نوجوان کسی بھی ملک کا قیمتی اثاثہ ہوتے ہیں۔ اس ملک کے
مستقبل کے معمار تصور کئے جاتے ہیں۔ مگر بدقسمتی سے پچھلے ڈیڑھ عشرے سے
پاکستان کی نوجوان نسل میں بے چینی اور مایوسی پائی جا رہی ہے۔ جن کی وجہ
سے بے روزگاری، بے راہ روی اور دیگر عوامل شامل ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ
نوجوان خود بھی اپنا مستقبل تباہ کرنے پر تلے ہوئے ہیں نشہ کی اس لعنت کی
لپیٹ میں کئی تعلیمی ادارے بھی آ چکے ہیں۔ ہیروئن‘ چرس‘ نشہ آور گولیاں اور
اس سے ملتے جْلتے ممنوعہ اشیاء کا استعمال کر رہے ہیں۔ نشہ آور نوجوانوں کا
مستقبل بہت ہی برا ہو گا۔ ایسے میں حکومت اور اسکے متعلقہ اداروں کو فوری
اقدامات کرنا ہوں گے بصورت دیگر نشے کا رجحان تباہی کے ساتھ ہلاکت خیز ثابت
ہو سکتا ہے جرم کرنیوالا کتنا ہی بااثر اور شاطر کیوں نہ ہو آخر ایک دن
پکڑا جاتا ہے۔ قانون کی گرفت سے کوئی ہرگز بچ نہیں سکتا۔ والدین کا فرض
اولین ہے کہ وہ اپنے بچوں پر خصوصی نگاہ رکھیں ان کی سرگرمیاں پڑتال کرتے
رہیں۔ بچہ چھوٹی موٹی نشہ آور شیاستعمال کرے تو اسے درگزر نہ کریں بلکہ
فوری اس کا ازالہ کریں اور بچے کو ڈانٹ ڈپٹ کے ذریعے برے کاموں سے روکا
جائے۔ بچہ مسجد سے جوتے چرا لائے یا دکان سے انڈہ لائے تو اس کی حوصلہ شکنی
کیجئے۔ صرف نظر کرنے سے بچہ غلط راہوں پر چل نکلے گا۔ اس ضمن میں اساتذہ
کرام کو بھی اپنا کردار ادا کرنا چاہیے تاکہ معاشرہ امن و آشتی کا گہوارہ
بن سکے۔حکومت کی طرف سے مالکان پر پابندی عائد کی گئی ہے کہ وہ کرایہ دار
رکھنے سے پہلے اس کے ضروری کوائف پڑتال کرے اور فوری متعلقہ تھانہ اطلاع
فراہم کرے اس طرح بھی جرائم پیشہ افراد کی بیخ کنی ممکن ہے۔اگر مالک مکان
کرایہ داروں بارے پولیس کو اطلاع فراہم نہیں کرتا تو گلی محلے میں بسنے
والے شہریوں کا فرض ہے کہ وہ پولیس کو اطلاع دیں تاکہ بروقت ضروری کارروائی
عمل میں لائی جا سکے۔ شہریوں کا یہ بھی فرض ہے کہ اردگرد حالات پر کڑی نگاہ
رکھیں مشکوک ‘لاوارث اشیائیا اجنبی افراد نظر آنے پر فوری پولیس کو اطلاع
دیں تاکہ کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش نہ آ سکے۔ حکومت کا یہ اقدام بھی قابل
ستائش ہے کہ موبائل فون سمیں بذریعہ بائیو میٹرک سسٹم تصدیق کی جا رہی ہیں۔
قدرت کا یہ معجزہ ملاحظہ کیجئے کہ دنیا میں جتنے بھی انسان موجود ہیں ان کی
انگلیوں کے نشانات ایک دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں۔ سموں کی بائیو میٹرک سسٹم
کے ذریعے تصدیق سے جرائم کا گراف بھی کم ہو گا۔ شہریوں کو رانگ کالز کے
عذاب سے بھی چھٹکارہ مل گیا ہیں۔ حکومت کا یہ اقدام بھی زبردست ہے جس کے
تحت لاؤڈ سپیکر کے بے جا استعمال پر پابندی لگا دی گئی ہے۔ یقیناً اس اقدام
