رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بحثیت سپہ سالار، غزوات اور جنگوں کا احوال - 22

جنگ موتہ
یکم جمادی الاول8 ہجری قمری۔۔۔عالمی استکبار سے پہلا مقابلہ
رسول اکرم ﷺ نے بادشاہ ”بصری“ کے پاس ایک سفیر بھیجا فرستادہ رسول جب سرحد شام میں سرزمین موتہ پر پہنچا تو اس دیار کے حاکم نے سفیر کو قتل کر دیا اور ماہ ربیع الاول میں جو 16 مبلغین پیغمبر کی طرف سے مقام ”ذات اطلاع“ کے سفر پر مامور کئے گئے تھے وہ اس سرزمین کے لوگوں کے ہاتھوں قتل کر دیئے گئے۔ ان میں سے ایک آدمی زخمی ہوا اور لاشوں کے بیچ گر پڑا پھر کسی طرح وہ مدینہ پہنچا۔ (طبقات کبریٰ ج۲ ص ۱۲۸)

یہ دونوں واقعات اس بات کا سبب بنے کہ رسول خداﷺ موتہ کی طرف ایک لشکر روانہ فرمائیں۔ جہاد کا فرمان صادر ہوتے ہی تین ہزار مسلمان جمع ہوگئے، رسول خداﷺ نے لشکر کے سپہ سالاروں کو درج ذیل ترتیب دی۔ جب تک زید بن حارث زندہ ہیں وہ تمہارے سپہ سالار رہیں گے۔ اگر زید شہید ہوگئے تو پھر جعفر ابن ابی طالب اور اگر وہ بھی شہید ہوگئے تو عبداللہ بن رواحہ اور اگر وہ بھی شہید ہوگئے تو مسلمان اپنے درمیان سے خود ہی ایک سپہ سالار کا انتخاب کرلیں۔

لشکر کی روانگی کے وقت اہل مدینہ رسول خداﷺ کے ساتھ جانبازانِ اسلام کو رخصت کرنے کے لئے جمع ہوئے، عبداللہ ابن رواحہ گھوڑے پر سوار تھے اور آگے اپنے بیٹے کو سوار کئے ہوئے تھے اور اسی حالت میں شدت کے ساتھ گریہ فرما رہے تھے۔ لوگوں نے سوچا کہ وہ زن و فرزند کی محبت اور ان سے جدائی کے غم میں یا موت کے خوف سے رو رہے ہیں۔ عبداللہ ابن رواحہ جب لوگوں کے گمان کی طرف متوجہ ہوئے تو انہوں نے سر اٹھایا ”اے لوگوں! میرا گریہ زندگی اور زن و فرزند و خاندان کی محبت میں نہیں ہے میں شہادت سے نہیں ڈرتا ہوں اور نہ اس وجہ سے رو رہا ہوں بلکہ میرے گریہ کا سبب قرآن کی مندرجہ ذیل آیت ہے۔
وان منکم الا واردھا کان علی ربک صما مقضیا ثم ننجی الذین اتقو ونذرالظالمین فیھا
”تم میں سے کوئی شخص باقی نہیں رہے گا، جز اس کے کہ دوزخ میں جائے اور یہ تمہارے پروردگار کا حتمی حکم ہے۔ دوزخ میں داخل ہونے کے بعد ہم ان افراد کو جو خدا ترس اور باتقویٰ تھے نجات دیں گے اور ستم گاروں کو سا میں چھوڑ دیں گے تاکہ وہ گھٹنوں کے بل آگ میں گر پڑیں۔“مجھے اطمینان ہے کہ مجھے جہنم میں لے جایا جائے گا۔ لیکن مجھے یہ کیسے پتہ چلے کہ نجات دی جائے گی۔ (سیرت ابن ہشام ج۴ ص ۱۵)۔

پیغمبر اسلامﷺ نے مسلمانوں کے ساتھ شہر کے دروازہ تک مجاہدین کو رخصت کیا اور فرمایا ”دفع اللہ عنکم وردکم سالمین غانمین“”یعنی خدا تمہارا دفاع کرے اور تم کو سلامتی اور غنیمت کے ساتھ واپس پلٹائے۔“

لیکن عبداللہ ابن رواحہ نے جواب میں شعر پڑھا جس کا مطلب تھا۔ میں خداوند رحمان سے مغفرت طلب کرتا ہوں اور اس سے شمشیر کی ایسی ضربت کا خواہاں ہوں جو میری حیات کو ختم کر دے۔(حوالہ سابق)

