محترم قارئین السلام علیکم ۔کیسے ہیں آپ سب ؟ اﷲ تعالی سے
آپ سب کی صحت اور خوشیوں کے لیے دعا گو ہیں ۔لیہ اور اس کے قرب و جوار
پسماندہ علاقے سمجھے جاتے ہیں مگر تاریخ نے یہ بھی دیکھا کہ انہیں علاقوں
سے بہت سے روشن چراغ جلے۔اور مختلف علوم فنون میں نام پیدا کیا ۔ ڈاکٹرخیال
امروہی ،ناصر ملک۔جیسے نام قابل ذکر ہیں ۔فتح پور سے تعلق رکھنے والے ایک
نوجوان جو بطور لیکچراریونیورسٹی آف مینجمنٹ اینڈ ٹیکنالوجی میں علم کی
ترویج کے لیے کوشاں ہیں ۔استاد ہونے کے ساتھ ساتھ مصنف بھی ہیں اور قلم سے
گہری دلچسپی رکھتے ہیں ۔توآج کے ہمارے مہمان ہیں آصف اقبال ۔آئیے ان سے
ملتے ہیں ۔
عفت ؛؛السلام علیکم آصف صاحب ۔کیسے مزاج ہیں؟
آصف اقبال ؛؛ وعلیکم السلام ۔اﷲ کا شکر ہے۔
عفت؛؛آج آپ صبح پا کستان کے مہمان ہیں ۔کیسا لگ رہا ہے آپ کو؟
آصف اقبال؛؛بہت اچھا لگ رہا ۔
اب ہم کچھ آپ کے بارے میں جاننا چاہیں گے۔
عفت ؛آپ کی تعلیم ؟
آصف اقبال۔۔: ایم فل اکنامکس ۔ایم۔بی۔اے۔
عفت ۔آپ کیا کرتے ہیں ؟
آصف اقبال ؛؛تعلیم و تعلم
عفت۔آپ بطور ایک استاد موجودہ تعلیمی سسٹم اور قدیم تعلیمی سسٹم کو کیسے
دیکھتے ہیں؟
آصف اقبال۔دیکھیے تعلیمی نظام کے متعلق سب سے پہلے تو یہ طے کرنا ہے کہ اس
کے اغراض و مقاصد کیا ہیں ؟اس کا مقصد کلرکس پیدا کرنا ہے یا یا مصلح پیدا
کرنا ہے ۔افسوس کی بات یہ ہے کہ تمام تر تعلیمی نظام فوکسڈ ہے ،ملازم پیدا
کرنے پر۔اخلاقیات سے عاری مشینیں پیدا کرنے پہ۔ایسے تعلیمی نظام سے کیا
توقع کی جا سکتی ہے ۔اک وہ وقت تھا کہ سونے چاندی کے ڈھیر پڑے ہوتے تھے ۔
رات کو ان پہ کپڑا ڈال دیتے تھے اور بے فکری سے سو جاتے تھے ۔اب وہ وقت ہے
کہ ٹوٹا ہوا گلاس بھی محفوظ نہیں ۔اب اس کا تعلق تعلیم سے نہیں جوڑیں گے تو
کس سے جو ڑیں گے ۔
عفت۔پاکستان میں مختلف سکول آف سسٹم رائج ہیں آپ کیا سمجھتے ہیں کہ اس سے
معاشرے پہ کیا اثرات مرتب ہو رہے ہیں ؟
آصف اقبا ل۔تعلیمی نظام کے مختلف ہونے کے جو اثرات نکلتے ہیں قابل بحث
باتیں ہیں ۔ایک تو نظریہ یہ ہے کہ ۔مدارس کے نظام میں تمام علوم ایک جگہ سے
حاصل ہوتے تھے اب اسے رائج کرنا تو ناممکن بات ہے ۔دوسرا یہ کہ تعلیمی نظام
کو ایسے مربوط کر دیا جائے کہ ایک مخصوص طبقے سے احساس کمتری ختم ہو ۔اہم
بات یہ ہے کہ آپ جسے مختلف تعلیمی نظام کہہ رہی ہیں وہ محض انگریزی مختلف
لہجے میں بولنے کی تعلیم ہے ۔اور کچھ نہیں ۔
عفت۔ برٹش سکول آف سسٹم اور امریکن سسٹم میں سے کونسا ترقی کی راہ میں
مددگار ہے ؟
