میرا جنم دن اور میں خانہ کعبہ کے سامنے

جی ہاں قارئین اکرم!آج میں 69سال کا ہوچکا ہوں، آج ہی کے دن 25مارچ 1948کو میں نے پاکستان کے صوبے پنجاب کے شہر میلسی جو کہ ملتان کے قریب ہے میں جنم لیا تھا۔ لیکن میری تمام زندگی بچپن، جوانی اور اب بڑھاپا پاکستان کے شہر کراچی میں بسر ہوا اور ہورہا ہے۔ میں اپنی خوش بختی پر نازاں ہوں ِ رشک کررہا ہوں کہ آج کے یادگار دن،میں خانہ کعبہ کے صحن’مطاف‘ میں عین اس جگہ موجود ہوں جہاں سے طواف کا آغاز کیا جاتا ہے۔ طوافِ کعبہ حَجرِاَسوَد سے شروع ہوتا ہے اور اسی پرایک چکر مکمل ہوتا ہے۔میں اسی ماہ کی9 تاریخ کو آیا تھا ایک روز بعد یعنی 27کی صبح میری واپسی ہے۔ آج الوداعی طواف کرنے اپنے پروردگار کے سامنے حاضر ہوا ہوں۔ آج کے دن کا انتخاب میں نے قصداً کیا ہے تاکہ میں الوداعی طواف بھی کر لوں اور اپنے پیدائش کے دن کے حوالے سے اپنے رب سے خصوصی دعا و تشکر بھی کروں کہ اس نے مجھے اس عمر میں اس قابل رکھا کہ آج اس کی بارگاہ میں حاضر ہوں۔عرف عام میں سالگرہ، ہندی میں جنم دن، انگریزی میں برتھ ڈے اور اردو میں پیدائش کا دن کہا جاتا ہے۔ نہیں معلوم یہ تہوار کیوں کر بن گیا۔ اسلام میں سالگرہ منانے کا کوئی تصور پایا نہیں جاتا، اس دن تو ہمیں اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ ہماری زندگی کا ایک سال اور بخیر آفیت کے گزرگیا، دوسرے معنوں میں یہ کہا جاتا ہے کہ ہماری زندگی کا ایک سال کم ہوگیا، آئندہ صحت مند زندگی کی دعا کرنی چاہیے لیکن کیا کیا جائے ہندوں کے ساتھ شیرو شکرہو نے، ان کے ساتھ رہن سہن نے، ان کی قربت نے اور مغرب کی تقلیدمیں ہم اپنی قدروں کو بھول بیٹھیں۔ جانتے بوجھتے، سوچتے سمجھتے ہم مغرب اور ہندو رسم و رواج کو اپنائے ہوئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اسلامی قدروں کا احترام کرنے اور ان پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

حَجرِاَسوَد کے سامنے جاکر آغازِ طواف کیا، اس طرح کھڑے ہوئے کہ حَجرِاَسوَد ہمارے داہنی جانب تھا،پھر قبلہ رخ ہوکر بغیر ہاتھ اٹھائے طواف کی نیت کی۔”اے اللہ! میں آپ کی رضا کے لیے الوداعی طواف کرتاہوں، آپ اس کو میرے لیے آسان فرمادیجئے اور اسے قبول کرلیجئے“۔ اس نیت کے ساتھ میں نے اضافی دعا یہ بھی کی کہ اے اللہ! تیرے رحم و کرم سے میں آ ج 69سال کا ہوگیا۔تیرا لاکھ لاکھ شکر اور احسان، میں تجھ سے آئندہ بھی صحت والی زندگی کی دعا کرتا ہوں۔ تو مجھے جب تک زندہ رکھے صحت و عافیت کے ساتھ، چلتے ہاتھ پیروں کے ساتھ، ذہنی و جسمانی تندرستی کے ساتھ زندہ رکھنا۔ میرے اللہ میں تیرا فضل مانگتا ہوں تو مجھے گزشتہ چھ سال سے یہ سعادت عطا کر رہا ہے۔ میں گزشتہ چھ سال میں چھ بار تیرے دربار میں حاضر ہوا ہوں، یا اللہ مجھ پر اپنا کرم، رحم، عنایت، فضل اسی طرح جاری رکھنا، میں گناہ گار بندہ اور تیری یہ عطا، شکر ہے میرے مالک، تیرا احسان کس منہ اور کن الفاظ سے ادا کروں میرے پاس وہ الفاظ نہیں وہ ادائیگی نہیں،وہ جوش وجذبہ نہیں بس تو میرے اسی عمل، انہیں ٹوٹے پھوتے الفاظ کو قبول و منظور فرمالے۔ اللہ کریم اِسی سال میرا ارادہ اپنی شریک حیات شہناز کے ہمراہ حج کی ادائیگی کا بھی ہے تو اسے بھی ہمارے لیے منطور فرمالے اور اس فرض کی ادائیگی میں آسانیاں پیدا فرمادے۔

