پاکستان کو جتنا نقصان مذہب اور قومیت کے نام پر ہونے
والی غیر ذمہ دارانہ سیاست سے ہوا ،اتنا شاید کسی اور وجہ سے نہیں ہوا ۔سستی
شہرت اورذاتی مقاصد کیلئے بغیر تحقیق اور ثبوت کے مخالفین کے خلاف الزام
تراشی کی جاتی رہی ۔مبالغہ آمیزی اور حقائق کو توڑ مروڑ کر ایسی ایسی
کہانیاں اور افواہیں پھیلائی گئیں کہ سادہ لوہ عوام نے انہیں سچ مان لیا۔
سیاستدانوں اور مذہبی راہنماؤں نے جلسے جلوسوں میں جوش خطابت کا مظاہرہ
کرتے ہوئے عوام کے دلوں کو گرمانے کیلئے ایسے ایسے بیانات داغے جو غیر
حقیقی تھے ۔ اس غیر ذمہ دارانہ مذہبی اور قومیتی سیاست نے عوام کے ذہنوں
میں نفاق کا ایسا بیج بویا جس کی فصل ہم آج کاٹ رہے ہیں۔نام نہاد لیڈروں نے
طبقاتی تقسیم پیدا کی۔ لوگوں کے اندریہ احساس بیدار کیاکہ دوسرے ان کے ساتھ
زیادتی کر رہے ہیں اور یہی احساس مشرقی پاکستان کی علیحدگی کا باعث بنا ۔
اس وقت کے سرکردہ سیاسی راہنماؤں نے ایک دوسرے کے ساتھ اپنی ذاتی رنجش اور
چپقلش کا بدلہ لینے کیلئے عوام کے کندھے پر بندوق رکھ کرچلائی۔ مشرقی
پاکستان میں بسنے والوں کے ذہنوں میں مغربی پاکستان میں رہنے والوں کے خلاف
جذبات کوہوا دی گئی ۔انکے احساس محرومی کواتنا ابھارا گیا کہ وہ احساس
کمتری کا شکار ہوکر مغربی پاکستان سے بدزن ہو گئے ۔جلتی پر تیل کا کام
بھارت نے کیا اور یوں پاکستان دو لخت ہو گیا۔ لیکن نا عاقبت اندیش مذہبی
اور قومی لیڈروں کی تسکین نہ ہوئی ۔انہوں نے پختونستان، سندھو دیش اورآزاد
بلوچستان کا راگ الاپنا شروع کر دیا اور اس سب میں پاکستان کہیں گم ہو گیا
۔
سندھ اور بلوچستان کے قوم پرست لیڈروں نے قومیت کا جھنڈا اٹھایا اور وہاں
کے معصوم عوام کو یہ احساس دلایا کہ پنجاب ایک بڑا صوبہ ہے اور پنجابی
تمہارے ساتھ زیادتی کر رہے ہیں ہم تمہاری قوم میں سے ہیں اور صرف ہم ہی
تمہیں اس زیادتی سے نجات دلا سکتے ہیں ۔مدتوں سے غلامی کی زنجیروں میں جکڑے
ہوئے مزارعے اور کمیوں کو کیا پتہ تھا کہ حقوق کس چڑیا کا نام ہے۔ ان کیلئے
تو وڈیروں اور سرداروں کے منہ سے نکلا ہو اہر لفظ حکم ہوتا ہے انہیں کیا
خبر تھی کہ سیاست کی بسا ط پر انکی حیثیت ایک پیادے سے زیادہ کچھ نہیں ۔ ان
قوم پرست لیڈروں نے سندھ کارڈ اور بلوچ حقوق کو bargaining chipکے طور پر
استعمال کر نا شروع کر دیا اورآج بھی کر رہے ہیں ۔ خود ساختہ اور من گھڑت
کہانیوں کو عام کرکے بلوچ قوم کو بغاوت کے راستے پر ڈالا گیا ۔ اپنے ذاتی
غم و غصے اور خواہشات کی تسکین کیلئے عوام کو ریاست سے لڑانے کی سازش رچی
گئی یہاں تک کہ پاکستان کے دشمنوں سے ہاتھ ملا گیا ۔ یہ بلوچ قوم کی کیسی
خدمت ہے کہ وہاں کے نوجوانوں کو تعلیم و ترقی کے راستے پر ڈالنے کی بجائے
قتل و غارت گری کے راستے پر ڈال دیا گیا؟کالا باغ ڈیم صوبائیت کے جھگڑے کی
نظرہو گیا ۔ پختونوں کو یہ پٹی پڑھائی گئی کہ ا س سے پنجابیوں کو فائدہ
