میرے ایک دوست نے مجھے ایک واقعہ سنایا ۔ کہا کہ میرا ایک
دوست جوکینیڈا میں پڑھنے گیا تھا ،وہاں ایک لڑکی اس سے محبت کرنے لگی یہ
بھی ٹائم پاس کیا کرتا تھا پڑھائی مکمل کرنے کے بعد جب میرا دوست پاکستان
آنے لگا تو اس لڑکی نے میرے دوست سے کہا کہ مجھ سے شادی کرلو ،میرے دوست نے
کہا آپ الگ مذہب سے ہو اور میں الگ ،میں مسلمان ہوں اور تم عیسٰی اس لئے
ہماری شادی نہیں ہو سکتی ہے ،میں ابھی پاکستان جارہاہوں اور چند ماہ بعد
واپس آؤنگا پھر اس موضع پر بات کرینگے ، یہ کہہ کر میرا دوست پاکستان آگیا
،چند ماہ بعد نوکری کی غرض سے دوبارہ کینیڈا گیا تو ائیرپورٹ پر اس ہی لڑکی
نے ریسیو کیا تو میرا دوست کیا دیکھتا ہے کہ اس انگریز لڑکی نے شلوار قمیض
پہنی ہوئی تھی اور سر پر دوپٹہ اوڑھاہواتھا مجھ سے کہنے لگی کہ میں مسلمان
ہوگئی ہوں ،یہ سن کر میں بہت خوش ہوگیا کہ چلو مجھے نوکری کے ساتھ بیوی بھی
مل گئی ،اور وہاں سے ہم دونوں اس کے گھر پر آگئے ، گھر پہنچنے کے بعد جب
میرے دوست نے اس لڑکی سے کہا کہ نماز کا وقت ہوگیا ہے نماز پڑھتے ہیں اور
میرا دوست وضو کرنے واش روم چلاگیا ،ابھی میرا دوست واش روم میں ہی تھا کہ
میوزک کی آواز آنے لگی میرے دوست نے جلدی جلدی وضو کیا اور باہر آگیا تو
دیکھا اس لڑکی نے ایک عجیب قسم کا میوزک لگایا ہوا تھا اور اس میوزک کے
ساتھ آہستہ آہستہ جھول رہی تھی جس طرح قوالی سننے والے جھولتے ہیں ، میرے
دوست نے آوز دی یہ کیا ہے؟ جس پر جواب آیا کہ عبادت ، میرے دوست نے کہا یہ
کیسی عبادت ہے، یہ تو ہم مسلمانوں میں نہیں یہ تم نے کونسا مذہب اپنا لیا
اور کس کے پاس گئی تھی تم ؟ جس پر لڑکی نے جواب دیا کہ میں نے انٹر نیٹ پر
ریسرچ کیا تھا تو مجھے ایک شخص نے اسلام کے بارے میں معلومات دی تھیں، جب
میرے دوست نے اس شخص کے بارے میں معلومات کی تو وہ شخص آغاخانی نکلا ، یہ
تو تھی ایک غیر مسلم لڑکی اور ایک غیر اسلامی ملک کی شہری ، لیکن آج کل
پاکستان میں ایسے واقعات کا ہونا ایک عام سی بات ہے ۔اس کے علاوہ آج کے نئے
جینر یشن میں دین کو حاصل کرنے اور اسکو سیکھنے سمجھنے کی طلب کم ہونے لگی
بلکہ میں یو کہوں تو میں غلط نہیں ہوں گا کہ دین کی سمجھ ہی ختم ہو گئی ہے
،آج کل لوگ علمائے دین سے کم انٹرنیٹ فیس بک اور شیخ گو گل سے دین سیکھنے
کی زیادہ کوشش کرتے ہیں اور یہی انکی گمراہی اور بربادی کا سبب بنتا جارہا
ہے۔ اگر کسی شخص کی طبیعت خراب ہوجائے توکیا وہ موچی کے پاس جاکر اپنا علاج
کرائیگا؟ یا خود ہی کتابیں دیکھ کر دوائی لے لیتا ہے؟نہیں بلکل نہیں! بلکہ
وہ کسی ماہر ایم بی بی ایس ڈاکٹر سے صلاح ومشورہ کرتا ہے اور اس کے بعد وہ
ڈاکٹر اس کو دوائی لکھ کر دیتا ہے اور پھر وہ شخص دوائی لے لیتاہے۔ اگر کسی
کہ گھر میں فریج یا ٹی وی یا دیگر الیکٹرونک سامان خراب ہوجائے تو وہ اس کو
ترکان کی دوکان پر تو نہیں لیکر جاتا بلکہ وہ تو سیدھے اس دوکان پر جاتا ہے
جہاں اس کی مرمت کا کام کیا جاتا ہے ۔ مگر دین اسلام کا معاملہ آجائے تو اس
کیلئے عالم کے بجائے دیگر لوگوں کے پاس جانے لگ جاتے ہیں، کیا ہمارا دین