معارف الحدیث میں ہے کہ نبی کریم ﷺ کا ارشاد مبارک ہے کہ حج اور عمرہ کے لیے جانے والے خدا کے خصو صی مہمان ہیں وہ خدا سے دعا کریں تو خدا قبول فرماتا ہے اور مغفرت طلب کریں تو بخش دیتا ہے۔ ترمذی شریف کی حدیث ہے کہ ”نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا”جس نے پچاس بار بیت اللہ کا طواف کرلیا وہ اپنے گناہوں سے ایسا پاک جیسے اس کی ماں نے اس کو آج ہی جنم دیا ہے“۔ روایت کے مطابق نبی محمد ﷺ نے ہجرت سے قبل دو حج کیے بعض موررخین کے مطابق تین حج کیے اور آپ ﷺ کے عمروں کی تعداد چار بتائی جاتی ہے۔الحمد اللہ میں نے اپنے نبیﷺ کے عمروں کی سنت کو پورا کر لیا، پروردگار مجھے حج کی سعادت بھی عطا فرما دے آمین۔اے اللہ تو نے مجھ پر بے انتہا کرم و فضل کیا ہے، فرمابردار اولاد عطا کی، تو نے ہی مجھے اپنی اولاد کو اس قابل بنا نے کی توفیق عطا فرمائی کہ وہ آج اپنے کاندھوں پر خوش و خرم زندگی بسر کررہی ہے، ہر طرح خوش ہے، پروردگار یہ تیرا ہی کرم ہے کہ تو نے اولاد کے ساتھ ساتھ مجھے پوتے، پوتی، نواسہ اور نواسیاں بھی عطا فرمائیں۔ اے میری رب مجھے کچھ کرنے کے قابل بنانا تیرا ہی کام تھا۔تیری رضا سے ہی میں زندگی میں کچھ کرسکا۔ اس کے ساتھ ہی میرے والدین نے مجھے اس قابل بنایا، یا اللہ میروالدین کی بخشش فرما، انہیں جنت الفردوس نصیب فرما، ان کے چھوٹے بڑے گناہ معاف فرما، انہیں کروٹ کروٹ سکون عطا فرما۔آمین

