سیاست یونانی لفظ ’ساس‘ سے مشتق ہے جس کے معنی شہروشہر
نشین کے ہیں ۔اسلام میں سیاست اس فعل کو کہتے ہیں جس کے انجام دینے سے لوگ
اصلاح سے قریب اور فساد سے دور ہو جائیں اہل مغرب فن حکومت کو سیاست کہتے
ہیں امور مملکت کا نظم ونسق برقرار رکھنے والوں کو سیاستدان کہا جاتا
ہے۔لغت میں سیاست کے معنی حکومت چلانا اور لوگوں کی امر و نہی کے ذریعے
اصلاح کرنا ہے ۔اصطلاح میں فن حکومت اور لوگوں کو اصلاح سے قریب اور فساد
سے دو ررکھنے کو سیاست کہتے ہیں ۔قرآن میں سیاست کے معنی حاکم کا لوگوں کے
درمیان حق کے ساتھ فیصلہ کرنا معاشرے کو ظلم و ستم سے نجات دلانا ،امر
بالمعروف و نہی عن المنکر کرنا اور رشوت وغیرہ کو ممنوع قرار دینا ہے ۔حدیث
میں سیاست کے معنی عدل و انصاف اور تعلیم و تربیت کے ہیں ۔ علماء کی نظر
میں رسول اﷲ ﷺ اور خلفائے راشدین ؓ کی سیرت و روش ،استعمار سے جنگ ،مفاصد
سے روکنا ،نصیحت کرنا سیاست ہے ۔فلاسفہ کی نظر میں فن حکومت ،اجتماعی زندگی
کا سلیقہ ،صحیح اخلاق کی ترویج وغیرہ سیاست ہے ۔قرآن کریم میں لفظ سیاست تو
نہیں البتہ ایسی بہت سی آیات موجود ہیں جو سیاست کے مفہوم کو واضح کرتی ہیں
بلکہ قرآن کا بیشتر حصہ سیاست پر مشتمل ہے مثلاََ عدل و انصاف ،امر
بالمعروف و نہی عن المنکر ،مظلوموں سے ہمدردی و حمایت ،ظالم اور ظلم سے
نفرت اور اس کے علاوہ انبیاء کرام کا انداز سیاست بھی قرآن مجید میں بیان
کیا گیا ہے ۔قرآنی آیات کا مفہوم ہے کہ سورۃ بقرہ میں ارشاد ہوتا ہے ’’ان
کے پیغمبر نے کہا کہ اﷲ تعالیٰ نے تمہارے لئے طالوت کو حاکم مقرر کیا ہے
۔ان لوگوں نے کہا کہ یہ کس طرح حکومت کریں گے ان کے پاس تو مال کی فراوانی
نہیں ہے ان سے زیادہ تو ہم حق دارِ حکومت ہیں ۔نبی نے جواب دیا کہ اﷲ
تعالیٰ نے انہیں تمہارے لئے منتخب کیا ہے اور علم و جسم میں وسعت عطا
فرمائی ہے اور اﷲ جسے چاہتا ہے اپنا ملک دے دیتا ہے کہ وہ صاحب وسعت بھی ہے
اور صاحب علم بھی‘‘ اس آیت سے ان لوگوں کے سیاسی فلسفہ کی نفی ہوتی ہے جو
سیاسی مدار کیلئے مال کی فراوانی وغیرہ کو معیار قرار دیتے ہیں سیاسی مدار
کیلئے ذاتی طور پر غنی ہونا کافی نہیں ہے بلکہ اسے عالم و شجاع ہونا چاہئے
۔اس وقت پوری دنیا میں نظام حکومت کا نفا ذ سیاست ہے لیکن عصر حاضر میں
سیاست نے کئی رنگ اپنا لئے ہیں اور ان تمام رنگوں میں سے اس کا ایک رنگ بہت
ہولناک ہے جس کو مادیت کا نام دیا گیا ہے ۔سیاست اور سیاسی اقدار کے متعلق
تو میں نے پہلے سے ہی گزارشات پیش کر دیں ہیں لیکن یہاں سیاست کی تعریف بدل
جاتی ہے ماد یت کی سیاست کو ہم یوں بھی بیان کر سکتے ہیں کہ ایسا طرز حکومت
جس میں لوگوں سے اخلاقی اسلوب چھین لئے جائیں ،بنیادی حقوق کی فراہمی غصب
کر لی جائے ،لوگوں کی خون پسینے کی کمائی لوٹ لی جائے ،سود اور رشوت جیسی
لعنت پر معاشرے کی معیشت کا انحصار ہو ،حاکم کا معیار دولت اور طاقت ہو
جبکہ حکومت کا معیار صرف ظلم ہو ،نظام عدل غرور وتکبر کے سامنے سر جھکا چکا
ہو ،امر بالمعروف و نہی عن المنکر سے انکار ہو ۔نبی کریم ﷺ اور خلفائے
راشدین کے ادوار میں اخلاقی اقدار کا عروج تھا ایسا عروج کے اگر اس وقت
افلاطون ،سقراط اور زکرگس بھی زندہ ہوتے تو خود کو بہت پست محسوس کرتے
