تحریر:۔ متین خالد لاہور
مجاہد ختم نبوت جناب عبیداﷲ لطیف کسی تعارف کے محتاج نہیں۔ وہ گذشتہ کئی
برسوں سے تحفظ ختم نبوت کے محاذ پر ایک بہادر اور ذمہ دار سپاہی کی طرح ڈٹے
ہوئے ہیں۔ یہ سعادت ہر کسی کے حصہ میں نہیں آتی بلکہ قدرت جن خوش نصیبوں پر
مہربان ہوتی ہے، وہی اس سے بہرہ مند ہوتے ہیں۔ یعنی یہ ’’ایں سعادت بزور
بازو نیست‘‘ والا معاملہ ہے۔
قادیانیت کے خلاف جناب عبیداﷲ لطیف کی نئی کتاب ’’ظل و بروز کی حقیقت‘‘ کا
مسودہ پڑھنے کا اتفاق ہوا۔ اس کتاب میں انہوں نے ظل و بزور کی بنیاد پر
جھوٹے مدعی نبوت آنجہانی مرزا قادیانی کے دعویٰ نبوت کا قرآن و حدیث کی
روشنی میں بے لاگ تجزیہ کر کے اسے بیچ چوراہے میں لاکھڑا کیا ہے۔ حقیقت یہ
ہے کہ آنجہانی مرزا قادیانی نے ظل و بزور کی آڑ میں توہین رسالت ﷺ کا
بدترین ارتکاب کیا ہے۔ اہل علم سے یہ بات پوشیدہ نہیں ہے کہ قادیانی مذہب
کی بنیاد حقائق کے بجائے بے جا تاویلات پر ہے تاکہ عوام الناس ان کی حقیقت
نہ جان سکیں۔ جہاں لد سے مراد لدھیانہ، کدعہ سے مراد قادیان، مسجد اقصیٰ سے
مراد قادیان کی مسجد، جہنم سے مراد طاعون، محدث سے مراد نبی، زرد کپڑے سے
مراد بیماری، مریم سے مراد مرزا قادیانی، ام المومنین سے مراد مرزا قادیانی
کی بیوی، صحابہ سے مراد مرزا قادیانی کے ساتھی، مرزا پر اترنے والی وحی سے
مراد قرآنی آیات، مرزا قادیانی کی باتوں سے مراد احادیث ہوں، وہاں آپ کیا
کر سکتے ہیں؟ ظل و بزور کی اصطلاحات ہندو مذہب میں پائی جاتی ہیں۔ وہ ایسے
باطل عقائد پر یقین رکھتے ہیں جبکہ ان اصطلاحات کا دین اسلام سے کوئی تعلق
نہیں۔ اس پر مجھے ایک لطیفہ یاد آ رہا ہے جو قادیانی موشگافیوں کی صحیح
ترجمانی کرتا ہے۔
’’ڈاکٹر نے پاگل خانے میں آنے والے نئے مریض کا معائنہ کیا۔ وہ مریض ڈاکٹر
صاحب کو صحت مند دکھائی دیا۔ ڈاکٹر ’’کیوں میاں کیسے پہنچے؟‘‘ مریض: دراصل
کچھ عرصہ قبل میں نے ایک بیوہ سے شادی کر لی۔ عورت کی ایک جواں سال بیٹی
بھی تھی۔ اتفاق سے وہ لڑکی میرے باپ کو پسند آ گئی۔ میرے باپ نے اس سے نکاح
کر لیا۔ یوں میری بیوی میرے باپکی ساس بن گئی۔ کچھ عرصہ بعد میرے باپ کے
گھر ایک بچی پیدا ہوئی۔ یہ رشتے میں میری بہن لگتی تھی کیونکہ میں اس کے
باپ کا بیٹا تھا۔ دوسری طرف وہ میری نواسی بھی لگتی تھی، کیونکہ میں اس کی
نانی کا خاوند تھا۔ گویا میں اپنی بہن کا نانا بن گیا۔ پھر کچھ مدت کے بعد
میرے گھر بیٹا پیدا ہوا، ایک طرف وہ لڑکی میرے بیٹے کی سوتیلی بہن لگتی تھی
کیونکہ وہ بچہ اس کی ماں کا بیٹا تھا۔ دوسری طرف وہ اس کی دادی بھی لگتی
تھی، کیونکہ وہ میری سوتیلی ماں تھی، چنانچہ میرا بیٹا اپنی دادی کا بھائی
بن گیا۔ مریض ’’ڈاکٹر صاحب، ذرا سوچیے میرا باپ میرا داماد ہے اور میں باپ
کا سسر ہوں۔ میری سوتیلی ماں میرے بیٹے کی بہن ہے اور یوں میرا بیٹا میرا
ماموں بن گیا اور میں اپنے بیٹے کا بھانجا۔ ڈاکٹر صاحب نے دونوں ہاتھوں سے
سر پکڑ لیا اور چیخ کر کہا ’’خاموش ہو جاؤ، ورنہ میں بھی پاگل ہو جاؤں گا۔‘‘
قادیانی ظل و بروز کی کہانی بھی اسی سے ملتی جلتی ہے۔
یہ کتاب نہایت دلچسپ اور علمی ہے۔ قادیانی کتابوں سے مستند حوالوں کی
موجودگی نے اس کتاب کے علمی مرتبہ کو دوچند کردیا ہے۔ تحفظ ختم نبوت کے
محاذ پر کام کرنے والے کارکنان کے لیے اس کا مطالعہ ناگزیر ہے۔ جناب عبید
اﷲ لطیف اس کتاب کی اشاعت پر نہایت مبارک باد کے مستحق ہیں۔ اﷲ تعالیٰ
انہیں جزائے عطا فرمائے۔ آمین# |