹ )

آپؓ کی مدت خلافت قمری حساب سے دو سال تین ماہ دس دن شمسی حساب سے دو سال دوماہ سولہ دن ہے اور آپؓ کے دورِ خلافت گیارہ (۱۱) تا تیرہ (۱۳) ہجری ہے۔

وفات حسرت آیات:
۲۲جمادی الثانی ۱۳ ؁ھ بروز شنبہ بمطابق۲۲اگست ۶۳۴؁ء کو مابین مغرب وعشا ء تریسٹھ(۶۳) سال کی عمر میں اس دار ِفانی سے عالم بقاء کی طرف انتقال کیااور رسول اﷲؐ کے پہلو میں دفن ہوئے،آپ کی وصیت کے مطابق آپ کی بیوی حضرت اسماء بنت عمیسؓ نے غسل دیا اوررسول اﷲؐ کے منبر اور قبر مبارک کے درمیان حضرت عمر فاروقؓ نے نماز جنازہ پڑھائی اور آپؓ کوآپؓ کی وصیت کے مطابق رسول اﷲؐ کے پہلو میں دفن کیا گیا۔ (تاریخ ملت بحوالہ طبقات ابن سعد )
 

Mufti Muhammad Waqas Rafi
About the Author: Mufti Muhammad Waqas Rafi Read More Articles by Mufti Muhammad Waqas Rafi: 188 Articles with 253202 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.