۔انہیں اخلاقی اقدار کی بدولت ہی اسلام پوری دنیا میں پھیلا کہ جب لوگو ں
کو ایسی زندگی جینا سکھایا گیا جس میں در گزر ہو ،عدل و انصاف کا معیار یہ
ہو کہ کسی کو اونٹ کی رسّی بھی نہ ہڑپنے دی جائے اور کسی کا ایک ٹکے کا بھی
استحصال نہ کیا جائے ،سچ ثابت کرنا اتنا آسان ہو کہ جھوٹ کو گزرنے کی جگہ
بھی نہ ملے ، رعایا کو تمام بنیادی حقوق میسر ہوں اور ایک محفوظ اخلاقی
کمال کو چھوتا ہوا معاشرہ ملے ، تعلیم و تربیت اور شعور کا یہ عالم ہو کہ
پیش کی جانے والی حکایات صدیوں تک نسلوں کے کام آئیں ،معیشت کا دارو مدار
فقط حلال ہو جس میں رائی برابر بھی شک نہ ہو ،بڑوں کی عزت چھوٹوں سے پیار
ہو ،ایثار و قربانی کی تڑپ انسان کو انسان کے قریب کر دے کوہ بہ کوہ
انسانیت کا روشن ستارہ ہو ۔لیکن افسوس ہے کہ ہم ان تمام تعلیمات کے ہوتے
ہوئے بھی لا حاصل رہے جس سیاست کو ہمارے نبی آخرالزماں محمد الرسول اﷲ ﷺ نے
عبادت سمجھ کر کیا اور اس کی سوجھ بوجھ دی ہم اسی سیاست کو بدنام کر رہے
ہیں ۔حضرت سلیمان ؑ کے دور میں جب سود حد سے بڑھ گیا تو زمین پر شیاطین
اترے جو نا فرمانوں کے جسم میں سما کر فتنہ وفساد برپا کرنے لگے اور ایک
دوسرے کے قتال پر آمادہ کر کے خونریزی کروائی اس وقت اﷲ تعالیٰ نے حضرت
سلیمانؑ کو جنات پر قابو پانے کی عنایت فرمائی اور ہوا کو آپ کیلئے مسخر کر
دیا ۔آج ہمارے درمیان اسی سودو زیاں اور رشوت نے جنم لیا ہوا ہے تو کیوں نہ
ہمارے درمیاں فتنہ پید ا ہو لیکن جب تک ہمارے قلوب کالے رہیں گے تب تک
شیطان ہمیں ورغلاتا رہے گا اور ہمیں کبھی چین نہیں کرنے دے گا۔ افسوس کہ
کہاں سے لائیں ایسے حاکم جو لوگو ں کو بتلا سکیں کہ ہم پر یہ قتال اور فتنے
کا عذا ب کیوں مسلط ہے ۔تاجروں کے ہاتھ میں ملک کی باگ ڈور ہے اور وہ بھی
ایسے تاجر جو سود خور ہیں جن کے ہاتھ میں سیاست تو آئی لیکن انہوں نے اس کو
عبادت سمجھ کر کرنے کی بجائے مادیت بنا لیا ہے ۔ان لوگوں نے سیاست کو ایک
ایسی طوائف بنا دیا ہے جسکا تماشا تو سب دیکھنا چاہیں گے لیکن اپنانا کوئی
نہیں چاہے گا جسکی مثال ہمیں اپنی عام زندگی میں ملتی ہے کہ گلی کوچے کے
کسی بھی شریف اور ایماندار شخص کو کونسلر بننے کیلئے درخواست کی جائے تو وہ
سر پر ٹوپی لئے با وضو ہو کر جواب دیتا ہے کہ سیاست تو غنڈے ،لٹیرے اور
ڈاکو کر سکتے ہیں ہم جیسے شریف لوگ نہیں جو کہ ہماری قوم ،اس معاشرے اور
آئندہ نسلوں کیلئے تصفیہ طلب المیہ ہے ۔عام انتخابات قریب آ چکے ہیں ایک
بار پھر سے قوم کو موقع ملے گا کہ وہ اپنے وطن کی خاطر ،اپنے معاشرے کی
خاطر ،اپنے حقوق کیلئے اور اپنی آئندہ آنے والی نسلوں کیلئے کیا بیج بوتے
ہیں کیونکہ ہمیں تاجروں یا ایسے لوگوں کی ضرورت نہیں جو مادیت پسند ہوں
بلکہ ایسے لوگو ں کی ضرورت ہے جو عالم و شجاع ہوں اور اس کے ہر کردار سے
اسلام کی ترویج ملے ۔چونکہ انسان خود بخود مندرجہ بالا امور سے عہدہ برآ
نہیں ہو سکتا لہٰذا کسی ایسے قانون کی ضرورت ہے جو انسانوں کو بہترین زندگی
کا سلیقہ سکھائے جس کو دین کہتے ہیں اسی لئے ہمیں با دین حاکم کی ضرورت ہے
لادین کی نہیں !ہمیں قرآنی تعلیمات اور احادیث کی روشنی میں اپنے نظام
حکومت کو مکمل کرنے کی ضرورت ہے ۔ |