آصف اقبال۔برطانوی نظام تعلیم اور برٹش سکول سسٹم الگ الگ باتیں ہیں ۔ہمارے
ہاں جو ،او لیول اور اے لیول کی تعلیم ہے وہ برٹش سکول سسٹم ہے ۔اور جو
میٹرک والے سکولوں میں گورنمنٹ نصاب ہے برطانوی نظام تعلیم کے اثرات ہیں
۔اب تیسرا سکول سسٹم امریکن ہے جیسا کہ شوئفات وغیرہ۔اپ بہتری کی بات نہ
کریں یہ پوچھیں ان میں سے برا کونسا ہے ؟دیکھیں وہ نظام تعلیم کسی بھی قوم
کے لیے مددگار ثابت ہوتا ہے جو اس کی سماجی ،سیاسی، معاشی اور مذہبی پہلوؤں
کو مد نظر رکھ کر بنایا گیا ہو ۔در حقیقت انگریز سے مرعوبیت خون میں شامل
ہو گئی ہے اور یہ حال ہے کہ سکول اور یونیورسٹیز کے نام دیکھیں ۔امریکن
نیشنل ہائی اسکول ،برٹش نیشنل ہائی سکول ،آکسفورڈ پبلک اسکول ،وغیرہ اس
مرعوبیت میں ہم اپنا تعلیمی نظام کیا بنائیں گے اور ترقی کیا خاک کریں گے ۔
عفت۔آئین کے مطابق اردو ہماری قومی زبان ہے لیکن ہم ہیں کہ انگریزی کے
گرویدہ ہیں نتیجہ ہم آدھے تیتر اور آدھے بٹیر بن گئے ہیں آپ کیا کہتے؟
آصف اقبال۔یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ قومیں اپنی زبان میں ہی ترقی کرتی
ہیں۔دوسری زبانیں مرعوب کرتی ہیں ۔لیکن اس میں ذیادہ قصور ہم اساتذہ کا ہے
کہ ہم اپنی زبان کو اتنی ترقی ہی نہیں دے سکے کہ علوم اس میں منتقل ہو سکیں
اور تعلیمی اداروں کا المیہ کہ وہاں نوٹس لگا ئے جاتے ہیں کہ پنجابی اور
اردو جیسی گھٹیا زبان استعمال کرنے پہ جرمانہ ہو گا ۔اب ایسے میں بچے کیا
کریں۔
عفت۔کیا آپ موجودہ تعلیمی نظام سے مطمئن ہیں؟ تعلیمی نظام کیسا ہونا چاہیے؟
آصف اقبال۔ جی نہیں۔تعلیمی نظام ایسا ہونا چاہیے جو ہمیں اس خود ساختہ
غلامی سے نکال دے اور آگے بڑھنے کی صلاحیت پیدا کرے ۔کلرک پیدا کرنے کے
بجائے پیداواری رشتہ پیدا کرنا سکھائے۔اس تاریخی موڑ کو سمجھیں کہ قومیں
وہی زندہ رہتیں جو اپنی زبان اور تہذیب کے دائروں میں اپنا نظام بناتی ہیں
۔آپ لکھ لیں آنے والے پچاس سالوں میں دنیا میں چائنہ کا ادب پڑھا جائیگا۔
عفت۔ بحثیت استاد طالبعلم کی استعداد کہاں کھڑی دیکھتے ہیں ؟
آصف اقبال۔طالبعلم کی ذہنی استعداد بڑھ رہی ہے ۔لیکن اسے سوچنے سمجھنے کی
صلاحیت سے محروم کیا جا رہا ہے ۔آج کا طالبعلم ہم سے ذیادہ جاننے کی صلاحیت
رکھتا ہے ۔لیکن ہم اسے کتابوں کا کباڑ خانہ دیتے ہیں لائبریری نہیں دیتے سو
وہ ساری عمر بھٹکتا رہتا ہے ۔اسے کوئی ایسا نظریہ نہیں ملتا جس پہ عمر بتا
دے۔اس کی صلاحیتیں بغیر استعمال ضائع جات ہیں ۔
