گستاخانہ مواد کی روک تھام
(Prof Jamil Chohdury, Lahore)
اﷲ بھلا کرے وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان کا۔وہ
گستاخانہ مواد کی روک تھام کے لئے کمر بستہ ہوگئے ہیں۔ان کا یہ فقرہ تو اب
زبان زد عام ہے۔" سوشل میڈیا بند کرنا پڑے تو کردیں گے مگر دین کی حرمت پر
آنچ نہیں آنے دیں گے"حکومتی ارکان میں سے کسی کی تو غیرت جاگی ہے۔انکے
اقدامات قومی اور بین الاقوامی دونوں سطح پر ہوتے نظر آرہے ہیں۔ملکی سطح پر
ڈائریکٹر ایف۔آئی۔اے مظہر الحق کاکا خیل کی سربراہی میں7۔رکنی تحقیقاتی ٹیم
بن چکی ہے۔یہ ٹیم ملک کے اندر گستاخانہ موادUploadکرنے والوں کا پتہ لگائے
گی۔اور قانون کے مطابق جرم کرنے والوں کو سزا دلوائے گی۔ایف۔آئی۔اے
نے3۔گرفتار شدہ ملزموں کا انسداد دہشت گردی کی عدالت سے7روزی جسمانی ریمانڈ
حاصل کرلیا ہے۔ایف۔آئی۔اے میں اب سائبر کرائم کا شعبہ کافی متحرک ہے۔اسلام
آباد میں وزارت داخلہ کے تحت 26۔ممالک کے سفیروں کا اجلاس بھی بڑا اہم
ہے۔اجلاس صرف ایک نقطے گستاخانہ مواد کی روک تھام پرہی تھا۔اجلاس کی
سنجیدگی کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس میں وزارت داخلہ کے سینئر
افسران کے ساتھ ساتھ وزارت خارجہ کے افسران بھی شریک تھے۔اجلاس میں فیصلہ
کیاگیا کہ اس مسٔلہ پر سیکرٹری جنرل عرب لیگ اور سیکرٹری جنرل او۔آئی۔سی کو
اعتماد میں لیاجائے۔دونوں اداروں کی طرف سے مسٔلہ اقوام متحدہ میں اٹھایا
جائے۔اقوام متحدہ کو بتایا جائے کہ کسی بھی مذہب کی مقدس ہستیوں کی شان میں
گستاخی اور مذہبی عقائد کو مسخ کرنا ناقابل برداشت ہوتا ہے۔اقوام متحدہ اسے
عالمی سطح پر تسلیم کروائے۔یہ بھی طے کیاگیا کہ مسلم امہ بین الاقوامی
برادری کو اسلام فوبیا سے نکالنے کے لئے متحد ہوکر جدوجہد کرے۔صحافیوں کو
بتایا گیا کہ وزارت داخلہ ایک پیپر تیار کریگی اور مسلم ممالک کے سفیروں کو
ارسال کریگی۔پیپر میں اس مسٔلہ کے تمام پہلؤں کا جائزہ لیاجائے گا۔سفیر
اپنی اپنی حکومتوں کو اعتماد میں لیکر آئندہ کا لائحہ عمل تیارکریں
گے۔گستاخانہ مواد کی اشاعت اب عالمی سطح پر سوشل میڈیا کی مختلف کمپنیوں کی
طرف سے ہورہی ہے۔اسے رکوانے کے لئے بھی قومی اور بین الاقوامی سطح کی ماثر
کوششوں کی ضرورت ہے۔فیس بک جیسی بڑی کمپنیاں ایک ملک پاکستان کی رائے کو
احترام دینے کے لئے تیار نہ ہیں۔لہذا کوشش بھی مسلم ممالک کی سطح پر یا
عالمی سطح پر ہی ماثر ہوسکتی ہے۔وزیر داخلہ کے مطابق مسٔلہ صرف اسلام اور
اسکی مقدس ہستیوں کا ہی نہیں۔بلکہ تمام مذاہب کی مقدس ہستیاں کے بارے عالمی
قانون سازی کی ضرورت ہے۔ایسی قانون سازی جس پر اقوام متحدہ اور دوسرے عالمی
ادارے عمل درآمد بھی کرائیں۔مسلمان تو عیسائیوں اور یہودیوں کے مذاہب سے
متعلقہ ہستیوں کے بارے کچھ بھی نہیں کہہ سکتے۔ان مذاہب کے انبیاء بھی
مسلمانوں کے لئے مقدس ہیں۔انٹرنیٹ نے جہاں بے شمار مثبت معلومات
کو2۔انگلیوں کے درمیان پہنچا دیا ہے۔وہیں منفی ذہن رکھنے والا مغرب اسلام
اور محمد عربیﷺ کی ذات پر کیچٹر اچھالنے کے لئے بھی اسی ذریعے کو استعمال
کررہا ہے۔انٹرنیٹ سے پہلے بھی مغرب ایسے کام کرتا رہتا تھا۔لیکن تب قلم ،کتاب
