کچھ تو محفوظ ہے وطن میں میرے

میری پاک دھرتی کا عجب نصیب ہے کہ یہاں اﷲ کے نام پر آنے جانے والوں کے لئے سر راہ اگر پانی کا کولر نسب کر دیا جائے تو اس پر بغیر زنجیر کے گلاس تک محفوظ نہیں رہتا وہ گلاس بھی کوئی لے کر چلتا بنتا ہے ،پان سگریٹ کی دوکان پر چلے جائیں تو وہاں بھی دوکاندار نے ماچس کو دھاگے کے ساتھ باندھ رکھا ہوتا ہے پوچھنے پر وہ بتاتا ہے کہ کہ صاحب یہاں سگریٹ سلگانے کے لئے ماچس لیتے ہیں اور جیب میں ڈال کر چلتے بنتے ہیں ،مسجد جو اﷲ کا گھر ہے وہاں پانی کی ٹونٹی سے لے کر نمازی کا جوتا تک محفوظ نہیں ،بے ہنگم اور بے ترتیب ٹریفک سے آئے روز کے حادثات سے کسی کی جان محفوظ نہیں ،راہ چلتے کسی کو بھی گولیوں سے بھون دیا جاتا ہے جیسا کہ ابھی دو دن پہلے آزادی چوک لاہور میں تین باپ بیٹوں کو سرعام گولیاں مار کر ہلاک کر دیا گیا جو کہ دشمنی کا شاخسانہ بتایا جاتا ہے مگر اس فائرنگ کی زد میں ایک بے گناہ راہگیر بھی آگیا اس کی تو کسی سے دشمنی نہیں تھی وہ بیچارہ جرم بیگناہی کی بھینٹ چڑھ گیا اسی لئے تو کہہ رہا ہوں کہ راہ چلتا بندہ تک محفوظ نہیں ،سمن آباد لاہور میں جیسے ایک بے گناہ نوبیاہتا دلہن اپنے دولہا ہی کے ہا تھوں شادی کے صرف تیسرے دن قتل ہو گئی اس کا جرم یہ تھا کہ دولہا میاں کو وہ دلہن پسند نہیں تھی وہ شادی کہیں اور کرنا چاہتا تھا مگر والدین کے سامنے مجبور ہو کر اسے شادی کرنا پڑی جیسے بھی حالات تھے اس میں اس بیٹی کا تو کوئی قصور نہیں تھا قصور تو دولہا کے والدین کا تھا جنہوں نے اسکی مرضی کے خلاف شادی کر دی یا پھر خود دولہا قصوروار تھا جس نے بوقت نکاح تو ہاں کر دی بعد ازاں اپنی نئی نویلی دولہن کو صرف اس بات پر قتل کر دیا کہ مجھے پسند نہیں ہے کہنے کا مطلب یہ کہ یہاں کوئی بیٹی محفوظ نہیں ،اگر حکومت وقت کے خلاف کوئی دین محمد زبان کھولنے کی جسارت کرے تو اسکا مستقبل محفوظ نہیں وہ پہلے تنخواہ کا رونا روتا ہے پھر سترھویں گریڈ سے پانچویں گریڈ پر آتا ہے ایک ایم پی اے کی مخالفت کے جرم میں جب وہ خادم اعلی صاحب کے خلاف زبان کھولتا ہے تو ہڈیاں تڑوا کر گھر چلا جاتا ہے اور نوکری ہی سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے بالآخر وہ فروٹ کی ریڑھی لگانے پر مجبور ہو جاتا ہے یہاں کا تعلیم یافتہ نوجوان صرف اس وجہ سے محفوظ نہیں کہ وہ شاہوں کا یس مین بن کر نہیں جیتا ،یہاں کسی کی حفاظت پہ مامور سیکیورٹی گارڈ خود محفوظ نہیں نہ سماجی طور پر اور نہ ہی معاشی طور پر ،کسی بھی ادارے میں کام پڑ جائے تو آپ رشوت کے مزائیل سے محفوظ نہیں ،عام شہری مہنگائی کے عتاب سے محفوظ نہیں ،کسی بھی جرم کو بے نقاب کرنے والے صحافی محفوظ نہیں اگر وہ کسی تگڑے بندے کو بے نقاب کرنے کی سعی کریں تو ان پر دہشگردی کے مقدمات قائم ہو جاتے ہیں لہذا لکھنے والے جو معاشرے کی آنکھ کہے جاتے ہیں وہ جھوٹے مقدمات سے محفوظ نہیں ، سرکاری ادارے سیاسی اجارہ داری سے محفوظ نہیں ،مریض بے چارے ڈاکٹرز کی بھاری فیسوں کے علاوہ ڈاکٹرز کے بچھائے ہوئے ٹیسٹوں ،ایکسریز،اور ادویات پر کمیشن مافیا کے جال سے محفوظ نہیں ،تعلیمی اداروں میں طلبہ اور والدین جبری ٹیوشن سے محفوظ نہیں ،میری دھرتی کی عوام کھانے پینے والی اشیاء کے نام پر فروخت ہونے والی زہروں سے محفوظ نہیں ،حلال گوشت کی آڑ میں میرے وطن کے لوگ گدھے کھانے سے محفوظ نہیں ،ہم لوگ لسانی گروہی اور مذہبی تعصبات سے محفوظ نہیں معزز قارئین کرام آپ بخوبی طور پر واقف ہیں کہ ہم لوگ کس کس طرح اور کن کن لوگوں سے غیر محفوظ ہیں مگر آج اچانک کسی شاعر کا ایک شعر نظر سے گزرا جو کچھ اس طرح تھا کہ
کچھ تو محفوظ ہے وطن میں میرے
وہ پانامہ کا فیصلہ ہی سہی

