اب آپ کا یہ تصور کہ بھائی جب
اللہ قریب ہے تو خدا کے قریب ہونے کیلئے وسیلہ کی کیا ضرورت ہے؟ تو عرض ہے
کہ خدا تو سب سے قریب ہے کہ خدا علماً قدرتاً سب کے قریب ہے اور کائنات کے
ذرہ ذرہ پر خدا محیط ہے اور کائنات محاط ہے۔ ازروئے علم، ازروئے قدرت،
ازروئے احاطہ، خدا سب سے قریب ہے اور خدا کسی سے دور نہیں۔ تو بھائی خدا سب
کے قریب ہے مگر سب خدا کے قریب نہیں۔ شاید کوئی دل میں یہ سوچے کہ یہ بات
ہماری سمجھ میں نہیں آئی کہ جب خدا سب کے قریب ہے تو ہر کوئی خدا کے قریب
نہیں۔ اب دیکھئے خدا کافروں سے ساتھ ان کی شہ رگ سے زیادہ قریب ہے کہ نہیں؟
خدا ابوجہل کے قریب ہے کہ نہیں؟ اور اسی طرح ابولہب، عتبہ، شیبہ، کعب بن
اشرف اور رئیس المنافقین عبد اللہ ابن ابی، یہ جتنے کفار اور منافقین ہیں،
کیا اللہ ان کی شہ رگ سے قریب تھا کہ نہیں؟ پھر یہ بتائیے کہ یہ سب خدا کے
مقربین ہیں؟ کیا ان کفار کو خدا کا مقرب مانو گے کہ نہیں؟ ہرگز نہیں۔ بیشک
خدا تو ان کے قریب تھا مگر وہ خدا کے قریب نہیں تھے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ خدا
کے قریب ہے مگر خدا کے قریب کوئی کوئی ہے۔ اگر ابھی بھی بات سمجھ میں نہیں
آئی تو دیکھئے، خدا کے قرب کا قیاس اپنے قرب پر کرنا یہ تو بالکل قیاس مع
الفاروق ہے۔ وہ تو زمان و مکان اور مسافت سے پاک ہے۔ خدا کے قرب کے معنی ہی
کچھ اور ہیں۔ یہ نہیں کہ کوئی میرے قریب مکانی طور پر قریب ہو گیا تو وہ
میرے بدن کے قریب ہو گیا۔ اللہ تعالٰی اس قرب سے پاک ہے۔ کیونکہ وہ جسم اور
جسمانیت سے پاک ہے۔ جہت علو اور جہت اسفل، تمام جہات سے پاک ہے۔ تو پھر خدا
کے قرب کا مفہوم کیا ہوگا؟ خدا کے قرب کے معنی یہ ہوں گے کہ جس کو خدا کی
جتنی معرفت ہوگی وہ اتنا ہی خدا کے قریب ہوگا۔ خدا تو سب کے قریب ہے مگر
خدا کو قریب وہی ہے جس کو خدا کی معرفت ہے۔ اب خدا کے قرب کے درجات اور اس
کی معرفت کے درجات لامتناہی ہیں۔ نہ اس کے درجاتِ معرفت ختم ہوتے ہیں، نہ
اس کے درجات ختم ہوتے ہیں۔ جتنے درجاتِ معرفت حاصل ہوتے جائیں گے اتنا ہی
قرب میں اضافہ ہوتا جائے گا۔ لہٰذا ان درجاتِ لامتناہی کو پانے کیلئے ہمیں
وسیلہ کی ضرورت ہے۔
اب آئیے قرآنِ پاک کی سورہ بقرہ میں اللہ تعالٰی ارشاد فرما رہا ہے:
اے محبوب (صلی اللہ علیک وسلم) یاد کیجئے اس وقت کو جب آپ کا رب فرشتوں سے
کہہ رہا تھا کہ میں زمین میں اپنا خلیفہ بنانے والا ہوں۔
اب یہاں پر صرف لفظِ خلیفہ پر بحث ہے کہ خالقِ کائنات جل جلالہ نے یہ پہلے
فرمایا کہ میں بناؤں گا اور پھر بنا دیا اور اس میں کسی کو شک نہیں ہے کہ
رب ذوالجلال نے خلافت قائم کی۔ اور یہاں حضرت آدم علیہ السلام کے خلیفہ
بنائے جانے کے بارے میں بات ہو رہی تھی اور اس بارے میں اتفاق ہے کہ اللہ
تعالٰی کے مطلقا علی الاطلاق خلیفہ جن کو اللہ تعالٰی نے خلافتِ عظمٰی عطا
فرمائی ہے وہ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات ہے۔ خلافت کا
یہ جو حکم قرآنِ کریم میں ہے آخر اس کا سبب کیا ہے؟ اس کی چند وجوہات یہ
ہیں:
١۔ کسی کو اپنا خلیفہ وہ بناتا ہے جس نے فوت ہو جانا ہے۔۔۔ لیکن اللہ
