امتحانی نتائج اور کچھ اہم گزارشات

مارچ کا مہینہ پورے پاکستان میں عموماً اسکولوں میں امتحانات کا مہینہ ہوتا ہے۔ بچوں کی سال بھر کی کارکردگی کو جانچا جاتا ہے اور اس کے مطابق نتیجہ تیار کیا جاتا ہے کہ آیا طالب علم یا طالبہ اگلی جماعت میں بھیجا جائے جا اس کو اُسی جماعت میں روکا جائے۔
 

image

جب تک آپ یہ تحریر پڑھیں گے اس وقت تک کچھ اسکولوں میں نتائج کا اعلان ہوچکا ہوگا، اور کچھ ایک یا دو دن بعد اعلان کریں گے۔ اسکول کے نتائج کا بچے کی شخصیت پر بہت گہرا اثر پڑتا ہے۔ آج ہم اسی حوالے سے کچھ گزارشات یہاں پیش کرنے کی جسارت کریں گے۔

عموماً طلبہ و طالبات امتحان میں کامیاب ہوجاتے ہیں اور بہت کم ہی ایسا ہوتا ہے کہ کوئی طالب علم ناکام ہوجائے۔ لیکن ہمارے معاشرے میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی جو اندھا دھند دوڑ لگی ہوئی ہے ، اس دوڑ سے معصوم بچے بھی متاثر ہورہے ہیں۔ والدین ایک دوسرے کی دیکھا دیکھی اپنے بچوں پر تجربات کرتے رہتے ہیں۔’’ میرے پڑوسی کا بچہ فلاں اسکو ل میں پڑھتا ہے تو میرے بچے کو بھی وہاں ہونا چاہیے۔‘‘ ’’جیٹھ کا بیٹا پرائیوٹ اسکول میں ہے تو میرا بیٹا کیوں نہیں؟‘‘ ’’ خاندان بھر کے بچے او لیول میں پڑھ رہے ہیں ، ہمارے بچوں کو بھی اولیول میں ہونا چاہیے۔‘‘

ستم کی بات یہ ہے کہ اس سارے قضیے میں بچے کو نظر انداز کردیا جاتا ہے کہ بچے کی عمومی کارکردگی اور اس کا رجحان کس طرف ہے، آیا والدین جس نظام تعلیم میں بچے کو بھیجنا چاہتے ہیں بچہ اس کو قبول کربھی پائے گا یا نہیں؟ بچہ اس کے تقاضے پورے بھی کرسکے یا نہیں؟ یہ تو بات ہوگئی صرف اسکول کے حوالے سے ۔ لیکن زیادہ تکلیف دہ بات یہ ہے کہ محلے ، پڑوس اور خاندان کے جو بچے ایک ہی اسکول یا ایک ہی جماعت میں پڑھتے ہیں ، والدین کی انا کا بوجھ بھی وہی اٹھاتے ہیں۔
’’فلاں کا بچہ اے پلس لے کر آیا ہے، لیکن تم اے گریڈ لے کر آئے ہو۔‘‘
’’ تمہاری خالہ کے بچے تو سارے کے سارے فرسٹ آتے ہیں لیکن تم کبھی تھرڈ سے آگے ہی نہیں بڑھتے۔‘‘
’’ خاندان بھر کے بچے اس اسکول میں پڑھ کر اے ون گریڈ لارہے ہیں لیکن تم تو کچھ کرتے ہی نہیں ہو ۔‘‘
’’ تم نے تو ہماری ناک کٹوا دی۔‘‘
 

image


یہ وہ جملے ہیں جو عموماً کم نمبر لانے والے یا ناکام ہوجانے والے بچوں کو کہے جاتے ہیں۔ والدین یا سرپرست صاحبان یہ نہیں جانتے کہ ان کے یہ جملے کس طرح بچے کی شخصیت کو کچل دیتے ہیں۔ اس کی انا مجروح ہوجاتی ہے، بچہ احساسِ کمتری کا شکار ہوجاتا ہے، جس کے نتیجے میں یا تو تمام ہی دنیا سے کٹ کر صرف اور صرف ایک کتابی کیڑا بن کر رہ جاتا ہے یا پھر وہ تنہائی پسند اور کم گو ہوجاتا ہے۔