الوداعی طواف کے ہر چکر میں خوب خوب مانگا، دل کھول کر مانگا، بے جھجک مانگا، اپنے لیے اوروں کے لیے، جن جن احباب نے دعاؤں کے لیے کہا ان سب کے لیے دعائیں کیں، جن کے نام یاد تھے ان کے نام لے کر جن کے نام یاد نہ تھے ان کے نام لیے بغیر ان کی دعائیں پروردگار کی بارگاہ میں پہنچائیں۔ پرور دگارجس جس نے میرے لیے دعائیں کیں ان سب کو اپنی رحمت سے نواز دے، ان کے درجات بلند فرمائے۔ اسلامی تعلیمات کی روح بھی یہی ہے کہ ہم سالگرہ کے دن اپنا احتساب کریں کہ اس سال کے 365دن میں ہم کونسا ایسا کام کیا جو نہیں کرنا چاہیے تھا، اچھے کام جو نہیں کیے جاسکے اس کی وجوہات کا جائزہ لے کر آئندہ سال انہیں انجام دینے کا ارادہ کرنا چاہیے۔ سالگرہ منانے کی تاریخ بہت قدیم ہے۔ قدیم تہذیبوں یونان، روم اور مصر کی تہذیبوں میں سالگرہ کے منانے کی روایت ملتی ہے۔ اسلامی تاریخ کے مصنف و محقق حافظ محمد شارقؔ نے اس موضوع کی وضاحت اپنے ایک بیان میں کی جو انٹر نیٹ کی ویب سائٹ جس کا یو آر ایل  https://truewayofislam.blogspot.com/2012/10/blog-post.htmlہے پر موجود ہے۔ حافظ شارق کے مطابق ”سالگرہ منانے کا رواج تاریخ میں ہمیں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ظہور سے قبل ملتا ہے، روم و یونان کی قدیم تہذیبوں میں یہ خیال کیا جاتا تھا کہ ارواح اپنی سالگرہ کے دن زمین پر آتی ہیں لیٰذا اس دن ان کی پرستش کا خاص اہتمام کیا جاتا تھا۔ تاہم اس وقت تحائف وغیرہ کا سلسلہ نہیں تھا۔ مصر میں بھی کچھ اسی قسم کی روایت تھی، دیوتاؤں کی سالگرہ کا اہتمام بھی قدیم تہذیبوں میں پایا جاتا ہے۔ اس طرح کی سالگرہ، جیسے آج منائی جاتی ہیں، یعنی کیک کاٹنا، تحائف دینا اور چھوٹی سی تقریب کرنا اس کا تعلق خاص یونانی تہذیب سے ہے۔اہل یونان جو چاند کی دیوی’ارتمس‘ کو پوچتے تھے اور اس کی سالگرہ کا دن ٹیبل پر کیک رکھ کر، موم بتیاں روشن کر کے کیا کرتے تھے۔ اس کے بعد عیسائیوں میں یہ سلسلہ رائج ہوا جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور اپنی سالگرہ منانے لگے۔ سالگرہ کی مبارک باد دینا بھی عیسائیوں کے ہاں سے شروع ہوا۔ برصغیر میں انگریزوں کی آمد کے بعد ہندو اور مسلمانوں میں سالگرہ کا رواج شروع ہوا“۔

اسلامی تعلیمات اس طرح کی سالگرہ کی اجاذت نہیں دیتیں جس سے دین میں کسی نئی چیز کا اضافہ ہو۔ صحیح بخاری کی حدیث ہے ارشادِ نبوی ﷺ ہے کہ ”جس نے اس دین میں کوئی ایسی چیز ایجاد کی جو اس میں سے نہ ہو تو وہ مردود ہے“۔اس حدیث کی روشنی میں یہ سمجھنا مشکل نہیں کہ اسلام ہمیں بچوں کی ولادت یا آئندہ یوم ولادت کے موقع پر کسی بھی قسم کا اہتمام کرنے کا حکم نہیں دیتا۔گویا کوئی چیز بدعت اس وقت بنتی ہے جب اسے دین میں داخل کیا جائے اگر سالگرہ کا عمل دین میں نئی چیز کا داخل کرنا ہے تو یہ بدعت ہوگی۔ بعض علماء اس حوالے سے یہ رائے بھی رکھتے ہیں کہ سالگرہ کا عمل دینی نہیں بلکہ یہ دنیاوی عمل کے طور پر سر انجام دیا جاتا ہے اس لیے یہ عمل بدعت کے زمرے میں نہیں آتا۔ (25مارچ2017، جدہ، سعودی عربیہ)

Prof. Dr Rais Ahmed Samdani
About the Author: Prof. Dr Rais Ahmed Samdani Read More Articles by Prof. Dr Rais Ahmed Samdani: 865 Articles with 1437101 views Ph D from Hamdard University on Hakim Muhammad Said . First PhD on Hakim Muhammad Said. topic of thesis was “Role of Hakim Mohammad Said Shaheed in t.. View More