عفت ۔میڈیا کا کیا رول دکھائی دیتا ہے؟
آصف اقبال۔اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ میڈیا کا دور ہے کتاب سے رشتہ ختم اور
میڈیا سے جڑ رہا ہے ۔میڈیا اپنی ایک پالیسی جنگ پہ قائم ہے ۔اور ہم ایسے نا
قابل سپاہی کہ لڑنے کی صلا حیت بھی نہیں رکھتے۔اب ہر سوچ ،ہر احساس میڈیا
سے پروان چڑھتا ہے۔یہ تو ہمارے کردار اور نظریہ پہ ہے نا کہ ہم اس کے مطابق
اپنا نصاب اور اساتذہ کو پروان چڑھائیں جو اس جنگ کو لڑ سکے۔
عفت ۔ادب سے دلچسپی کب پیدا ہوئی؟
آصف اقبال ۔؛یہ تو اب یاد نہیں۔۔ گھر میں ماحول ہی پڑھنے پڑھانے والا تھا
۔دونوں بڑے بھائی ڈاکٹر خیال آمروہی کے شاگرد تھے۔۔۔ دونوں شاعری کرتے
رہے۔۔
عفت؛۔سب سے پہلی تحریر؟کب اور کہاں شائع ہوئی؟
آصف اقبال ۔ ۔سب سے پہلے مزاح کا ایک رسالہ تھا۔۔ چاند۔۔ لاہور سے چھپتا
تھا اس میں لکھتا تھا نام بدل کے۔۔ پھر آٹھویں جماعت میں تھا تو خبریں کے
میگزین میں ایک تحریر شائع ہو گئی تو حوصلہ ہو گیا
عفت۔۔اورتحریر دیکھ کر کیا تاثرات تھے؟
آصف اقبال۔۔چونکہ نام بدل کے لکھتا تھا تو بس زیادہ لوگوں کو دکھا نہیں
سکا۔۔۔ قریبی دوستوں کو دکھایا ۔اور خوش ہو لئے ۔
عفت۔۔کونسی صنف لکھنا پسند ہے۔۔؟
آصف اقبال۔میں صرف افسانہ ہی لکھتا ہوں ۔
عفت ۔۔اردو ادب کو کس تناظر میں دیکھتے ہیں؟
آصف اقبال۔۔اردو ادب بہت اچھا تخلیق ہوا ہے اور ہو رہا ہے۔پڑھنے والوں کا
فقدان ہے۔اس کی وجہ شاید گراس روٹ لیول پہ اساتذہ کے ہاں ادبی رویوں کا
فقدان ہے۔۔گھروں میں کتاب کو غیر ضروری سمجھا جاتا ہے ۔
عفت ۔۔معاشرے میں اردو ادب کس مقام پہ کھڑا ہے؟
آصف اقبال۔. اردو ادب کسی بھی ایسے مقام پر نہیں کھڑا۔ کہ ہم واویلا
مچائیں۔۔۔ لٹ گئے۔۔ برباد ہو گئے۔۔۔ ایسا کچھ نہیں ہے۔۔ ہر زبان کی تخلیق
اپنی زبانی اور زمانی کلچر کا مظہر ہوتی ہے۔۔ اسے کسی تقابلی جائزے کا شکار
کر کے رونا دھونا نہیں چاہئے۔
عفت ۔۔آپ کے خیال میں کیا ادب کو محدود کیا جاسکتا ہے؟یعنی ہم اسے ادب و
آداب سے برتیں۔
آصف اقبال ۔۔ادب کو مقصدیت کے پیش نظرتخلیق کرنا اچھا عمل ہے اور معاشرے کے
سدھار کے لیے ضروری ہے ۔لیکن صرف یہی ادب تخلیق کرنا ادب کی اپنی ترقی کے
لیے نقصان دہ ہے ۔
عفت۔۔ موجودہ دور میں حقیقت نگاری اور فسانہ نگاری دونوں میں کیا اہم ہے؟
آصف اقبال۔۔ دیکھئے۔۔ اخبار نویس کا اپنا کام ہوتا ادیب کا اپنا کام ہوتا
ہے۔۔ ظلم پہ خبر دینا اخبار نویس کا کام ہے۔۔ وہ اﷲ کا بندہ ادیب بھی ہو یہ
ضروری نہیں۔ادیب اس ظلم کے پیچھے چھپے محرک کو پہنچانتا ہے ۔وہ استحصال کو
