صحتِ املا کے اصول

یہ کتابچہ جامعات کے ایم اے، ایم فل اور پی ایچ ڈی کے تحقیقی مقالات میں صحتِ املا کے مسائل کو دور کرنے میں معاون ثابت ہوگا۔

مصنف: ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی
قیمت: ۸۰روپے صفحات: ۲۴
ناشر: ادارۂ یادگارِ غالب، ناظم آباد،کراچی
مبصر: صابرجمیل
معروف ماہر لسانیات، رشید حسن خان املا کی تعریف اس طرح بیان کرتے ہیں:
’’اردو کے رسم خط کے مطابق، لفظ میں حرفوں کی ترتیب کا تعین، ترتیب کے لحاظ سے اس لفظ میں شامل حرفوں کی صورت اور حرفوں کے جوڑ کا متعارف طریقہ، ان سب کے مجموعے کا نام اِملا ہے‘‘۔
آج جب کہ زمانہ بہت تیزی سے ترقی کررہا ہے اورآئے دن نت نئی ایجادات سامنے آرہی ہیں،ایسے ترقی یافتہ دورمیں زبان نے بھی مختلف شکلیں اختیار کرلی ہیں ۔اس جدید دور میں ہمارے صوتی اوربرقی ابلاغ سے وابستہ افراد اور اشاعتی ادارے بھی جس طرح اردو املا کے ساتھ نازیباسلوک رواں رکھے ہوئے ہیں ، وہ کسی سے ڈھکی چھپی بات نہیں۔ آج بڑے بڑے اینکر ’’پرخچے ‘‘کو’پر‘ ’خچے‘، بولتے نظر آتے ہیں۔املاکی اہمیت وافادیت کا اندازہ اس طرح کیا جاسکتا ہے کہ ہمارے سامنے موجود یہ ادارے مثال ہوتے ہیں، جنھیں سن کر یاپڑھ کر ہم اپنی اصلاح کرسکتے ہیں، مگر اب ان اداروں کا بھی یہ حال ہے کہ مستند اساتذہ سے تربیت کے بجائے اب اسکرپٹ بھی رومن رسم الخط میں لکھے جارہے ہیں، تو ایسی صورت حال میں تلفظ کا صحیح استعمال کیسے ممکن ہے؟
زیرنظرکتابچہ ۲۰۰۹ء میں لاہورسے ادارۂ مطبوعات سلیمانی سے شائع ہوچکا ہے۔غالب لائبریری نے ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی صاحب کی خصوصی اجازت سے اسے دوبارہ شائع کیا ہے۔ دراصل یہ کتابچہ جامعات کے ایم اے، ایم فل اور پی ایچ ڈی کے تحقیقی مقالات میں صحتِ املا کے مسائل کو دور کرنے میں معاون ثابت ہوگا۔کیوں کہ ڈاکٹر صاحب نے صحتِ املا کے چیدہ چیدہ اصول بتادیئے ہیں، جن کو بنیاد بناکر ایک طالب علم املا کے مسائل سے نجات حاصل کرسکتا ہے۔
ڈاکٹر رؤف پاریکھ معروضات میں لکھتے ہیں کہ:
’’اگرچہ اس میں بیان کیے گئے بعض اُصولوں سے ہمیں یا آپ کو اختلاف ہوسکتا ہے، لیکن بہرحال یہ ایک عالم اور محقق کے خیالات ہیں اور جہاں ان سے اتفاق ضروری نہیں وہاں ان سے بے دلیل یا بے سبب اختلاف بھی درست نہ ہوگا۔یہ کتابچہ اس خیال سے پیش ہے کہ اہلِ علم اس پر غور فرمائیں اور چونکہ اس میں بیان کیے گئے بیشتراصول مدلل اور قابل غوربلکہ قابل قبول ہیں، لہٰذا یہ طلبہ کے لیے بھی مفید ہے‘‘۔
ڈاکٹررفیع الدین ہاشمی نے اہل قلم اورتحقیقی مقالہ نویسوں سے گزارش کی ہے کہ اگر وہ ان اصولوں کو اختیار کرلیں گے تو اس سے اردو زبان کا بھی بھلا ہوگا اور تحقیقی مقالے کے صُوری حسن اور معیار میں بھی اضافہ ہوگا۔
چند اصول اور قاعدے ملاحظہ ہوں:
ان کو،آپ کے،کے لیے،جائے گا وغیرہ کو الگ الگ لکھنا چاہیے، خصوصاً مرکبات کو۔ اسی طرح انگریزی اور یورپی الفاظ کو بھی الگ الگ لکھا جائے تو ان کو پڑھنے میں آسانی ہوگی۔ مثلاً: کاپی رائٹ، پبلی کیشنز، یونی ورسٹی، ٹیلی فون ۔ مگر بعض الفاظ کو ملا کر ہی لکھا جائے گا ، جیسے: کانفرنس، پارلیمنٹ، میونسپلٹی وغیرہ۔
بعض الفاظ کا املا بالعموم غلط لکھا جاتا ہے، جیسے : پرواہ ، موقعہ، لاپرواہی، عقاید وغیرہ۔ ہمیں ان کو پروا، موقع، لاپروائی، عقائد وغیرہ لکھنا چاہیے۔
بعض انگریزی الفاظ، اب اردومیں رائج ہوچکے ہیں ، لہٰذا اس کی جمع اردو قاعدے کے مطابق کی جائے نہ کہ انگریزی کے مطابق لکھی جائے۔ مثلاً :اسکول کی جمع اسکولوں ہوگی نہ کہ اسکولز، اسی طرح یونی ورسٹی کی جمع یونی ورسٹیوں ہوگی نہ کہ یونی ورسٹیز۔
اس بات کا خیال بھی رکھا جائے کہ اسکول، کالج، پروگرام، ہسپتال اور جج واحد ہیں مگر اردو میں جمع کے معنوں میں بھی استعمال ہوتے ہیں، جیسے دس اسکول کھول گئے، یاتین جج مقرر ہوگئے۔
درجِ بالا چند مثالیں یہاں پر اس لیے دی گئی ہیں کہ قاری کو اس کتابچے کی اہمیت کا اندازہ ہوسکے۔مختصروقت میں املا کے اصول پر ایک جامع کتاب سے استفادہ کرکے یقینی طور پر املا کے مسائل سے بچا جاسکتا ہے۔

صابر جمیل
About the Author: صابر جمیل Read More Articles by صابر جمیل: 34 Articles with 86759 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.