پاکستان اسی دن وجود میں آگیا تھا جس دن ہندوستان میں
پہلے ہندو نے اسلام قبول کیا تھا ۔یہ اس زمانے کی بات ہے جب یہاں مسلمانوں
کی حکومت بھی قائم نہیں ہوئی تھی ۔مسلمانوں کی قومیت کی بنیاد کلمہ توحید
ہے نہ کہ وطن اور نسل ۔ہندوستان کا پہلا فرد جب مسلمان ہوا تو وہ پہلی قوم
کا فرد نہیں رہا ۔ وہ ایک الگ جداگانہ قوم کا فرد ہو گیا ۔ اسی دن ہندوستان
میں ایک نئی قوم وجود میں آ گئی ۔ وہ قوم ہے مسلمان ۔جس کا خدا ایک ۔رسول
ایک ۔اور کتاب بھی ایک ۔
اس کی ابتداء اسی دن ہو گئی تھی جس دن برصغیر میں پہلا مرد مسلمان ہوا تھا۔
دراصل وہ ایک قوم سے نکل کر دوسری قوم کا فرد بن گیا ۔اور اسی دن ہندوستان
میں دو قومیں بن گئیں ایک ہندوستان اور دوسری مسلمان ۔ہندو اور مسلمانوں کی
علیحدہ قومیت کا یہی تصور ’’مطالبہ پاکستان ‘‘ قیام پاکستان کا محرک تھا ۔اور
اسی تصور کو لے کر قائد اعظم محمد علی جناح نے دشمنوں کے ساتھ بقا ء اور
عزت کی جنگ لڑی ۔کیونکہ ایک ہی جگہ دو قومیں کیسے رہ سکتی ہیں ۔ جن کے مذہب
الگ۔ رہن سہن الگ۔ مسلمان اپنے ایک خداکی پوجا کریں تو ہندو اپنے ہزاروں
دیوتوں کی آڑتی اتاریں ۔ایسے حالات میں دو قومیں مل کر کیسے زندگی گزار
سکتیں تھیں ۔ان تمام حالات کو دیکھتے ہوئے قائد اعظم نے فرمایا۔
23مارچ کا دن ہم پاکستانیوں کے لئے ایک تجدید عہد ساز دن کی اہمیت رکھتا ہے
جس دن کچھ ایسا ہونے جا رہا تھا کہ جس کا دنیا نے کبھی تصور بھی نہیں کیا
تھا۔ کبھی کسی نے یہ سوچا بھی نہیں تھا کہ پاکستان دنیا کے نقشے پر جگمگائے
گا ۔ اور سارے مسلم ممالک کو اپنی اہمیت سے روشن کر دے گا۔
او ر برصغیر میں رہنے والے ہندوؤں کے کئی خدا ،اور کئی کتابیں ۔کبھی سورج
کی پو جا تو کبھی گائے کی پوجا ۔کبھی مٹی کے بنائے بھگوانوں کی پوجا تو
کبھی آگ اور پانی کی پوجا۔ایسے لوگوں میں زندگی کیسے گزرے جہاں مردوں کو
جلا دیا جائے اور عورت کو زندگی بھر کے لئے ودھوا بنا کر چھوڑ دیا جائے ۔
جہاں پر صرف ہندوؤں کو نوازا جائے اور مسلمانوں کے ساتھ ناانصافی اور
اقلیتی جنگ کی جائے ۔مسلمانوں کو ذلت اور ہندوؤ ں کو بادشاہ بنایاجائے ۔جب
ایسے حالات پیدا ہوئے تو مرد ملت قائد اعظم محمد علی جناح سے یہ سب کچھ نہ
دیکھا گیا اور آپ نے مسلمانوں کے لئے ایک الگ ملک بنانے کی ٹھان لی اور
اپنی مجاہدانہ قابلیت کے ذریعے مسلمانوں کو اکٹھا کر نا شروع کر دیا اور
اپنے مقصد اور مسلمانو ں کو اس ذلت بھری زندگی سے آزاد کروانے کے لئے23مارچ
1940ء کو لاہور میں منٹو پارک کے مقام پر مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس کے موقع
پر ایک قراردار کی صورت دو قومی نظریہ پیش کیا گیا ۔جس کو قرار دار لاہور
یا قراردار پاکستان بھی کہا جاتا ہے ۔اس قرار دار کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ
ایک ہی جگہ پردوقومیں اکٹھا نہیں رہ سکتیں ۔اس لئے مسلمانوں کے ایک الگ ملک
ہونا چاہئے جہاں وہ اپنی زندگی اپنے مذہب اور اپنے طریقہ سے آزادنہ طور پر
گزار سکیں ۔ ہمیں اس تاریک ساز دن کی قدرو اہمیت کو جانتے ہوئے اس ملک کے
دشمنوں کے ساتھ پاکستان کے روشن مستقبل کیلئے کسی قربانی سے دریغ نہیں کرنا
چاہئے۔ خدا ہمارے ملک کو اسی طرح شادو آبادرکھے ۔اور ہمار ا یہ پیارا ملک
قیامت تک دنیا کے نقشے پر چمکتا رہے ۔آمین
خدا کرے کہ مرے ارض پاک پر اترے
وہ فصل گل جسے اندیشہ زوال نہ ہو
یہاں جو پھول کھلے وہ کھلا رہے برسوں
یہاں خزا ں کو گزرنے کی بھی مجال نہ ہو
یہا ں جو سبزہ اگے وہ ہمیشہ سر سبز رہے
اور ایسا سبز کہ جس کی کوئی مثال نہ ہو
ہر فردہو تہذیب وفن کا اوج کمال
کوئی ملول نہ ہو کوئی خستہ حال نہ ہو
خدا کرے کہ مرے ارض پاک پر اترے
وہ فصل گل جسے اندیشہ زوال نہ ہو |