گوانتاناموبے جیل․․․امریکہ کا عظیم عقوبت خانہ

 کیوبا کے جنوب میں 45مربع میل کا وہ علاقہ جسے امریکہ نے کیوبا کے کمیونسٹ انقلاب سے بہت پہلے1903ء میں پٹے پر لے لیا تھا ۔1934ء میں معاہدے پر نظر ثانی کی گئی تو یہ طے ہوا تھا کہ یہ معاہدہ دونوں فریقوں کی رضامندی سے ہی منسوخ ہو سکتا ہے۔کیوبا میں فدیل کاسترو کے انقلاب کے بعد کسی کمیونسٹ ملک میں قائم یہ واحد امریکی اڈہ ہوگیا ۔کاسترو کی حکومت اسکو غیر قانونی قبضہ کہتی ہے ۔اس فوجی اڈے میں تین ہزار فوجی اور اُنکے خاندان کے لوگ رہتے ہیں ۔گوانتانا موبے کا نام جنوری 2002ء میں دنیا میں مشہور ہوا جب امریکہ نے دہشتگردی کے خلاف اپنی عالمی جنگ operation enduring freedom(پائیدار آزادی کی کاروائی ) کے تحت افغانستان پر حملہ کیا اور افغانستان میں قائم طالبان حکومت کے ارکان اور اُسامہ بن لادن کی تحریک القاعدہ کے مشتبہ ارکان کو گرفتار کر کے انہیں اس کیمپ میں زیرِ حراست رکھنے کا فیصلہ کیا تاکہ ان پر امریکی قوانین کا اطلاق نہ ہو سکے ۔اس امریکی اڈے پر
کیمپ ایکسرے کے نام سے ایک حراستی مرکز 1993ء سے موجود تھا جس کو نئے قیدیوں کیلئے تیار کر لیا گیا مارچ2002ء تک کیمپ ایکسرے میں 300قیدی پہنچ چکے تھے جنکا تعلق 33ممالک سے تھا ۔
29اپریل 2002ء کو ان قیدیوں کو پانچ میل دور ایک نئے کیمپ میں منتقل کردیا گیا جسے( کیمپ ڈیلٹا)Camp Delta کا نام دیا گیا تھا تیسرا Camp Lguana ہے جس میں زیرِحراست بچوں کو ر کھا گیایہ کیمپ ڈیلٹا کاسا نہیں ہے اسکی دیوار صرف بارہ فٹ اونچی ہے اور رات بھر جلنے والی روشنیاں بہت تیز نہیں ہیں ۔اسمیں امریکی گھروں کی طرح کے دو گھر بنے ہوئے ہیں جنمیں وہ بچے رکھے گئے جنکی عمریں جولائی 2003ء میں تیرہ سے پندرہ برس بتائی گئیں تھیں اور امریکی حکومت کے مطابق انکو افغانستان میں غیر قانونی جنگ جوئی کے دوران پکڑا گیا تھا گوانتانا موبے میں حراست کا انتظام اس غرض سے کیا گیا کہ امریکی حکومت ان زیرِحراست افراد کو قانونی حقوق نہ دے جنکو وہ محض مشتبہ افرادکہتی تھی اور انہیں غیر معینہ مدت کیلئے حراست میں رکھنا چاہتی تھی نہ ان پر کوئی الزام تھا نہ ان کو قانونی مشورے کی سہولت حاصل تھی نہ یہ معلوم کہ کب تک وہ اس حالت میں رہینگے ۔ان حراستی کیمپوں میں متعدد افراد نے گلے میں پھندے ڈال کے یا سر لوہے کے جنگلے سے ٹکرا کے خودکشی کی کوششیں بھی کی ہیں ۔قیدیوں کی آہستہ آہستہ چھانٹی کرکے انکو وآپس ان کے ملکوں میں جاتا رہا ہے جون 2004ء میں امریکی سپریم کورٹ نے اقدامات شروع کئے کہ کوئی ایک مجسٹریٹ مقرر کیا جائے جو ان کا مقدمات کی سماعت کرے۔
اس دوران ان قیدیوں کے ساتھ شدید بد سلوکیوں کی تفتیش بھی جاری رہی مئی2005ء میں ایف ۔بی۔ آئی کے ایجنٹوں نے اپنی رپورٹ میں بتایا کہ کئی قیدیوں سے غیر قانونی طور پربات اگلوانے کیلئے انہیں بے عزتی اور بد سلوکی کا نشانہ بنایا گیا ۔قرآن شریف کے نسخے ایک ڈھیر کر کے ان کو پیروں سے روندھا گیا ،لیکن قیدیوں نے لمبی بھوک ہڑتال کی تو بعد میں معافی مانگ لی گئی ۔2009ء میں صدارت کا عہدہ سنبھالنے کے بعدسابق امریکی صدر براک اوبامہ نے وعدہ کیا کہ اس قید خانے کو 2010ء تک بند کردیا جائے گا ۔جن قیدیوں کے بارے میں دہشت گردی کے ثبوت ہیں ان پر امریکی عدالتوں میں مقدمے چلائے جائینگے اور باقی انکے ملکوں کے سپُرد کر دئے جائینگے ۔