اسلام اتنا سستا ہوگیا ہے کہ ہم اسے کسی بھی عام انسان سے یاانٹر نیٹ سے
سیکھنے کی اور خود مطالعہ کرکے بنا صحیح انداز میں سمجھنے کے عمل کرنے کی
کوشش کرتے ہیں! بلکہ میں یہ نہیں کہتاکہ انٹرنیٹ میں صرف برائیاں ہیں اور
گمراہ کن موادہیں ،بلکہ اس سے تو ہمیں بہت سارے علمائے حق کے بیانات اور
علمائے حق کے اسلامی مضامین اور دین اسلام سے متعلق بہت سارا مواد حاصل
ہوتا ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ بہت سی ویب سائیڈوں پر گمراہ عقائد رکھنے
والے مواد بھی کثرت سے پائے جاتے ہیں ،یہ بات بھی صحیح ہے کہ کچھ علماء کا
کردار بھی مشکوک ہے مگر ان کو ہم عالم دین نہیں کہہ سکتے وہ صرف معلم ہیں
یعنی دین کے بارے میں ان کو معلومات ہے ، ایسے معلموں کی تعدادبہت تھوڑی سی
ہے ۔ اس فتنہ پرست دور میں ایسے معلموں کو فتنے کے لیئے آگے کیا جاتا ہے ،جس
کی وجہ سے صحیح عالم دین بھی بدنام ہوجا تے ہیں ۔ اس لیئے ہمیں خوب سنبھل
کر آگے پیچھے دیکھ کر چلنا ہوگا کیوں کہ آج کے دورمیں بہت سے لوگ عربی لباس
پہن کر علماء حق کی صورت اختیار کرکے اور قرآن وحدیث کا نام لیکر کھلے عام
لوگوں کو گمراہ کرتے ہیں ۔ ان میں ایک نام جاوید غامدی کا بھی ہے جس کو
پرویز مشرف کے دور میں لاؤنچ کیا گیا تھا ،جاوید غامدی جیسے لوگ امت میں
خواہ مخواہ کا اختلاف وانتشار پیدا کرتے ہیں۔اسلئے ہمیں چاہیئے کہ معتبر
علمائے حق سے تعلق رکھیں جنہوں نے باقاعدہ مدارس میں رہ کر تعلیم حاصل کی
ہو اور اپنی زندگی قرآن وحدیث کے سیکھنے میں صرف کی ہو۔قرآن مجید میں اﷲ
تعالیٰ فرماتے ہیں‘‘اور اگر تمہیں نہیں معلوم تو اہل علم (علمائے حق ) سے
پوچھ لیا کرو’’(سورۃ نحل، آیت 43)اور خود سے دین سمجھنے کی کوشش نہ کریں
بلکہ علمائے حق کی رہبری میں قرآن وحدیث کو پڑھ کر دین سمجھیں، اگر خود ہی
دین سمجھنے کی کوشش کرو گے تو ایسا ہی حال ہوگا جیسے کینیڈین لڑکی کا حال
ہواتھا ،یا اگر خود سے ہی دین سمجھ میں آتا تو اﷲ پاک نبیوں کو نہ بھیجتے
اور نہ ہی رسول اﷲ ﷺ کو دنیا میں بھیجا جا تا بلکہ قران شریف کو بیت اﷲ
شریف کی چھت پر اتار کر اﷲ اہل عرب سے کہتے کہ یہ لو قرآن اور پڑھ کر سمجھ
لو اورقرآن شریف بھی عربی میں ہے اور اہل عرب بھی عربی کو سمجھتے ہیں ، مگر
رسول اﷲ ﷺ کو دنیا میں بھیج کر اﷲ نے بتا دیا کہ قرآن کو اگر سمجھنا ہے تو
رسول اﷲ ﷺکی تعلیمات کو سمجھنا ہو گا تب ہی قرآن سمجھ میں آئیگا، ابوبکر ؓ
،عمر ؓ،عثمانؓاور علیؓ نے رسول اﷲ ﷺ کی تعلیمات کو سمجھا تو ان کی سمجھ میں
قر آن آیا ،ابوجہل ،شیبااورابو لہب نے رسول اﷲ ﷺ کی تعلیمات کو نہیں سمجھا
تو ان کی سمجھ میں کچھ نہیں آیا ۔ہمیں چایئے کہ ہم علماء کی قدر کریں ان سے
رابطہ میں رہ کر اور ان سے پوچھ پوچھ کردین پر عمل کریں اور اپنے مذہبِ
اسلام کو مکمل طور پر سیکھیں ،سمجھیں اور پورے عالم تک پہنچانے کا زریعہ
بنیں ۔ اﷲ تعالی تمام مسلمانوں کو صراطِ مستقیم پر چلنے اور علمائے حق کی
قدر کرنے والا بنائے اور صحیح عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔(آمین ) |