تعالٰی تو فوت ہونے سے پاک ہے۔ وہ حی القیوم ہے اس پر تو موت کا کوئی تصور
ہی نہیں۔ تو پھر یہ وجہ خلافت کی وہاں موجود نہیں کہ اللہ کس وجہ سے اپنا
خلیفہ بنا رہا ہے۔
٢۔ دوسرا سبب یہ بھی ہوتا ہے کہ اس کی ذات اکیلی ہے اور اس سے سارا نظام
چلایا نہیں جا رہا۔ اس کو کسی مددگار (اسسٹنت) کو ضرورت ہے۔ اپنا کوئی
نائب، کوئی خلیفہ بنائے تاکہ یہ میرے ساتھ میرا معاون بن جائے اور میرا
نظام چلتا رہے۔ اگر یہ وجہ ہے تو یہاں یہ بھی وجہ موجود نہیں۔ (ولا یئودہ
حفظھما، زمین و آسمان کی حفاظت اس کو تھکا نہیں سکتی)۔ اس کیلئے کوئی مسئلہ
نہیں ہے ساری کائنات کو چلانا۔
٣۔ تیسرا اس لئے بھی خلیفہ بنایا جاتا ہے کہ کچھ وقت کیلئے جس طرح عمومی
طور پر خلافت میں پایا جاتا ہے کہ کسی نے کوئی آرام کرنا ہے اس وقت وہ
چاہتا ہے کہ آرام کے وقت میرا نائب میری خلافت سنبھال لے اور وہ میرے امور
کو سر انجام دیتا رہے۔ لیکن اللہ کی تو شان ہے (لا تاخذہ سنہ ولا نوم، اس
کو تو نیند آتی ہی نہیں، نہ اونگھ ہے) ایسی کوئی حالت نہیں اس پر گزرتی کہ
جس میں وہ خود آرام کرنا چاہتا ہو اور اپنے امور کسی اور کو دینا چاہتا ہو۔
٤۔ اور چوتھا امور یہ بھی ہے کہ اصل نے کسی دورے پر چلے جانا ہے اور وہ
چاہتا ہے کہ میں اپنا کوئی خلیفہ بنا لوں اور وہ میرے پیچھے تمام امور سر
انجام دے۔ اگر یہ وجہ دیکھیں تو رب ذوالجلال میں یہ بھی وجہ نہیں۔ وہ تو:
بحر و بر میں، خشک و تر میں ہیں تیرے جلوے عیاں
ہر جگہ رہتا ہے لیکن پھر بھی ہے تو لا مکاں
وہ تو ہر جگہ موجود ہے وہ تو کسی دورے پر نہیں جاتا وہ ہر ضرورت سے پاک ہے۔
تو یہ چار وجوہات ہیں کسی کو اپنا خلیفہ بنانے کی اور اللہ تعالٰی میں ان
میں سے کوئی بھی موجود نہیں۔ نہ اسلئے کہ اس نے فوت ہو جانا ہے، نہ اسلئے
کہ اس نے تھک جانا ہے، نہ اسلئے کہ وہ اکیلا تمام امور چلا نہیں سکتا اور
نہ ہی اسلئے کہ اس نے کسی دورے پر جانا ہے اور یہ یقین ہے کہ میں خلیفہ بنا
رہا ہوں اور خلیفہ بنا بھی دیا اور حضرت آدم علیہ السلام کو خلیفہ بنایا۔
تو پھر خلیفہ کا مطلب کیا بنتا ہے؟ منکرینِ وسیلہ اگر قرآنِ کریم کے لفظ
خلیفہ میں غور کر لیں تو انشااللہ ان کے سارے شک دور ہو جائیں۔ پتہ چل جائے
گا کہ ہم تو چھوٹی چیز ماننے کو تیار نہیں تھے رب نے تو بڑی چیز قرآن میں
بیان فرما دی۔ اللہ تعالٰی نے خلیفہ بنایا تو کیوں بنایا، اس کا سبب کیا
ہے؟
علمِ تفسیر میں ایک بہت بڑا نام امام بیضاوی کا ہے وہ اس سوال کا جواب دیتے
ہیں۔ امام بیضاوی فرماتے ہیں:
کہ یہ جو تم خلیفہ کی وجوہات فرماتے ہیں رب میں کوئی بھی موجود نہیں۔ اصل
میں یہ ہے کہ جن پر خلیفہ بنایا ہو اس نے، یہ مخلوق ناقص ہونے کی وجہ سے
براہِ راست رب سے اس کا فیض پا نہیں سکتے؛ کمی رب میں نہیں کمی ان میں ہے۔
وہ نور ہے اور یہ مخلوق ظلمت ہے وہ مادہ سے پاک ہے اور یہ مخلوق مادی ہے ان
کا آپس میں کوئی ربط نہیں وہ فیض دینا چاہتا ہے اور مخلوق فیض لینا چاہتی
ہے تو رب ذوالجلال نے درمیان میں ایک واسطہ بنایا جس کا تعلق اُدھر بھی ہو
جس کا تعلق اِدھر بھی ہو؛ جس میں اتنی صفائی ہو کہ رب سے ہم کلام ہو سکے