ہوگا حالانکہ بے شمار رپورٹس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ اس سے پختونوں کو
بھی فائدہ ہوگا لیکن سیاستدانوں کیلئے یہ قابل قبول نہیں کیونکہ اس سے انکا
سیاسی ایجنڈا متاثر ہوتا ہے۔ انہوں نے اس تاثر کو پختہ کرنے میں انتھک محنت
کی کہ یہ منصوبہ پختونوں کیلئے نقصان دہ ہے۔ نتیجہ روشنی کا ایک بہترین
منصوبہ کھٹائی میں پڑ گیا اور پاکستان اندھیروں میں ڈوب گیا ۔ سی پیک پر وہ
دھول اڑائی جارہی ہے کہ چینی قوم بھی اس قوم پرستی پر حیران ہے ۔ یہاں تک
کہہ دیا گیا کہ جیسے کالا باغ ڈیم نہیں بننے دیا اسطرح سی پیک بھی نہیں
بننے دینگے ۔ فاٹا کے KPK میں ضم ہونے اور مردم شماری پر بھی سیاست ۔ یہ
پختون قوم کے حقوق کی کیسی جنگ لڑی جا رہی ہے جہاں اس قوم کی تھوڑی سی ترقی
و خوشحالی بھی بر داشت نہیں ہوتی ؟
پنجاب میں سرمایہ داروں اور جاگیر داروں نے پنجابیوں کا استحصال کیا ۔مختلف
گروہوں اور قوموں کے بااثر افراد نے سیاست کو کاروبار بنا کر خوب مال بنایا
۔تقسیم کرواور حکمرانی کرو کے اصول پر عمل کرتے ہوئے عوام کو ایک دوسرے سے
لڑاتے رہے اور خود حکمرانی کے مزے لوٹتے رہے اور لوٹ رہے ہیں ۔محض سیاست
چمکانے کیلئے یہ تاثر پھیلایا گیا کہ پاکستان میں مہاجرین کو قبول نہیں کیا
جا رہا ۔ چھوٹی چھوٹی باتوں کو بنیاد بنا کر ایک ایسا ماحول پیدا کیا گیا
جس کے نتیجے میں پاکستان کی محبت میں اپنے گھر بار چھوڑ کر آنیوالوں کے
دلوں میں یہ احساس پیدا ہوا کہ انہوں نے پاکستان آکر غلطی کی۔ مہاجروں کے
حقوق کے نام پرشہر کراچی میں آگ اور خون کی وہ ہولی کھیلی گئی کہ شہر ویران
اور گلیاں قبرستان کا منظر پیش کرنے لگیں۔جن ہاتھوں میں قلم ہونا چاہیے تھا
ان میں ٹی ٹی آگیا اور انکے قدم اس راستے پہ چل نکلے جس کی منزل موت یا پھر
جیل ہے ۔
متعصب اور عامیانہ درجے کے مذہبی لیڈروں نے شیعہ سنی فساد کے وہ بیج بوئے
کہ آج بھی محرام الحرام خوف کے سائے میں گزرتا ہے ۔ کیا عیدیں اور کیا عید
میلادالنبی خوشی کا ہر مذہبی تہوار متنازعہ بنا دیا گیا۔ کفر کے فتوے ڈاک
کی ٹکٹوں کی طرح جاری ہوتے رہے ۔ صبر ، برداشت، رواداری، امن اور بھائی
چارے کو فروغ دینے کی بجائے ہر کوئی اپنا عقیدہ دوسروں پر مسلط کرنے کی دوڑ
میں لگا رہا ۔معصوم عوام کے ساتھ ساتھ بے شمار جید علماء مذہبی جنونیوں کی
آپسی لڑا ئی کا ایندھن بن گئے ۔اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے کے
مصداق اسلام کو مسلمانوں نے ہی شرمسار کر دیا۔
آج بھی مذہب اور قومیت کے نام پر تقسیم کا سلسلہ جاری ہے کیونکہ مذہب اور
قومیت کے نام پر لوگوں کے جذبات سے کھیلنا بڑاآسان ہے ۔دعا ہے کہ پاکستان
کے عوام مذہب اور قومیت کے نام پر بھیڑ بکریوں کی طرح قربان ہونے سے بچ
جائیں ، مذہب اور قومیت کے نام پر سیاست کا باب ہمیشہ کیلئے بند ہو جائے
اور بیس کروڑ سے زائد انسانوں کا یہ ہجوم ایک منظم قوم کی شکل اختیار کر لے
اور ہر کوئی یہ کہے کہ میں صرف پاکستانی ہوں۔
|