خدا حافظ کہتے وقت عبداللہ ابن رواحہ نے پیغمبر سے نصیحت کرنے کی خواہش کی، حضرت نے فرمایا ”جب تم ایسی سرزمین پر پہنچو جہاں اللہ کی عبادت کم ہوتی ہے تو اس جگہ زیادہ سجدہ کرو۔“
عبداللہ نے کہا کچھ اور نصیحت فرمائیں۔
رسول خدا نے فرمایا ”خدا کو یاد کرو، خدا کی یاد مقصد تک پہنچنے میں تمہاری مددگار ہے۔“ (مغازی واقدی ج۲ ص ۷۱۸)

رسول خدا نے لشکر کے امیروں کو حکم دیا کہ ”خدا کے نام سے اس کی راہ میں جنگ کرو اور جو خدا کا انکار کرے اس سے لڑو، دھوکہ بازی نہ کرو، بچوں کو قتل نہ کرو، جب مشرکین سے سامنا ہو تو تین چیزوں میں سے ان کو ایک کی دعوت دو اور وہ ان میں سے جب کسی ایک کو قبول کرلیں تو ان سے دست بردار ہو جاؤ۔ پہلے اسلام کی دعوت دو اگر وہ قبول کرلیں تو ان سے جنگ نہ کرو۔ دوسرے ان سے یہ مطالبہ کرو کہ وہ اپنی زمین سے چلے جائیں اور ہجرت کریں، اگر وہ قبول کرتے ہیں تو ان کے لیے وہی حقوق ہیں جو دوسروں کے لیے ہیں۔ تیسرے اگر ان دونوں باتوں کے قبول کرنے سے انکار کریں تو جزیہ ادا کرنے کی دعوت دو اگر ان تمام باتوں سے سرتابی کریں تو خدا سے مدد مانگو اور ان سے جنگ کرو۔“ (حوالہ سابق ج۱ ص ۷۵۷)

دو طاقتوں کی جنگ
لشکر اسلام موتہ کی جانب روانہ ہوا۔ جنوب عمان میں ۲۱۲ کلومیٹر دور مقام ”معان“ پر پہنچتے ہی خبر ملی کہ بادشاہ روم ”ہرقل“ ایک لاکھ سپاہیوں کو ”بلقاء“ کے علاقہ میں سرممین ”مآب“ تک بڑھا لایا ہے اور اس علاقہ کے ایک لاکھ عرب جنگجو رومیوں کی مدد کے لئے لشکر روم سے آملے ہیں۔

یہ خبر امیرانِ لشکر کے آپس میں مشورہ کا سبب بنی۔ شروع میں تو ان کا یہ ارادہ تھا کہ اس واقعہ کی خبر پیغمبر کو دی جائے اور ان سے معلوم کیا جائے کہ کیا کرنا چاہیے لیکن عبداللہ ابن رواحہ نے اپنی شجاعانہ اور تند تقریر سے ان کو اس فکر سے باز رکھا۔ آپ نے لشکر کو خطاب کرتے ہوئے کہا ”اے لوگوں! خدا کی قسم جو چیز تمہیں اس وقت ناپسند ہے اسی کو طلب کرنے کے لیے تم نکلے ہو یہ وہی شہادت ہے جس کے شوق میں تم نے سفر کی زحمت برداشت کی ہے ہم نے کیا بڑے گروہ کثیر جماعت اور دشمن کے لشکر فروان سے جنگ نہیں کی؟ ہم ایمان کی طاقت سے لڑتے ہیں جس کی بدولت خدا نے ہم کو بزرگی دی ہے۔ اٹھو اور اپنے راستہ پر چل پڑو ہمارے سامنے دو اچھے(احد الحسینین) راستے ہیں۔ یا فتح یا شہادت (سیرت ابن ہشام ج۴ ص ۱۷)

عبداللہ ابن رواحہ کی شعلہ بار تقریر کے بعد لشکر اسلام ٹڈی دل لشکر کی طرف چل پڑا اور بلقاء کی سرحد پر روم کا دو لاکھ کا لشکر تین ہزار مجاہدین سے روبرو ہوا۔ لشکر اسلام کی بے امان جنگ شروع ہوئی اور اللہ والے جو شہادت کو بقاء کا راز سمجھتے تھے۔ شہادت کے استقبال کے لیے دوڑ پڑے۔