سمجھتا ہے اور اس پہ لکھتا ہے ۔اب آپ اسے افسانہ کہیے یا حقیقت ۔
عفت۔۔ اردو ادب معاشرے پہ کیا اثرات مرتب کر رہا بحیثیت ایک رائٹر آپ کیا
محسوس کرتے ہیں کہ کیا ہونا چاہیے؟
آصف اقبال ۔۔خادم نے جس گھر میں بھی ۔جس معاشرے میں بھی ادبی رویے دیکھے
۔کتاب کا کلچر دیکھا ۔وہاں اخلاقی برتری بھی دیکھی۔اردو ادب معاشرے میں
مثبت کردار ادا کرتا ہے ۔لیکن اس کے لیے نام نہاد قاری نہیں ،اصل قاری
چاہیے۔میں نے ایک جگہ لاہور کے گھروں کے متعلق لکھا تھا عجیب شہر ہے کتابیں
فیشن کے طور پر استعمال ہوتی ہیں ۔
عفت۔۔علامتی ادب کیا ہے؟ ادیب کو عام لوگوں کے لیے لکھنا چاہیے یا
اپنے۔لیے؟
آصف اقبال۔علامتی تحریر اپنی جگہ ہے جس معاشرے میں ظلم اور استبداد ہوتا ہے
وہاں کھل کے بات نہیں کر سکتے تو علامت اختیار کرتے ہیں ۔مثال کے طور پر
۔قنوطی مذہبی رویوں کے متعلق نا چیز نے ہمیشہ علامتی رنگ میں بات کی ہے۔
عفت۔۔علم و ادب کی کاوشوں میں آگے کیا ارادے ہیں؟
آصف اقبال۔۔لکھتے رہیں گے۔خون دل میں انگلیاں جو ڈبو لیں۔
عفت ۔آج کل نو آموز لکھاری بھی ناول لکھ اور چھپوا رہے ہیں جن میں بیشتر
چربہ سازی ہوتی آپ کی اس بارے کیا رائے ہے؟
آصف اقبال۔۔یہ تو ناسور ہے ۔جو لکھنے والوں کی حوصلہ شکنی کرتا ہے ۔
عفت۔۔آپ کا پسندیدہ رائٹر؟
آصف اقبال ۔۔افسانے میں ممتاز مفتی ۔کیونکہ کہانی کا استعمال ان پہ ختم ہے
اور کرشن چند ۔ویسے استاد محترم یوسفی صاحب اور مختار مسعود صاحب ۔
عفت۔۔پسندیدہ کتاب۔؟
آصف اقبال۔۔آگ کا دریا ۔لوح ایام۔
عفت۔آپ کی اپنی پسندیدہ تخلیق؟
آصف اقبال۔۔افسانہ آدمی ۔
عفت۔۔آپ کی زندگی میں قلم سے محبت کہاں کھڑی ہے؟
آصف اقبال۔۔یہ تو پڑھنے والے ہی بتا سکتے ہیں ،کہ ہم قلم سے محبت کرتے ہیں
یا نہیں ۔
عفت ۔۔ہمارے دانشور معاشرے کے لیے کیا کر رہے ہیں۔؟
آصف اقبال۔۔دانشور بہت کچھ کر رہے ہیں ۔مضافات میں ادب لکھنے والے با لخصوص
معاشرے کے لیے بہت کام کر رہے۔کیونکہ ادبی رویوں کا پیدا کر دینا بذات خود
ضروری اور بڑا کام ہے ۔لیکن ابھی بھی بہت ضرورت ہے۔
عفت۔۔ آپ نے کتابیں بھی لکھیں ان کے متعلق بنانا پسند کریں گے؟
آصف اقبال۔۔جی چار کتا بیں Economics for Alevels book 1,2,3,4
عفت۔۔آپ نے قریبا کتنے افسانے لکھے؟
آصف اقبال۔۔قریبا تیس افسانے اور ایک ناول وارڈ نمبر ۷ زیر تحریر ہے۔
عفت۔۔ ماشا اﷲ اﷲ زور قلم ذیادہ کرے اور آپ لکھتے رہیں ۔آپکا بہت شکریہ۔
آصف اقبال۔میں صبح پاکستان کا ممنون ہوں کہ اس نے موقع دیا ۔ |