اسلام نے خوش طبعی، مذاق اور بذلہ سنجی کی اجازت دی ہے۔
بارہا رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے اپنے اصحابؓ کے ساتھ مذاق فرمایا ہے؛
لیکن آپ کا مذاق جھوٹا اور تکلیف دہ نہیں ہوتا تھا۔ حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ
عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ صحابہ کرامؓنے نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم سے
عرض کیا کہ
ترجمہ: اے اﷲ کے رسول (صلی اﷲ علیہ وسلم) آپ تو ہمارے ساتھ دل لگی فرماتے
ہیں؟ آپ نے ارشاد فرمایا کہ (میں دل لگی ضرور کرتا ہوں مگر) سچی اور حق بات
کے علاوہ کچھ نہیں بولتا۔(ترمذی شریف:۰۲/۲)
حضرت عامر بن ربیعہ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے مذاق میں دوسرے
شخص کا جوتا غائب کردیا، نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کو اس واقعہ کا علم ہوا،
تو آپ نے ارشاد فرمایا:
ترجمہ: کسی مسلمیان کو مت ڈراؤ (نہ حقیقت میں نہ مذاق میں) کیونکہ کسی
مسلمان کو ڈرانا بہت بڑا ظلم ہے۔(الترغیب والترہیب۴۸۴/۳)
امام غزالی ؒ تحریر فرماتے ہیں کہ مزاح ومذاق پانچ شرطوں کے ساتھ جائز؛
بلکہ حسنِ اخلاق میں داخل ہے اور ان میں سے کوئی ایک شرط مفقود ہوجائے تو
پھر مذاق ممنوع اور ناجائز ہے۔
(۱) مذاق تھوڑا یعنی بقدرِ ضرورت ہو
(۲) اس کا عادی نہ بن جائے
(۳)حق اور سچی بات کہے
(۴)اس سے وقار اور ہیبت کے ختم ہونے کا اندیشہ نہ ہو
(۵)مذاق کسی کی اذیّت کا باعث نہ ہو (احیاء العلوم اردو ۶۲۳-۴۲۳/۳)
سفیان بن عیینہؓ سے کسی نے کہا کہ مذاق بھی ایک آفت ہے، انھوں نے فرمایا کہ
نہیں؛ بلکہ سنت ہے؛ مگر اس شخص کے حق میں جو اس کے مواقع جانتا ہو اور اچھا
مذاق کرسکتا ہو۔ (خصائل نبوی، ص۳۵۱)
بہرحال حاصل یہ ہے کہ جھوٹے اور تکلیف دہ مذاق کی شریعت اسلامیہ میں کوئی
گنجائش نہیں؛ بلکہ اس طرح کا مذاق مذموم ہے۔
اپریل فول کی حقیقت سمجھنے کے لئے ماضی کی تلخ یادوں کو چھیڑنا ہوگا جیسا
کہ
اسپین کی تمام ریاستیں ایک ایک کرکے مسلمانوں کے ہاتھوں سے نکلتی چلی
گئیں،مسلمان پسپا ہوتے ہوتے غرناطہ میں جمع ہوگئے تھے،حالات ایسے پیداہوتے
چلے گئے کہ آخری مسلم حکمراں ابوعبداﷲ نے الحمراء کی چابیاں کلیساکے حوالے
کردیں،کلیسانے ابوعبداﷲ سے ایک معاہدہ کیاتھاجس کی ایک شق یہ بھی تھی کہ
جومسلمان غرناطہ میں باقی رہ گئے ہیں ان کی جان،مال اورعزت وآبروکی حفاظت
کی جائے گی لیکن اس معاہدے پرعمل نہیں کیاگیا۔اس کے برعکس مسلمانوں کوظلم
وتشددکانشانہ بنایاگیا،انہیں عیسائی مذہب اختیارکرنے پرمجبورکیاگیا،جن
لوگوں نے یہ حکم ماننے سے انکارکیاان کوباغی قراردے کرسزائیں دی گئیں،بے
شمارمسلمانوں کوزندہ جلادیاگیا،کچھ لوگ جان بچاکربھاگ گئے اور پہاڑوں
اورغاروں میں جاچھپے،ایسے ہی لوگوں کوعیسائیوں نے یہ پیش کش کی کہ ان کوبہ
حفاظت مراکش پہونچادیاجائے گا،مسلمان ان کے جھانسے میں آگئے،ان کے سامنے اس
کے علاوہ کوئی دوسراراستہ بھی نہیں تھا،ایک نئی زندگی پانے کی آرزومیں بچے
کھچے اورلٹے پٹے مسلمان عیسائیوں کے فراہم کردہ جہازمیں سوارہوگئے،جب یہ
جہازبحیرہ روم میں پ ہونچاتواسے پہلے سے طے شدہ منصوبے کے تحت سمندرمیں غرق
کردیاگیا،یہ الم ناک اورانسانیت سوزواقعہ یکم اپریل1498ء کوپیش آیاتھا.
