پاک بھارت آبی جنگ ۔۔۔2

دریائے چناب اور جہلم پر بھارتی ڈیم اور بجلی گھروں کی تعمیر کے لئے زیر زمین بارودی سرنگوں کے تباہ کن دھماکے کئے گئے۔اس کے بعد سے خطے میں سیکڑوں زلزلہ کے جھٹکے آئے۔ رواں ماہ بھی وادی چناب اور پیر پنچال کا خطہ زلزلوں سے کئی بار لرز اٹھا۔ 2013میں یہاں زلزلے کی وجہ سے 70شہری جاں بحق اور سیکڑوں زخمی ہوئے۔ سیکڑوں تعمیرات کو نقصان پہنچا۔یہاں ہمالیہ کا سلسلہ ہے۔ امریکی اوریگن سٹیٹ یونیورسٹی کے سائنسدانوں نے ایک مطالعہ میں خدشہ ظاہر کیا ہے کہہمالیہ میں زلزلے سے 10لاکھ افراد ہلاک ہو سکتے ہیں۔ بھارت حقائق کو چھپانے کے لئے فرضی ریسرچ کرارہا ہے۔ اس ریسرچ میں ظاہر کیا گیا کہ زلزلے کے سیکٹروں جھٹکے ڈیموں اور بجلی گھروں کی تعمیر کا شاخسانہ نہیں۔ لیکن سچ یہ ہے کہ بھارت نے ڈوڈہ، بھدرواہ اور کشتواڑ ہی نہیں بلکہ پورے خطے میں لاکھوں انسانوں کی زندگیوں کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔ بھارتی پالیسی کے خلاف کوئی آواز بلند نہیں ہو رہی ہے۔

بھارت نے جموں و کشمیر سے پاکستان بہنے والے دریاؤں کا رخ موڑ دیا یا ان پر ڈیم اور بیراج تعمیر کرنے کا سلسلہ جاری رکھا تو پاکستان پانی کو بوند بوند کو ترس جائے گا۔ پنجاب بنجر ہو جائے گا۔ جو پورے ملک کو اناج، سبزیاں ، میوہ جات سپلائی کرتا ہے۔ کشمیر کا پانی روکنے کے لئے بھارت کشمیریوں کا خون بہا رہا ہے۔ کشمیریوں کا لہو جہلم اور نیلم ہی نہیں چناب اور توی میں بہہ رہا ہے۔ بھارتی ڈیموں اور بجلی گھروں کی تعمیر سے ماحولیات پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ جنگلی حیات بھی متاثر ہو رہی ہے۔ اس کے کئی پہلو ایسے ہیں جنھیں پاک بھارت مذاکرات میں زیر بحث نہیں لایا جاتا۔ وادی چناب زلزلہ زدہ ہی نہیں بلکہ یہاں کثرت سے سیلاب آتے ہیں اور لینڈ سلائیڈنگ ہوتی ہے۔ بھارت نے دنیا کو بہلانے کے لئے نام نہاد کمیٹیاں تشکیل دی ہیں جو فوری طور پر تکنیکی منظوری دینے میں دیر نہیں لگاتیں۔ بی جے پی کے شدت پسند نرمل سنگھ کو ریاستی وزیر پانی و بجلی کا منصب دینے کا ایکبڑا مقصد یہی ہے کہ وہ ڈیموں اور بجلی گھروں کی تعمیر میں رکاوٹیں دور کریں اور کلیئرنس یقینی بنائیں۔ وہ ایسا ہی کر رہے ہیں۔

