اس کے باوجود کہ ابھی الیکشن میں ایک سال باقی ہے لیکن
ابھی سے سیاسی محاذ پر گرما گرمی دیکھنے میں آرہی ہے ۔ ایک طرف زرداری جو
سب پر بھاری ہیں ٗ اپنی مردہ پیپلزپارٹی میں جان ڈالنے کی ناکام کوشش کر
رہے ہیں تو دوسری طرف میاں نواز شریف جنہوں نے 1998 ء کے بعد سے سندھ میں
جانا بھی بھول گئے تھے ۔ اب ان کو بھی بقول مولابخش چانڈیو سندھ کی یاد آنے
لگی ہے ۔ عمران خان نے شاید قسم کھا رکھی ہے کہ کام کرنے کی بجائے صرف
الزامات ہی لگاتے رہنا ہے ۔وہ کوئی موقعہ ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔بلاول یہ
کہہ کر کہ جاتی عمر ہ سے بلوچستان پر حکومت کی جارہی ہے بلوچ عوام کو بغاوت
پر اکسا رہے ہیں۔عین اس وقت جبکہ ملک کو سیکورٹی کے حوالے سے بھارت ٗ
افغانستان اور امریکہ کی جانب سے شدید خطرات لاحق ہیں تو ایک سال پہلے ہی
سیاسی محاذ گرم کرنا کہاں کی دانش مندی ہے ۔ قومی سلامتی کے مشیر ناصر
جنجوعہ کہتے ہیں امریکہ بھارت میر ی ٹائم معاہدہ پاکستان کے لیے خطرے کی
گھنٹی ہے ۔ جبکہ بھارت ٗصرف اسرائیل سے 75 ہزار کروڑ کا جدید ترین اسلحہ
اور میزائل سسٹم خرید رہا ہے جس سے اسے پاکستان کے دفاعی نظام پر برتری
حاصل ہوجائے گی۔ روس اور امریکہ سے دفاعی شعبے میں تعاون اور سرپرستی
جوبھارت کو حاصل ہے ٗوہ اس کے علاوہ ہے ۔ بھارت نے اسی پر اکتفانہیں کیا
بلکہ قومی سا لمیت کو نقصان پہنچانے اور سی پیک منصوبے کو ناکام بنانے کے
لیے سندھ اور بلوچستان کے قوم پرستوں کے ذریعے تخریب کاری کا طوفان کھڑا کر
رکھا ہے۔ اس سے قطع نظر بھارتی فوج کا ایک بڑا حصہ پاکستانی سرحد پر نہ صرف
تعینات ہے بلکہ جارحیت کا ارتکاب کرنے کی مشقیں بھی کررہا ہے ٗ کنٹرول لائن
پر ہونیوالی جھڑپیں بھی بھارتی عزائم کو ظاہر کرتی ہیں ۔ اسی طرح افغان
حکمرانوں کی جانب سے کبھی خیر کی خبر نہیں آئی وہ پاکستان کو ہمیشہ دشمن ہی
تصور کرتے ہیں اور افغان سرحد پر ہونے والے بار بار حملوں کے پیچھے افغان
حکمران ہی دکھائی دیتے ہیں۔ جو پاکستان کو بدنام کرنے اور نقصان پہنچانے کا
کوئی موقعہ ہاتھ سے نہیں جانے دیتے ۔ جبکہ پاکستان میں آستین کے کتنے ہی
سانپ حکومتی ایوانوں میں چھپے بیٹھے ہیں۔ جو دشمن کے ایجنڈے کی تکمیل کر نے
میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی جستجو میں ہیں ۔ محمود اچکزئی ٗمولانا فضل
الرحمن ٗ عمران خان ٗ سراج الحق ٗمولانا سمیع الحق ٗ اسفند یار ولی اور
پرویز خٹک جیسے لوگوں کے دلوں میں پاکستان کی بجائے افغانستان کی محبت رچ
بسی ہے ۔نفرتوں کے بیج بونے میں ان شخصیا ت کو کما ل حاصل ہے ۔ حکومت ان کے
خلاف کاروائی کرنے کی بجائے ہمیشہ سے خاموشی کو ہی ترجیح دیتی چلی آرہی ہے
۔نہ جانے کونسی مصلحتیں ہیں جو حکمرانوں کے آڑے آتی ہیں ۔ مجھے یہ کہنے میں
عار محسوس نہیں ہوتی کہ سانپ کا سر اگر بروقت نہ کچلا جائے تو وہ بچے بھی
دے دیتا ہے اور جب افزائش نسل ہوجاتی ہے تو ہر گھر سے ڈسنے کے لیے سانپ
نکلتا ہے ۔ سراج الحق نے جماعت اسلامی کی تاریخ میں پہلی مرتبہ خود کو قوم
پرست لیڈر کہلوانے کے لیے منصورہ میں پختون جرگہ بلایا جس میں پنجاب میں
آپریشن ردالفساد کے تحت پختون کے ساتھ ہونے والے سلوک کے خلاف کھلے لفظوں
میں زہر اگلاگیا ۔ یہ اسی احتجاج کا شاخسانہ تھا جس کی ایک جھلک پنجاب
یونیورسٹی میں جمعیت اور پختون طلبا کے مابین مارپیٹ اور ہنگامہ خیزی کی