افسوس ہم نے وہ کام کرنا شروع کردیا ہے جو دشمنوں نے بھی چھوڑ دیا تھا۔ کیا
یہ مظلوموں کے ساتھ ظلم نہیں ؟ قصہ مختصریہ کہ
اس رسم ’’اپریل فول‘‘ میں سب سے بڑا گناہ جھوٹ ہے؛ جبکہ جھوٹ بولنا دنیا و
آخرت میں سخت نقصان اور محرومی کا سبب ہے۔ نیز اﷲ رب العالمین اور نبی کریم
صلی اﷲ علیہ وسلم کی ناراضگی کا باعث ہے۔
قرآن کریم میں جھوٹ بولنے والوں پر لعنت کی گئی ہے۔ ارشاد مبارک ہے:
ترجمہ: پس لعنت کریں اﷲ تعالیٰ کی ان لوگوں پر جو کہ جھوٹے ہیں۔ (آل عمران
آیت ۱۶)
نیز احادیث شریفہ میں بھی مختلف انداز سے اس بدترین وذلیل ترین گناہ کی
قباحت وشناعت بیان کی گئی ہے۔
حدیث ۱: حضرت عبداﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ
علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
ترجمہ: جب آدمی جھوٹ بولتا ہے تو اس کلمہ کی بدبو کی وجہ سے جو اس نے بولا
ہے رحمت کا فرشتہ اس سے ایک میل دور چلا جاتا ہے۔ (ترمذی شریف۹۱/۲)
حدیث ۲: ایک حدیث شریف میں آپ نے جھوٹ کو ایمان کے منافی عمل قرار دیا،
حضرت صفوان بن سُلیم رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم
سے عرض کیاگیا کہ
ترجمہ:کیا مومن بزدل ہوسکتا ہے؟ آپ ﷺنے ارشاد فرمایا: ہاں، (مسلمان میں یہ
کمزوری ہوسکتی ہے) پھر عرض کیاگیا کہ کیامسلمان بخیل ہوسکتا ہے؟ آپ ﷺنے
ارشاد فرمایا: ہاں (مسلمان میں یہ کمزوری بھی ہوسکتی ہے) پھر عرض کیاگیا
کیا مسلمان جھوٹا ہوسکتا ہے؟ آپ نے جواب عنایت فرمایا کہ نہیں، (یعنی ایمان
کے ساتھ بے باکانہ جھوٹ کی عادت جمع نہیں ہوسکتی اور ایمان جھوٹ کو برداشت
نہیں کرسکتا)۔· (موطا امام مالک ص۸۸۳)
حدیث ۳: حضرت سمرہ بن جندب رضی اﷲ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ آپ نے فجر
کی نماز کے بعد اپنا خواب لوگوں سے بیان فرمایاکہ آج رات میں نے یہ خواب
دیکھا کہ دو آدمی (فرشتے) میرے پاس آئے اور میرا ہاتھ پکڑ کر ارضِ مقدس کی
طرف لے گئے تو وہاں دو آدمیوں کو دیکھا، ایک بیٹھا ہے اور دوسرا کھڑا ہوا
ہے، کھڑا ہوا شخص بیٹھے ہوئے آدمی کے کلّے کو لوہے کی زنبور سے گدّی تک
چیرتا ہے، پھر دوسرے کلّے کو اسی طرح کاٹتا ہے۔ اتنے میں پہلا کلاّ ٹھیک
ہوجاتا ہے اور برابر اس کے ساتھ یہ عمل جاری ہے۔ میرے پوچھنے پر انھوں نے
بتایا کہ:
ترجمہ: بہرحال وہ شخص جس کو آپ نے دیکھا کہ اس کے کلّے چیرے جارہے ہیں، وہ
ایسا بڑا جھوٹا ہے جس نے ایسا جھوٹ بولا کہ وہ اس سے نقل ہوکر دنیا جہاں
میں پہنچ گیا؛ لہٰذا اس کے ساتھ قیامت تک یہی معاملہ کیا جاتا رہے
گا۔(بخاری شریف ۳۴۰۱/۲-۰۰۹/۲-۵۸۱/۱)
حدیث ۴: رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے ایک حدیث میں جھوٹ بولنے کو بڑی
خیانت قرار دیا ہے۔ حضرت سفیان ابن اسید حضرمی رضی اﷲ عنہ سے مروی ہے کہ
نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا:
ترجمہ: یہ بڑی خیانت ہے کہ تو اپنے بھائی سے ایسی گفتگو کرے جس میں وہ تجھے
سچا سمجھتا ہو حالانکہ تو اس سے جھوٹ بول رہا ہو۔ (مشکوٰۃ شریف ۳۱۴/۲)
آخرمیں گزارش ہے جو بہن بھائی شعوری اور لاشعوری طور پر ’’ اپریل فول ‘‘
مناتے رہے ہیں ۔ یا کسی بھی وجہ سے جھوٹ بولنے سے کتراتے نہیں وہ سچے دل سے
اﷲ پاک اور اﷲ تعالیٰ کے محبوب نبی کریم ﷺ سے مافی مانگ کر ’’ جنت کا سودا
کرلیں ! پیارے محبوب کا پیارا ارشاد گرامی ایک حدیث شریف میں ( جس کا مفہوم
) نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم جھوٹ بولنے سے بچنے پر (اگرچہ مذاق سے ہی ہو)
جنت کی ضمانت لی ہے۔ حضرت ابوامامہ باہلی رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول
اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
ترجمہ: میں اس شخص کے لیے جنت کے بیچ میں گھر کی کفالت لیتاہوں جو جھوٹ کو
چھوڑدے، اگرچہ مذاق ہی میں کیوں نہ ہو۔(الترغیب والترہیب ۹۸۵/۳) |