انہوں نے اپنے دورِ حکومت میں عملی طور پر اپنے اس فیصلے پر اقدامات بھی کرنا چاہے مگر کیونکہ ایک اکیلے فردِ واحد کی کوششوں سے اس بڑے نیٹ ورک کو ختم کرنا ممکن نہیں تھا ان میں خاص کر امریکہ کی کمیونسٹ پارٹیز اسرائیل اور دیگر ان کے ہمنوائیوں کی پُشت پناہی شامل تھی جو اُن کے اس اقدامات کو عملی جامہ پہنانے میں سب سے بڑی رکاوٹ کا سبب بنے ہوئے تھے اس دوران امریکی صدر براک اوبامہ نے اس عقوبت کم مذبح خانے کا دورا بھی کیا ۔

انسانی حقوق کا علمبردار امریکہ کی ناک تلے یہ ایک ہولناک دردناک شرمناک اور انتہائی وحشیانہ کھیل اس جیل میں مقید قیدیوں کے ساتھ جاری ہے جسکا تصور کوئی بھی انسانی آنکھ نہیں کر سکتی اسکا اندازہ آپ یوں لگا سکتے ہیں کہ جہاں تک آپکی سوچوں کی پروازبند ہوتی ہے وہاں سے ان قیدیوں کے ساتھ پُر تشدد اور انسانیت سوز مظالم کی داستان شروع ہوتی ہے ۔کئی کئی دن تک ان کو بھوکا اور پیاسا رکھا جاتا ہے اور جسطرح کوئی کسی موزی جانور کے ساتھ بھی وہ سلوک نہ کرے اس قسم کا سلوک ان قیدیوں کے ساتھ روا رکھا جاتا ہے سر تا پا برہنا کر کے مختلف قسم کی عظیت ناک پُر تشدد سزائیں دیں جاتی ہیں اور ہر اسٹیپ میں ان سزاوئں میں پہلے کی نسبت زیادہ پُرتشدد اقدامات کئے جاتے ہیں ان اقدامات کو یہاں بیان کرنے کیلئے میرا قلم اسکی اجازت نہیں دے رہا بس اتنا جان لیجئے کہ کوئی بھی تشدد کا ایسا طریقہ خالی نہیں جانے دیتے جو انتہائی نوعیت پر کیا جاتا ہے ۔

