کیا واقعی اسٹیٹ لائف کارپوریشن سفید ہاتھی بن گئی ہے ؟

آڈیٹر جنرل آف پاکستان نے سٹیٹ لائف انشورنس کارپوریشن کو سفید ہاتھی قرار دیتے ہوئے اربوں روپے کی خورد برد کا خدشہ ظاہر کیا ہے ۔آڈیٹر جنرل کے مطابق اس ادارے نے مالیاتی شفافیت یقینی بنانے اور پالیسی ہولڈرز کے حقوق کے تحفظ کے لیے جاری کی جانے والی سیکورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن کی ہدایات کی دھجیاں بکھیر دیں ۔ باربار تنبیہ کے باوجود لاوارث پالیسیاں کی تفصیل ویب سائٹ پر جاری نہیں کیں ۔ایسی پالیسیوں کی تعداد ہزاروں میں ہے جبکہ رقم منافع سمیت اربوں روپے میں پہنچ چکی ہے ۔دوسری جانب وفاقی انشورنس محتسب کو انشورنس کمپنیوں کے حوالے سے موصول ہونے والی شکایتوں میں سے زیادہ تر اسٹیٹ لائف کے بارے میں تھی جس کے پاس بیمہ انڈسٹریز کے 60 فیصد شیئر ہیں ۔جن لوگوں کا واسطہ اسٹیٹ لائف انشورنس کارپوریشن سے کبھی نہیں پڑا وہ شاید اس خبر کو جھوٹ سمجھ رہے ہوں لیکن جن لوگوں نے غلطی سے یا اپنے معاشی مستقبل کو روشن بنانے کے لیے پالیسی کروا لی ۔ان سے اس ادارے کی کارکردگی کے بارے میں سوال کیاجاسکتا ہے ۔ چونکہ میں بھی ایک پالیسی ہولڈر ہوں اس لیے اس ادارے کے بارے میں آڈیٹر جنرل نے جو بات کہی ہے وہ سو فیصد درست ہے ۔ سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ اس ادارے میں ملازمت دینے سے پہلے کسی کا کردار ، رویہ اور تعلیمی ریکارڈ چیک نہیں کیاجاتا۔ تھوک کے حساب سے ہر گلی محلے میں چوتھی پانچویں پاس لوگ بھی اس ادارے کا نام لے کر بورڈ لگا کر لوگوں کو پھانسنے کے لیے خود ساختہ اعداد و شمار کا سہارا لیتے ہیں ۔جس کا نہ سر ہوتا ہے اور نہ ہی ۔ پھر یہ لوگ پالیسی حاصل کرنے سے پہلے جتنی شفقت ، محبت اور رشتہ داری دکھاتے ہیں اتنی ہی بے اعتنائی پالیسی خریدنے ان کے رویے میں نظر آتی ہے ۔تیسری انوکھی بات یہ ہے کہ سالانہ پریمیم کی قسط لاہور میں صرف لٹن روڈ پر واقع ہیڈآفس کے ایک کاؤنٹر پر ہی جمع کرواجاسکتی ہے ۔

پالیسی ہولڈر مصروفیت کی وجہ سے خودپریمیم جمع کروا نے کی بجائے زیادہ تر لوگ اپنا پریمم ان ایجنٹوں کو دے دیتے ہیں جنہوں نے ان کی پالیسی کی ہوتی ہے ۔ بیشتر سیلز آفیسر اپنی پرنٹ شدہ رسیدیں پالیسی ہولڈر کو پریمیم کی رقم وصول کر نے کے بعد جاری کردیتے ہیں اور ہیڈآفس میں وہ رقم جمع نہیں کرواتے۔پالیسی ہولڈرکو اطمینان ہوتاہے کہ میری پالیسی اپ ٹو ڈیٹ ہے اور مجھے انشورنس کا معاشی تحفظ حاصل ہے۔لیکن حقیقت میں ایسانہیں ہوتا ۔اگر کوئی پالیسی ہولڈر غلطی سے ہیڈآفس جاکر اپنی پالیسی سٹیٹس دیکھتا ہے تو اس کو دن میں تارے نظر آنے لگتے ہیں ۔کہ پریمیم جمع نہ ہونے کی وجہ سے پالیسی اور معاشی تحفظ دونوں ختم ہوچکے ہیں ۔اب پچھتائے کیا ہو جب چڑیاں جگ گئی کھیت ۔