سے فرقہ واریت کو ہوا دینے والی تقاریر کا سدباب ہو گا۔ ایک رپورٹ کے مطابق
کرایہ داری نظام اور لاؤڈ سپیکر کے بے جا استعمال پر سینکڑوں افراد کیخلاف
قانونی کارروائی عمل میں لائی گئی ہے۔ جرم ہر دور میں ہوتا رہا ہے اس کا
گراف کم زیادہ ہوتا رہتا ہے۔ جرائم کے خاتمہ کیلئے سوسائٹی کے ہر طبقہ فکر
کو اپنا موثر کردار ادا کرتے ہوئے پولیس کا ساتھ دینا لازم ہے تاکہ جرائم
پیشہ افراد قانون کے شکنجہ میں آ سکیں۔ واردات ہونے پر پولیس کو فوری اطلاع
دینا چاہیے اور اس کی آمد سے پہلے جائے واردات محفوظ رہنا چاہیے۔ دیکھنے
میں آیا کہ واردات پر لوگ کثیر تعداد میں جمع ہو جاتے ہیں۔ سنگین واردات کی
صورت لوگ احتجاج کی آڑ میں توڑ پھوڑ شروع کر دیتے ہیں جو مہذب قوموں کا
شعار ہرگز نہیں۔ احتجاج اور توڑ پھوڑ سے موقع سے ضروری شواہد ناپید ہو جاتے
ہیں جس سے قانون نافذ کرنیوالی ایجنسیوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
محکمہ پولیس میں افسران و جوانوں کی شاندار کارکردگی پر نقد انعام و تعریفی
اسناد سے نوازا جاتا ہے جبکہ ناقص کارکردگی پر محکمانہ سزا بھی دی جاتی ہے۔
پولیس شبانہ روز شہریوں کے جان و مال عزت آبرو کی حفاظت کیلئے کوشاں رہتی
ہے۔ پنجاب پولیس کیلئے فخر و تمنکت کی بات ہے کہ عوام کی جان و مال کی
حفاظت کرتے ہوئے جام شہادت نوش کرنیوالے پولیس افسران و جوانوں کا تناسب
عالمی طور پر کہیں زیادہ ہے۔ نشہ اوردوسرے جرائم کی لانعت کے ساتھ ہمارے
معاشرے میں پسند کی شادی کو ن بھی اچھا مقام حاصل نہیں ہے جبکہ ہمارا دین
اسلام پسند کی شادی کی اجازت دیتا ہے۔ خاص طور پر ہمارے ہاں لڑکیوں کو لڑکا
پسند کرنے کا حق نہیں دیا جاتا۔ آج بھی بہت سے خاندان ایسے ہیں جہاں لڑکیوں
کو وہ مقام حاصل نہیں جو اسلام ان کو دیتا ہے۔ لڑکیوں کہ ان کی پسند اور
ناپسند پوچھے بغیر ہی بیاہ دیا جاتا ہے۔ چاہے وہ شادی نہ کرنا چاہتی ہو‘
لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ ہم مسلمان کیوں اپنے دین اور اس کے احکامات کو
بھول گئے ہیں جب اسلام ہمیں اپنی مکمل ضابطہ حیات دیتا ہے تو ہمیں اپنے دین
کے احکامات کو اپناتے ہوئے کیا مشکل ہے۔ شادی کے معاملات کے علاوہ بھی ہر
شعبہ ہائے زندگی میں دین ہماری رہنمائی کرتا ہے۔ مگر آج کا مسلمان ان باتوں
کو ماننے سے قاصر ہے۔ وہ یہ سوچتے ہیں کہ پسند کی شادی بے حیائی ہے‘ لیکن
اگر ہم ہر کام اپنی حدود میں رہتے ہوئے کریں تو کبھی کوئی چیز بھی گناہ یا
بے حیائی کے زمرے میں نہیں آتی۔ خواہ کوئی شادی جیسا پاک رشتہ ہی کیوں نہ
ہو۔ آج کا مسلمان بہت زیادہ جلد باز اور بے صبر ہے۔ چھوٹی چھوٹی باتوں پر
غصہ کرنا اور اسے اپنی انا اور عزت کا مسئلہ بنا لینا اس کا مقبول کام ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
|