اور حقیقت بھی کچھ اسی طرح دکھائی دیتی ہے جو کہ شاعر نے دو سطروں میں بیان کر دی ہے ۔ ساری قوم کی نگاہیں جس نقطے پر مرکوز تھیں وہ تھا پانامہ لیکس کا تاریخی فیصلہ سال بھر کی سماعتوں کے بعد آخر کار ہماری معزز عدالت نے فیصلہ محفوظ کر لیا عوام فیصلے کی منتظر رہ رہ کر بو ر ہورہی تھی کہ عوام کی تسکین طبع کے لئے مختلف نت نئے کھیل پیش کئے جانے لگے کبھی حسین حقانی کے آرٹیکل کو موضوع بحث بنا کر تمام میڈیا پر اتنا ہائی لائٹ کیا گیا کہ شائید یہ ڈرامہ دیکھ کر عوام پانامہ کا تاریخی ڈرامہ بھول جائیں مگر حسین حقانی گرم اور نیا ایشو ہونے کے باوجود دنیا اک دوسرے سے پوچھتی ہوئی پائی گئی کہ یار وہ پانامہ کا کیا بنا پھر جناب کراچی میں ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی کی چپقلش کو خوب اچھال کر دیکھا گیا کہ ہو سکتا ہے ان کی لڑائی اور بیان بازی دیکھ اور سن کر ہی عوام پانامہ کے سحر سے آزادی پا لیں مگر ایسا کرنے سے بھی کامیابی حاصل نہ ہو سکی اور لوگ بدستور پانامہ پر بات کرتے ہوئے دیکھے گئے ہیں ۔اسکے بعد ایک ایکٹ کا ایک مزاحیہ ڈرامہ آن ائیر کیا گیا جسے ڈاکٹر فاروق ستار کی گرفتاری اور رہائی کا نام دیا گیا پہلے تو ڈاکٹر فار وق ستار کو گرفتار کروایا گیا اور پھر چل سو چل بیان بازی شروع ہو گئی حکومتی لوگ کہہ رہے تھے کہ فاروق ستار صاحب کو گرفتار کیا ہی نہیں گیا بلکہ وہ تو پولیس محض مشق کرہی تھی ارے بابا میں نے اپنی زندگی میں پہلی مرتبہ سنا ہے کہ پولیس مشقوں میں بھی کسی سرکردہ سیاسی راہنما کو گرفتار ہونے کی پریکٹس بھی کرواتی ہے اور طریقہ سمجھانے کے بعد چھوڑ بھی دیا جاتا کئچھ اس طریقے کی سیاسی شعبدہ بازیاں کر کے ماں دھرتی کے وجود کو سکھ پہنچایا جا رہا ہے ۔بات یہ ہے کہ اگر اگست میں ڈاکٹر فاروق ستار کے بلا ضمانت وارنٹ جاری کئے جاچکے تھے تو انہیں اس وقت گرفتار کیوں نہ کیا گیا ؟اور بعد میں اگلے سال مارچ میں کیوں گرفتار کیا گیا ؟ اور اگر گرفتار کیا ہی تھا تو ایک گھنٹے کے ڈرامے کے بعد کیوں چھوڑ دیا گیا ؟ثابت ہوتا ہے کہ کبھی پاک دھرتی کے سیاستدانوں کے ہاتھوں قانون محفوظ نہیں اور کبھی انہی سیاستدانوں کے نعروں اور بیانات کی وجہ سے وطن کی ساکھ محفوظ نہیں ۔ایک کے بعد ایک رنگین ڈرامے پیش کئے جا رہے ہیں عوام کی ذوق طبع کی تسکین کے لئے مگر بے سود ابھی حال ہی میں ایک اور مختصر دورانئے کا کھیل پیش کیا گیا شرجیل میمن کی اسلام آباد ائر پورٹ پر نیب کے ہاتوں گرفتاری اور پھر اس ڈرامے کا ڈ راپ سین بھی عین فاروق ستار والے ڈرامے کی صورت ایک گھنٹے بعدرہائی کی شکل میں سامنے آگیا پھر پیپلز پارٹی والے نیب کے خلاف بیانات داغنا شروع کر دیتے ہیں کہ نیب تو بنا ہی پیپلز پارٹی اور سندھ کے لئے ہے اس طرح سیاستدانوں کے ہاتھوں نیب جیسا ادارہ بھی محفوظ نہیں اگر شرجیل انعام میمن کرپٹ ہے تو اسے پہلے گرفتار کیوں نہیں کیا گیا ؟حالانکہ میرے خیال کے مطابق شرجیل میمن پر کیسز پانامہ سے پہلے کے ہیں انکو پہلے کیوں حراست میں نہ لیا گیا اب ہی کیوں ؟اسی طرح اور بی بہت سے ایسے موضوعات ہیں جن میں ثابت کیا جا سکتا ہے کہ کون کون اور کیسے کیسے کس کس کے ہاتھوں محفوظ نہیں ۔ہاں اگر محفوظ ہے تو پانامہ کیس کا فیصلہ جس کا پوری قوم کو شدت سے انتظار ہے کہ سچ اور جھوٹ قوم کے سامنے آ ہی جانا چاہئے مزید کتنی دیر تک پانامہ کا فیصلہ محفوظ رہے گا جب ہر چیز یہاں غیر محفوظ ہے تو پانامہ کا ناگ بھی اب پٹاری سے باہر آہی جانا چاہئے بھلے فیصلہ کچھ بھی ہو ۔

Dr M H Babar
About the Author: Dr M H Babar Read More Articles by Dr M H Babar: 83 Articles with 73081 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.