اکثر پالیسی ہولڈر کے ساتھ ایسا ہی ہوتا ہے ۔یہ نہیں کہا جاسکتا کہ اسٹیٹ لائف میں سب لوگ ایسے ہی ہیں لیکن سب فرشتے بھی نہیں اور گندی مچھلیاں بھی موجود ہیں ۔ چند دن پہلے میں اپنی پالیسی کا سالانہ پریمیم جمع کروانے کے لیے ہیڈآفس گیا تو وہاں ننکانہ کے چند افراد نے آسمان سر پر اٹھا رکھا تھا ۔استفسار پر معلوم ہوا کہ جس شخص نے انکی انشورنس کی تھی وہ پریمیم کے پیسے تو ہر سال وصول کرکے جمع کروانے کی بجائے اپنی جیب میں ڈالتا رہا اور اپنی پرنٹ شدہ رسیدیں کلائنٹس کو دیتا رہا ۔ گویا ڈیڑھ لاکھ روپے کا نقصان پالیسی ہولڈرز کو برداشت کرنا پڑا ۔ ایسا ہی ایک واقعہ میرے ساتھ بھی ہوچکا ہے ۔اسٹیٹ لائف کارپوریشن کا ایک سیلز آفیسر کسی دوست کے توسط سے مجھ تک پہنچا اورکہنے لگا مجھے اپنا ٹارگٹ مکمل کرنا ہے از راہ کرم مجھے چنددوستوں کا ریفرنس دیں جو مجھ سے یقینی طور پر پالیسی خرید لیں۔میں نے اپنے عزیز و اقارب سے کہہ کر اسے تین چار پالیساں دلوا دیں ۔ اعتماد کرتے ہوئے میں اسی سیلز آفیسر کو چند سال تک پریمیم دیتا رہا ۔ حسن اتفاق سے ان میں سے ایک پالیسی ہولڈر کو قرض کی ضرورت پڑگئی تو اس نے ہیڈآفس رابطہ کیا جہاں اسے بتایا گیا کہ آپ کی پالیسی پریمیم جمع نہ ہونے کی بنا پر ختم ہوچکی ہے ۔ یہ خبر سن کر لال پیلا ہوکر مجھ تک پہنچا تو میرے بھی ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے ۔میں نے متعلقہ سیلز آفیسر سے رابطہ کیا تو پتہ چلا کہ وہ دفتر ہی چھوڑ کر جاچکاہے۔اسٹیٹ لائف کارپوریشن ہیڈ آفس سے رجوع کیا تو وہاں سے بھی وہ مستعفی ہوکر جاچکا تھا ۔ فراڈ سے وصول کی جانے والی رقم ایک لاکھ روپے تک پہنچ چکی تھی ۔ نہ تھانے جاسکے اور نہ عدالت ۔کیونکہ یہ دونوں راستے ہی وقت اور مزید پیسوں کا ضیاع تھے اس لیے صبرو شکر کرکے وہ نقصان مجھے بھرنا پڑا ۔اسی بات کا نتیجہ ہے کہ میں خود اپنی پالیسی کا پریمیم جمع کروانے کے لیے لٹن روڈ پر واقع ہیڈ آفس جاپہنچا جہاں درجنوں کے حساب سے لوگ قطار میں کھڑے نظر آئے ۔وہاں ایک نہیں دو دن مسلسل مجھے جانا پڑا پھر ایک شریف آفیسر کی مدد حاصل کی تب کہیں جاکر پریمیم کی قسط جمع ہوئی ۔ افسوس تو اس بات کا ہے کہ اسٹیٹ لائف کارپوریشن کسی کی ساکھ اور کردار دیکھے بغیر ہر ایرے غیرے کو بھرتی کر لیتے ہیں انہیں کوئی غرض نہیں ہوتی کہ وہ کتنے لوگوں سے دھوکہ کررہا ہے اور کتنے لوگوں کے پیسے اپنی جیب میں ڈال رہا ہے انہیں تو صرف زیادہ سے زیادہ پریمیم چاہیئے۔ اسٹیٹ لائف انشورنس کارپوریشن مالیاتی ادارہ ہے ۔ بے شمار پالیسی ہولڈر کا معاشی مستقبل اس ادارے سے وابستہ ہے اگر بنک ملازمت دینے سے پہلے پچاس ہزار روپے کی ضمانت اسٹامپ پیپر پر مانگتا ہے اور کردار کے حوالے سے بھی دومعتبر شخصیات کا سرٹیفیکٹ طلب کرتا ہے تو اسٹیٹ لائف کارپوریشن ایسا کیوں نہیں کرتی ۔ جب ایجنٹ پالیسی مانگنے کے لیے آتے ہیں تو ان کی خوش اخلاقی مدتوں یاد رہتی ہے لیکن جب پالیسی ہولڈر کو ان کی ضرورت پڑتی ہے تو وہ سر پر پاؤں رکھ کر ایسے غیب ہوتے ہیں کہ پھر نظر نہیں آتے ۔ایک اور افسوس ناک بات یہ ہے سٹیٹ لائف کارپوریشن کا سسٹم آج بھی 18 ویں صدی جیسا ہے ۔فائلوں کے انبار میں تھک ماندے لوگ بیٹھے پالیسی ہولڈر کو منہ چڑاتے نظر آتے ہیں۔اس پر ظلم یہ کہ پریمیم جمع کروانے کاطریقہ بھی صدیوں پرانا ہے ۔ اس وقت اگر یوٹیلٹی بلز تمام بنکوں کی تمام برانچوں ، حتی کہ ڈاکخانوں میں بھی جمع ہورہے ہیں تو کیا وجہ ہے کہ اسٹیٹ لائف کارپوریشن کے پریمیم بنک وصول نہ کرسکتے ۔اس مقصد کے لیے اسٹیٹ لائف کو اپنا Collection Account تمام بنکوں میں کھلو انا ہوگا ۔اس طرح ہر شخص اپنا پریمیم آسانی سے جمع کرواسکے گااور ایجنٹ کی محتاجی ختم ہوجائے گی۔ بجلی گیس پانی کے محکموں کی طرح اسٹیٹ لائف کارپوریشن کو بھی اپنے کلائنٹس کو پریمیم کے بل بھجوانے ہوں گے ۔آجکل بینکنگ اس قدر تیز رفتار ہوچکی ہے اگر دوسرے شہر میں بھی کسی کو پیسے بھجوانے ہیں تو اس کے اکاؤنٹ میں پیسے جمع ہوتے ہی اکاؤنٹ ہولڈر کو ایس ایم ایس کے ذریعے پتہ چل جاتاہے ، وہ پیسوں کی وصولی کی اطلاع پیسے جمع کروانے والے کو شکریہ کاایس ایم ایس کر کے خود دیتا ہے ۔پاکستان میں بینکنگ کا شعبہ تو جدید ترین خطوط پر استوار ہوچکاہے لیکن اسٹیٹ لائف انشورنس کارپوریشن ابھی تک صدیوں پرانے سسٹم پر ہی رینگ رہی ہے۔ جس سے فراڈ ، دھوکہ بازی اور لوٹ مار کے نئے سے نئے راستے کھل رہے ہیں۔ مزید برآں پالیسی ہولڈر کو جو کاغذات دیئے جاتے ہیں اس میں کہیں درج نہیں ہوتا کہ 20 سال بعد کتنے لاکھ روپے ملیں گے اور پالیسی ہولڈر کو مزید کیا سہولتیں اور تحفظات حاصل ہونگے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ کرپٹ ، بددیانت اور بدکردار لوگوں کو ادارے سے دور رکھاجائے اور نمائندگی دینے سے پہلے وہی طریقہ اختیار کیاجائے جو بنک ملازمت دیتے وقت اختیار کرتے ہیں ۔پالیسی ہولڈر کی ڈیڈ پر تمام فوائد کے ساتھ ساتھ 20 سال بعد ملنے والی اندازا رقم کا اندراج بھی ضرور ہونا چاہیئے ۔جبکہ پریمیم صرف ہیڈ آفس میں جمع ہونے کی بجائے یوٹیلٹی بلز کی طرح تمام بنکوں میں جمع کروانے کی سہولت بھی فراہم کی جائے ۔اگر ایسا ہوگیا تو فراڈ کو روکنے کے ساتھ ساتھ پالیسی ہولڈر کا تحفظ بھی یقینی طور پر ہوسکے گا اور اسٹیٹ لائف انشورنس کو اس سے کئی گنازیادہ پریمیم مل سکتا ہے۔
 

Aslam Lodhi
About the Author: Aslam Lodhi Read More Articles by Aslam Lodhi: 781 Articles with 660118 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.