اور رسائل استعمال ہوتے تھے۔انکی پہنچ کم تھی۔لیکن اتو سوشل میڈیا کے ذریعے
بہت تیزی سے یہ کام ہورہا ہے۔بات تحریر سے آگے بڑھ کر خاکوں،فوٹوز،ویڈیوز
اور فلموں تک پہنچ گئی ہے۔ویڈیوز کے Viralہونے میں چند سیکنڈ ہی تولگتے
ہیں۔اس طرح گستاخانہ مواد اب پوری دنیا میں بہت تیزی سے پھیل رہا ہے۔مغرب
والوں نے اسلام کا راستہ روکنے کے لئے جو طریقہ اپنایا ہے وہ محمد عربیﷺ کی
ذات کو بے اعتبار کرنے کا ہے۔ان کے نزدیک اس کام کے کرنے سے اسلام پر
اعتبار اور وقار بھی ختم ہوجائے گا۔مغربی مفکرین کے نزدیک تیزی سے پھیلتے
ہوئے اسلام کا راستہ روکنے کا یہی طریقہ ہے۔ کہ محمد عربیﷺ کی ذات کو بے
توقیر کیاجائے ۔چندسال پہلے ڈنمارک سے چھپنے والے رسالہ میں بھی یہی
گھناؤنی حرکت کی گئی تھی۔ڈنمارک کی بہت سی کمپنیوں کے بائیکاٹ کے بعد تھوڑے
عرصہ کے لئے یہ گھناؤنا کام رک گیاتھا۔لیکن اب سوشل میڈیا کے مختلف شعبے
جیسے فیس بک اور ٹوئیٹر وغیرہ کو استعمال کیاجارہا ہے۔اب مغرب سے بے شمار
غلیظ مواد Uploadکیاجارہا ہے۔دنیا میں تیزی سے پھیل رہا ہے۔یہ ایک بڑی سازش
ہے۔اسے رکوانے کے لئے بڑی سطح کی کوششیں ہونی ضروری ہیں۔ہمارے لئے اسلام کے
احکامات وہدایات معلوم کرنے کا ذریعہ صرف اور صرف محمد عربیﷺ کی عظیم شخصیت
ہے۔مغرب نے سوچ سمجھ کر انہی کی ذات کو نشانہ بنایا ہے۔دنیا کو یہ علم ہے
کہ قرآن جیسی عظیم کتاب محمد عربیﷺ پر ناز ہوئی۔اس کتاب کی مکمل وضاحت نبی
اکرمﷺ نے اپنی23۔سالہ نبوی زندگی میں کردی۔اسلام کے تمام احکامات،قوانین
وہدایات کا منبع اول و آخر نبی اکرمﷺ کی ذات مقدس ہے۔اقبال نے اسی بات کو
اپنے خوبصورت پیرائے میں بیان کیا ہے۔
بمصطفےٰ برساں خویش را کہ دین ہمہ اوست
اگر بہ او نہ رسیدی تمام بولہبی است
اسلام کی تمام تفصیلات ہمیں محمد عربیﷺ کی ذات سے حاصل ہوئی ہیں۔مغرب نے
گستاخانہ مواد شائع کرنے کی سازش بہت سوچ سمجھ کر تیار کی ہے۔انکے مطابق
مسلمانوں کے نبی کو بے توقیر کردو۔اسلام پر اعتبار خود بخود ہی ختم ہوجائے
گا۔پاکستان کی حکومت نے اپنے طورپر فیس بک جیسی بڑی کمپنی کو یہ مواد روکنے
کا کہہ کر دیکھ لیا ہے۔فیس بک کے بانی اور مالک پر اس کا کوئی اثر نہیں
ہوا۔تمام مسلم ممالک متحد ہوکر جب بات کریں گے تو اس میں وزن ہوگا۔اس سے
بھی آگے بڑھ کر اقوام متحدہ کا پلیٹ فارم ماثر طریقے سے استعمال ہوسکتا
ہے۔جب مسلمانوں کے اپنے ادارے عرب لیگ اور او۔آئی۔سی آواز بلند کریں گے اور
فیس بک جیسے اداروں کے بائیکاٹ کی دھمکی دیں گے تو مادیت میں ڈوبے مغربی
لوگوں کو ہوش آجائے گا۔کچھ لکھنے والے یہ ارشاد فرمارہے ہیں کہ ایسے اشاعتی
مواد کا دلیل سے جواب دیاجائے۔بھلا غلیظ مواد کے جواب میں عقلی دلائل کیسے
ہوسکتے ہیں۔با ت کسی ایک دن ،سال یاکمپنی کی نہیں ۔یہ کام توہروقت اور
ہرکمپنی پر ہورہا ہے۔اس کی روک تھام اجتماعی سیاسی قوت سے ہی ہوسکتی
ہے۔وزیر داخلہ چودھری نثارعلی خان نے بات کو ماثر طورپر اٹھایا ہے۔امید ہے
کہ وہ بات منوانے میں کامیاب رہیں گے۔انہیں چاہئے کہ وہ پارلیمنٹ اور
وزیراعظم صاحب کو بھی اعتماد میں لیں۔یہ ملک صرف پاکستان نہیں بلکہ اسلامی
جمہوری پاکستان ہے۔
|
|