امام جلال الدین رومیؒ ایک حکایت میں تحریر کرتے ہیں کہ
ایک مرتبہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام جنگل میں جا رہے تھے کہ ایک بیوقوف شخص
اُن کے ساتھ ہو لیا۔ جنگل میں ایک جگہ گہرے گڑھے میں ہڈیوں کا ڈھیر پڑا ہوا
تھا۔ وہ بیوقوف ہڈیوں کا ڈھیر دیکھ کر رُک گیا اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام
سے کہنے لگا۔ اے روح اللہ وہ کیا اسمِ اعظم ہے جس کو پڑھ کر آپ مردوں کو
زندہ فرماتے ہیں۔ مجھے بھی اسمِ اعظم سکھا دیں تاکہ ان بوسیدہ ہڈیوں میں
جان ڈال دوں۔
اس احمق کی بات سُن حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے کہا کہ خاموش ہو جا تیری
زبان اُس اسم کے لائق نہیں۔ وہ بضد ہوا اور کہنے لگا بہت اچھا اگر میری
زبان اس اسمِ اعظم کے لائق نہیں تو آپ ہی ان ہڈیوں پر پڑھ کر دم کر دیں۔
اُس نے یہاں تک اپنی بات پراصرار کیا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام سخت متعجب
ہوئے کہ اور دل میں کہا کہ یا الٰہی یہ کیا بھید ہے اس احمق کی اتنی ضد کس
لیے ہے کہ یہ دوسرے مردے کو زندہ کرنے کی فکر میں ہے۔
حق تعالیٰ نے حضرت عیسٰی علیہ السلام پر وحی نازل کی کہ اس میں حیرت کی کیا
بات ہے۔ حماقت کو حماقت ہی کی تلاش ہوتی ہے اور بدنصیبی بدنصیبی ہی کا گھر
ڈھونڈتی ہے۔ کانٹوں کا اُگنا اُن کے بوئے جانے کے عوض ہے۔ اتنے میں اُس
بیوقوف نے ایک مرتبہ ان ہڈیوں پر اسمِ اعظم پڑھ کر دم کرنے کا تقاضا کیا۔
جب انہوں نے سمجھانے کی کوشش کی تو وہ ناراض ہو کر کہنے لگا اے روح اللہ اب
آپ بھی اپنا معجزہ دکھانے میں بخل سے کام لینے لگے۔ شائد آپ کی زبان مبارک
میں پہلی تاثیر نہیں رہی۔ یہ سن کر حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے اُن ہڈیوں پر
اسمِ اعظم پڑھ کر دم کیا۔
آن کی آن میں اُن ہڈیوں میں حرکت ہوئی اور ایک ہیبت ناک شکل کا قوی الجثہ
شیر کھڑا ہوا اور اُس نے گرج کر جست لگائی اور اُس بیوقوف آدمی کو لمحہ بھر
میں چیر پھاڑ کر برابر کر دیا۔ یہاں تک کہ کھوپڑی بھی پاش پاش کر ڈالی اور
اُس کا خول ایسا خالی ہوا کہ جیسے اُس میں بھیجہ تھا ہی نہیں۔
حضرت عیسیٰ علیہ السلام یہ تماشا دیکھ کر حیران ہوئے اور شیر سے پوچھا اے
جنگل کے درندے تو نے اس شخص کو اتنی تیزی سے کیوں چیر پھاڑا۔ شیر نے جواب
دیا اس وجہ سے کہ اس احمق نے آپ کو خفا کر دیا تھا اور آپ کی توہین پر اُتر
آیا تھا۔
حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے اس سے پوچھا کہ تو نے اس کا گوشت کیوں نہ کھایا
اور اُس کا خون کیوں نہ پیا۔ شیر نے کہا اے پیغمبرِ خدا میری قسمت میں اب
رزق نہیں ہے۔ اگر اس جہان میں میرا رزق ہوتا تو مجھے مردوں میں داخل ہی
کیوں کیا جاتا۔ |