لشکر اسلام کے دلبر سردار حضرت جعفر ابن ابی طالب ؑ کی شہادت
جنگ کے شور و غل میں جعفر ابن ابی طالبؑ نے پرچم اپنے ہاتھ میں لیا اور مردانہ وار قلب لشکر کفر پر حملہ کر دیا اور ان کے نرغہ میں گھر گئے آپ نے اپنے گھوڑے کو پے کر دیا تاکہ وہ ان کے ہاتھ نہ آسکے اور پیادہ لڑتے رہے یہاں تک کہ آپ کا داہنا ہاتھ کٹ گیا ‘پرچم کو آپ نے بائیں ہاتھ میں سنبھالا تھوڑی دیر بعد آپ کا بایاں ہاتھ بھی کٹ گیا اس کے بعد آپ نے پرچم کو سینے سے لگا لیا۔ یہاں تک کہ شہادت کی سعادت سے مشرف ہوئے، خدا نے ان کے کٹے ہوئے دونوں ہاتھوں کے بدلے ان کو دو پر عنایت کئے تاکہ وہ فرشتوں کےساتھ جنت میں پرواز کریں اس لیے آپ ”جعفر طیار“ کے لقب سے ملقب ہوئے۔ (سیرت ابن ہشام ج۴ ص ۲۰)

عبداللہ بن رواحہ اور مید ابن حارثہ کی شہادت
حضرت جعفر طیار کی شہادت کے بعد زید ابن حارثہ نے پرچم اٹھایا اور لشکر کفر پر حملہ کر دیا اور دلیرانہ جنگ کے بعد درجہ شہادت پر فائز ہوئے۔ تیسرے سردار لشکر عبداللہ ابن رواحہ نے پرچم اٹھایا۔ تھوڑی دیر تک سوچتے رہے کہ جنگ جاری رکھی جائے یا نہیں۔ آخرکار رجز پڑھتے ہوئے سپاہ دشمن پر حملہ آور ہوئے۔ اے نفس! اگر تو ابھی قتل نہیں ہوگا تو بالآخر مر ہی جائے گا جو تیری آرزو تھی اس کا وقت بھی آگیا ہے۔ اگر ان دونوں کے راستے پر چلو گے تو نجات ملے گی۔ یہ رجز پڑھ کر عبداللہ دلیرانہ انداز میں قلب لشکر پر حملہ آور ہوئے ان کی تلوار کافروں کے سروں پر موت کے شعلے برسانے لگی۔ آخر کار عبداللہ بھی اپنے رب سے جاملے اور انہیں اسی انداز میں شہادت نصیب ہوئی جیسی انہوں نے خداوند عالم سے طلب کی تھی کہ ان کے جسم کو گلگوں بنا دیا جائے۔(سیرت ابن ہشام ج۴ ص ۲۱)

جنگ سے بیٹھ رہنا
عبداللہ ابن رواحہ کی شہادت کے بعد سپاہیوں کی رائے اور پیشکش سے خالد بن ولید، سردار لشکر بنے، خالد نے جنگ کو بے نتیجہ رکھا۔ رات آنے تک کم و بیش پراگندہ طور پر جنگ ہوتی رہی، رات کو جب دونوں لشکر جنگ سے رک گئے تو خالد نے لشکر گاہ کے پیچھے بہت سے سپاہیوں کو بھیجا تاکہ وہ صبح کو خوب شور و غل مچاتے ہوئے یہاں مقیم لشکر سے آملیں۔ صبح کو رومیوں نے یقین کرلیا کہ مدینہ سے ایک عظیم امدادی لشکر آن پہنچا ہے۔ چونکہ مسلمانوں کی تلوار کی طاقت اور ان کے جذبہ شہادت کو وہ دیکھ چکے تھے اس لیے جنگ میں انہوں نے پس و پیش کیا اور حملہ سے باز رہے بلکہ وہ مسلمانوں کے حملہ کے منتظر رہے۔ پھر انہوں نے دیکھا کہ خالد کا حملہ کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔ عملی طور پر جنگ بندی ہوگئی، خالد نے ایک بار جنگ سے بیٹھ رہنے کے ذریعہ مسلمانوں کو دشمن کے دو لاکھ جنگجوؤں کے چنگل سے بچالیا۔

جنگ کے نتائج
رومیوں کی جنگی ٹیکنیک سے مسلمانوں کی آگاہی اور روم کی مغرور سپاہ کے دل میں شہادت کے شیدا لشکر اسلام کا رعب و دبدبہ بیٹھ جانا ۔

جاری
نوٹ۔۔۔ محترم قارئین آپ کی قیمتی آراء باعث عزت و رہنمائی ہوگی
Tanveer Hussain Babar
About the Author: Tanveer Hussain Babar Read More Articles by Tanveer Hussain Babar: 85 Articles with 112060 views What i say about my self,i am struggling to become a use full person of my Family,Street,City,Country and the World.So remember me in your Prayers.Tha.. View More