ان سب باتوں سے ہمارے ازہان میں سوال یہ جنم لیتا ہے کہ وہ امریکی نرم خو انسان دوست انسانی حقوق کے علمبردار لوگ جو کہ ایک معمولی جانور مینڈک کی نگہداشت اور آرام کے خیال سے ناجانے کتنی رقم اُسکی سُرنگ بنانے کیلئے جس سے وہ آسانی سے آ مدورفت کرسکے سرف کر سکتے ہیں جو کہ چرند پرند ،چوپائیوں کی حفاظت اور افزائش و نشونُما کیلئے اپنی جان اور پیسا دونوں ہلکان کر سکتے ہیں تو اِن امریکی انسانی حقوق کے علمبرداروں سے سوال یہ کیا جانا چاہئے کہ کیا اُن کا مذہب معاشرت اور اقتدار اُنکو یہ اجازت دیتا ہے کہ کسی قیدی انسان سے اس قسم کا بیہمانہ سلوک روا رکھنا جائیز ہے وہ انسان جسکو صرف شبہات کی بنا پر پا با زنجیر اپنے لا قانونیت کے زنداں میں قید کر رکھا ہے جبکہ وہ کسی طرح نقصان بھی نہیں پہنچا سکتے میرے خیال میں اسلام میں تو ہے ہی پر اسکے علاوہ بھی دیگر مذاہب میں کسی میں بھی اس بات کی کہیں کوئی اجازت نہیں کہ وہ اپنے قیدیوں کے ساتھ اس قسم کا سلوک کریں اور یہ تمام انسانی حقوق کی تنظیمیں اس ظلم پر کیسے اور کیونکر اب تک چشم پوشی اختیار کئے ہوئے ہیں۔
سابق امریکی صدر براک اوبامہ کی کوششیں گوانتاناموبے جیل کو بند کروانے میں تو ناکام رہیں مگر وہ جاتے جاتے اتنا ضرور کر گئے کہ04یمنی قیدیوں کو سعودی عرب کے حوالے کر گئے جنکا تعلق اٹلی ،اومان ،متحدہ عرب امارات اور دیگر ممالک سے ہے یمنی قیدیوں کی حوالگی کے موقعے پر سعودی عرب کے ریاض ایر پورٹ پر رقت آمیز مناظردیکھنے میں آئے قیدیوں کے رہا ہونے کے بعد تاثرات یہ تھے کہ ہم ایک اچھے مستقبل کے لئے خدا سے دُعا گو ہیں اتنے سالوں بعد اپنے گھر خاندان والوں سے ملکر جو خوشی ہوئی وہ نا قابلِ بیان ہے دوسری جانب امریکی نو منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ انتخابی مہم کے دوران گوانتانا موبے سے قیدیوں کی منتقلی کی مسلسل مخالفت کرتے رہے، جبکہ اسی دوران منگل کے روز اپنے ایک ٹوئٹ میں کہا تھا کہ مزید لوگوں کو رہا نا کیا جائے کیونکہ یہ انتہائی خطرناک لوگ ہیں تاہم اسی دوران دو روز قبل اوبامہ انتظامیہ نے ڈونلڈ ٹرمپ کا مطالبہ مسترد کرتے ہوئے گوانتانا موبے جیل بند کرنے کا عندیہ دیا تھا پر تاحال اس پر عملدرآمد ندارد ہیکہا جا رہا تھا کہ صدارت کے دوران تک مزید قیدیوں کورہا کیا جائے گا مگر ٹرمپ انتظامیہ اس پر ڈٹی رہی۔

بہرِکیف اس عقوبت خانے کے واقعات اور کہانیاں کسی بھی ممالک یا کسی بھی تنظیم سے پوشیدہ نہیں سب پر عیاں ہے کہ اس جیل میں امریکہ اسرائیل اور اس جیسے دیگر ہمنواوٗں کی سرکردگی میں یہ تمام معاملات اپنی پوری ظالمانہ ،جابرانہ ،اور پُر تشدد عوامل کے ساتھ جاری و ساری ہیں امریکہ سمیت دنیا کی ان تمام تنظیموں جو کہ اپنے آپ کو انسانی حقوق کا علمبردار کہتی اور ازخود سمجھتی بھی ہیں گوانتاناموبے کے حقائق اس عقوبت خانے کے مناظر اور واقعات ان تمام انسان دوست تنظیموں کی سرگرمیوں پر ایک سوالیہ نشان ہیں اگر وہ حقیقتاََ اپنے آپکو انسانی حقوق کا محافظ گردانتے ہیں تو اس ظُلم کے خلاف عملی اقدامات کر کے اپنے انسانی دوست ہونے کا ثبوت دیں ورنہ ایسی تمام ملکی اور بین الاقوامی فلاح ِ انسانی کی تنظیمیں اپنے اوپر سے انسانی حقوق کا ٹیگ ہٹا کہ ظاہری طور پرخود کو اس عقوبت خانے کے سرکردوں کی صف میں شامل رکھیں اور دنیا کے سامنے عالمی انسانیت کی فلاح کا ڈھونگ اب بند کر دیں ۔

Nida Yousuf Shaikh
About the Author: Nida Yousuf Shaikh Read More Articles by Nida Yousuf Shaikh: 19 Articles with 14348 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.