اس لیے اگر آپ کا بچہ کم نمبر لایا ہے یا ناکام ہوگیا ہے تو کوئی بات نہیں، اس کو حوصلہ دیجیے۔ اس کی ہمت بندھایے، اس کو احساس دلایے کہ آپ اس سے محبت کرتے ہیں، اس کو اپنی غلطیوں اور خامیوں کا احساس ضرور دلایئے لیکن نفرت بھرے انداز میں نہیں بلکہ پیار محبت سے ، ایک دم نہیں بلکہ آہستہ آہستہ، ضروری نہیں ہے کہ آپ امتحانی نتیجے والے دن اور اس کے بعد کے کچھ دن اسی کام کے لیے مخصوص کرلیں اٹھتے بیٹھتے بچے کو طعنے اور کوسنے دیئے جارہے ہیں، اس کی پورے سال کی کارکردگی کا پوسٹ مارٹم کیا جارہا ہے۔

نہیں بالکل نہیں! آہستہ آہستہ غیر محسوس انداز میں بچے کو اس کی غلطیوں اور خامیوں کا احساس دلایے لیکن نتیجے والے دن نہیں بلکہ اس کے دو تین دن بعد۔ نتیجے والے دن بچے کو احساس دلایے کہ یہ زندگی کا ایک بہت چھوٹا سا امتحان ہے ، کیا ہوا جو اس میں کچھ کمی رہ گئی ہے، اگلی دفعہ اس کمی کو پورا کر لیا جائے گا۔

اس کو یہ احساس دلایے کہ آپ اس سے ہر حال میں محبت کرتے ہیں۔ اسے باور کرائیں کہ آپ اسے نمبروں کی میزان میں نہیں تول رہے بلکہ اس کی کارکردگی ، اس کی کوششوں کو سراہتے ہیں ، کیا ہوا جو اس میں کچھ کمی رہ گئی ہے؟

یقین کریں جب آپ بچے کے ساتھ اس طرح کا رویہ رکھیں گے، تو اگلی دفعہ بچہ پوری کوشش کرکے اپنی غلطیوں اور خامیوں پر قابو پائے ، اپنی کمزوری کو دور کر کے بہتر نتائج آپ کو دے گا۔ یاد رکھیے بچے امتحانی نتیجے سے کبھی نہیں ڈرتے، بلکہ اس کے بعد گھر والوں اور والدین کے ممکنہ رد عمل سے خوف زدہ رہتے ہیں۔ یہ خوف انہیں گھروں سے دور کردیتا ہے، یہ خوف انہیں بری صحبت کی طرف لے جاتا ہے، یہ خوف انہیں گھروں سے بھاگنے پر مجبور کرتا ہے، یہی خوف انہیں پڑھائی کی طرف راغب کرنے کے بجائے تعلیم سے نفرت کی طرف لے جاتا ہے۔اس لیے بچے کے امتحانی نتائج کی بنیاد پر اس سے نفرت یا محبت نہ کریں ، بلکہ اس کو خود سے قریب کریں ، اس کی حوصلہ افزائی کریں تاکہ بچہ گھر اور والدین کو اپنا سب سے بڑا ہمدرد اور غم گسار سمجھے، وہ گھر سے دور جانے کے بجائے اپنی ہر پریشانی اور مشکل کو گھر والوں سے شئیر کرے۔

YOU MAY ALSO LIKE:

It’s that time of the year when results of exams are being declared and studies have found that a surprisingly large number of students are more worried about how their parents will react rather than worrying about what their scores will matter to them.