اور جس میں بشریت کے تقاضے ہوں کہ بندوں میں بیٹھ سکے۔ تو خالق کائنات نے
فرمایا مجھ میں کسی کمی کی وجہ سے میں نے خلیفہ نہیں بنایا۔ میں نے انسان
میں کمی کی وجہ سے اپنا خلیفہ بنایا ہے تاکہ وہ میرے اور بندے کے درمیان
واسطہ بن جائے وہ مجھ سے فیض لیتا جائے اور بندوں میں فیض بانٹتا جائے۔
اب وسیلہ پہ اڑے ہوئے لوگ خلافت ہی کو سمجھ لیں کہ خلافت تو نصِ قرآن ہے رب
کے خلیفہ بنانے سے اس کی توحید میں کوئی آنچ نہیں آئی تو پھر کسی کے وسیلہ
بن جانے سے بھی اس کی توحید میں کوئی فرق نہیں آئے گا۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت سے پہلے حضرت آدم علیہ السلام نے آپ
کے وسیلہ سے دعا مانگی جسے کو خود رسول اللہ نے بیان فرمایا۔ امام بہہتی
اپنی سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں: حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی بیان فرماتے
ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا: جب آدم علیہ السلام سے (اجتہادی) خطا ہو گئی
تو انہوں نے کہا: اے رب! میں تجھ سے بحق (سیدنا) محمد صلی اللہ علیہ وسلم
سوال کرتا ہوں کہ تو مجھے بخش دے، اللہ عزوجل نے فرمایا: اے آدم! تم نے
محمد کو کیسے پہچانا حالانکہ میں نے تو ابھی تک انہیں پیدا نہیں کیا؟ حضرت
آدم علیہ السلام نے کہا: اے رب! جب تو نے مجھے اپنے دستِ قدرت سے پیدا کیا
اور مجھ میں اپنی روح پھونکی تو میں نے سر اٹھا کر دیکھا تو عرش کے پایوں
پر لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ لکھا ہوا تھا، پس میں جان گیا کہ تو نے
جس کے نام کے ساتھ اپنے نام کو ملا کر رکھا ہے وہ تجھ کو سب مخلوق میں سے
سے زیادہ محبوب ہو گا۔ اللہ عزوجل نے فرمایا: اے آدم تو نے سچ کہا، وہ مجھے
سب مخلوق میں سب سے زیادہ محبوب ہیں۔ اور چونکہ تم نے ان کے وسیلہ سے سوال
کیا ہے اس لئے میں نے تم کو بخش دیا اور اگر میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم
کو پیدا نہ کرتا تو میں تم کو پیدا نہ کرتا۔ (دلائل النبوہ)
امام طبرانی، امام ابن جوزی کے علاوہ اور کئی محدثین نے بھی اس حدیث کو
اپنی سند کے ساتھ حضرت عمر سے روایت کیا ہے۔
ابن تیمیہ نے بھی ان دونوں حدیثوں کو روایت کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث
احادیث صحیحہ کے درجہ میں ہے۔
امام حاکم نیشاپوری نے ایک اور حدیث اس کے مقارب بیان کی ہے۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما بیان کرتے ہیں کہ اللہ تعالٰی نے حضرت
عیسٰی علیہ السلام کی طرف یہ وحی کی: اے عیسٰی! محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر
ایمان لائو، اور جو تمہاری امت میں ان کا زمانہ پائے اس کو بھی ان پر ایمان
لانے کا حکم دو۔ کیونکہ اگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم نہ ہوتے تو میں آدم
علیہ السلام کو پیدا نہ کرتا، اگر محمد نہ ہوتے تو جنت اور دوزخ کو پیدا نہ
کرتا اور میں نے عرش کو پانی پر پیدا کیا تو وہ ہلنے لگا، پھر میں نے اس پر
لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ لکھا تو وہ ساکن ہو گیا۔ یہ حدیث صحیح
الاسناد ہے۔۔۔۔ جاری ہے |