بھارتی وزیراعظم کی دھمکی بھی مدنظر رکھی جائے اور بگلیہار ڈیم کے سلسلے میں پاکستان کے بجائے بھارت کے حق میں غیر جانبدار ماہر کا فیصلہ بھی چشم کشا ہے۔ نریندر مودی کی پاکستان بہنے والا پانی روکنے کی دھمکی پاک بھارت آبی جنگ کے خدشات کو درست قرار دیتی ہے کہ بھارت اس معاہدے کو یک طور پر ختم کرنے کے لئے پر تول رہا ہے۔ پاکستانی مشیر خارجہ سرتاج عزیزکے اس بیان نے جنگ کے خدشات کو مزید تقویت دی ہے کہ سندھ طاس معاہدے ختم کرنے کی کوشش اعلان جنگ سمجھی جائے گی۔ ایشین ترقیاتی بینک اے ڈی پی کی رپورٹ بھی مدنظر رہے کہ پاکستان کے ہاں پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت 30ایام تک محدود ہو چکی ہے جبکہ یکساں آب و ہوا کے حامل ممالک کے ہاں یہ صلاحیت ایک ہزار ایام کے لئے لازمی قرار دی گئی ہے۔

وزیراعظم نریندر مودی نے گزشتہ برس پاک بھارت مذاکرات اور دوستی کے لئے ایک شرط یہ بھی لگائی کہ پاکستان کو پانی دینا عسکریت پر روک لگانے سے مشروط ہو گا۔ پانی کو بھارت جنگی ہتھیار کے طور پر آزمانا چاہتاہے۔ اس مقصد کے لئے وہ تیزی سے پانی ذخیرہ کرنے کے منصوبوں پر کام کر رہا ہے تا کہ ان کی فوری تکمیل پاکستان کی رکاوٹ کا سبب نہ بن سکے۔ پانی کو ایٹم بم کے متبادل کے طور پر آزما کر بھارت کس ھد تک کامیاب ہو گا ، اس کا انحصار پاکستان کی حکمت عملی اور بین الاقوامی سفارتکاری پر ہے۔ اگر یہ موژر اور نتیجہ خیز ہے تو بھارتی کامیابی کے امکانات اسے تناسب سے کم از کم ہوں گے۔ اس کے لئے لابنگ کی جا سکتی ہے۔ خارجہ پالیسی اگر متحرک بن گئی اور اسے عالم مفادات سے منسلک کیا گیا تو اس حکمت عملی کا نتیجہ خیز ثابت ہونا یقینی ہو سکتا ہے۔ ماہرین کی آراء اور اندرون خانہ وابستگان کی سوجھ بوجھ کا اسی تناظر میں امتحان ہو گا کیوں کہ آج ان کے سامنے بڑا چیلنج ہے۔ سرکاری ادارے، تھینک ٹینکس کی معلومات اس لئے محدود ہوں گی کہ وہ مختلف امور پر کام کرتے ہیں۔ جبکہ آبی ایشوصرف سندھ طاس واٹر کمیشن تک سکڑ گیا ہے۔ اس کے لئے کمیشن کے اختیارات، پروفیشنل ماہرین کی خدمات، پارلیمانی کمیشن کی تشکیل جیسے اقدامات پر غور ہونا چاہیئے۔ ہو سکتا ہے یہ کام خفیہ طور پر ہو رہا ہو کیوں کہ ظاہری طور پر ایسا محسوس نہیں ہوتا۔ حکومتی حلقے بھی ایسی کسی پیش رفت سے باخبر نہیں۔ بھارت کے ساتھ آبی تنازعہ کو قومی مفادات کے عین مطابق بنانا انتہائی ضروری ہے۔ اس میں کسی سیاست یا پارٹی پرستی کی کوئی گنجائش نہیں۔ اگر بھارتی حکومت نے مقبوضہ کشمیر میں ڈیموں اور بجلی گھروں کے تعمیر اور فوری تکمیل کے لئے ہنگامی بنیادوں پر 16ارب ڈالر گزشتہ چند مہینوں میں مختص کئے ہیں ، تو پاکستان دنیا کو خبردار کرنے میں کیا کر رہا ہے کیوں کہ بھارتی منصوبے ایک متنازعہ خطے میں جاری ہیں۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے اس خطے کو متنازعہ قرار دیا ہے۔

Ghulamullah Kyani
About the Author: Ghulamullah Kyani Read More Articles by Ghulamullah Kyani: 710 Articles with 556023 views Simple and Clear, Friendly, Love humanity....Helpful...Trying to become a responsible citizen..... View More