شکل میں دیکھنے کو ملی ۔ جلتی پر تیل ڈالنے کا کام ہمارے میڈیا نے بہت خوب
کیا۔ جس کا فوری ردعمل ڈیرہ اسمعیل خاں یونیورسٹی میں بھی دیکھنے میں آیا ۔
خدا کا شکر ہے کہ نفرتوں کا یہ آلاؤ اس سے آگے نہیں بڑھا وگرنہ جو کام
بھارت ٗافغانستان اور امریکہ ابھی تک نہیں کرسکے ٗوہ کام سراج الحق ٗ اسفند
یار ولی اورپرویز خٹک نے کردیا تھا ۔ اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ ٗ وزیر
اعلی سندھ سید مراد علی شاہ اور مولا بخش چانڈیو کی زبان سے کبھی اتفاق ٗ
اتحاد اور یکجہتی کے حوالے سے کوئی ایک لفظ بھی نہیں نکلتا وہ جب بھی بولتے
ہیں تو کفن پھاڑ کر ہی بولتے ہیں ۔ اس وقت ملک انتہائی مشکل حالات کا شکار
ہے ۔ پاکستان میں رہنے والے پنجابی ٗپٹھان ٗ بلوچی اور سندھی سب ایک ہی باپ
کے بیٹے ہیں اگر کسی کے ساتھ زیادتی ہو بھی جاتی ہے تو اس کا اظہار اس طرح
نہیں ہونا چاہیئے کہ دشمن کو تمسخر اڑانے کا موقع ملے ۔ سی پیک منصوبے کو
بے شک ہم گیم چینجر قرار دیتے ہیں اور حقیقت بھی اس کی گواہ دیتی ہے جس کی
کامیابی کے لیے پوری قوم دعائیں کررہی ہے لیکن اس منصوبے میں دنیا کی دو
بڑی سپر طاقتیں چین اور روس منسلک ہورہی ہے جو تجارتی راہداری کے طور پر
گوادر کواستعمال کرنا چاہتی ہیں ۔ بدقسمتی سے دنیا کی سب سے بڑی سپرطاقت
اور فسادی ملک امریکہ افغانستان میں موجود ہے اور اس کا اس خطے سے واپس
جانے کا بھی کوئی ارادہ نہیں ۔ وہ نہ صرف افغانستان میں بیٹھ کر پاکستان کے
خلاف نت نئی سازشیں کررہا ہے بلکہ اس کا دفاعی معاہدہ بھارت کے ساتھ بہت ہی
معنی خیز ہے ۔ امریکہ کبھی نہیں چاہے گا کہ چین اور روس بہت سکون کے ساتھ
گوادر کے ذریعے اپنا تجارتی مال یورپ ٗ مشرقی وسطی اور افریقہ تک پہنچائیں
۔ وہ یقینا کوئی نہ کوئی ایسی سازش کرے گا جس سے بدگمانیاں پیدا ہوں اور
چین اور روس کے مفادات گوادرمیں پورے نہ ہوں ۔ اس مقصد کے لیے فرقہ وارنہ
تعصبات ٗمسلکی اختلافات ٗ صوبائیت اور قوم پرستی جیسے بیج بونے کے لیے اسے
پاکستان میں ہی کرایے کے بیشمار آدمی مل جائیں گے جن کا اثر و رسوخ نہ صرف
عوام ٗ میڈیا اورحکومتی ایوانوں میں بھی ہو ۔اس حوالے سے پیپلز پارٹی کے
سابقہ دور میں جس طرح بغیر ویزے کے امریکی خفیہ ایجنسیوں کے 13 ہزارایجنٹ
پاکستان آئے اور انہوں نے یہاں رہ کر اپنے نٹ ورک کو مکمل کیااور اپنے
ٹارگٹ تک پہنچ کر اسے ختم کرنے میں بھی کامیاب ہوگئے۔ یہ ایک مثال ہے جو
آئندہ بھی دھرائی جاسکتی ہے ۔ کیونکہ پاکستانی سیاست دان ہوں ٗ یا میڈیا
پرسن بکنے کے لیے ہرکوئی تیاربیٹھا ہوا ہے ۔ امریکہ ٗ روس اور چین کا
سرزمین پاکستان میں اکٹھے ہوجانا خطرناک صورت حال کا غماضی کرتا ہے کیونکہ
شام میں بھی امریکہ اور روس آمنے سامنے ہیں اور شام کا جو حال ہوچکا ہے وہ
کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے ۔ یہ ایسے حالات ہیں جن کا مقابلہ کرنے کے لیے
نواز شریف ٗ آصف علی زرداری اور عمران اپنے اختلافات بھلا کر ایک مٹھ ہو
جانا چاہیئے۔یہ ملک رہے گاتو سیاست بھی ہوتی رہے گی۔ جب الیکشن کا بگل بچے
تو بے شک ایک دوسرے پر الزام تراشی کے تیر بھی چلائیں اور عوام کو اپنی
جھوٹی سچی کہانیاں سناکر ووٹ حاصل کرنے کی جستجو کریں لیکن وقت سے پہلے
سیاسی عدم استحکام پیدا کرنا کسی بھی طرح قومی مفاد میں نہیں ہے ۔ |