پیپلز پارٹی کے تین رہنماؤں ڈاکٹر عاصم حسین، حامد سعید
کاظمی اور شرجیل میمن پر بالترتیب 481 ارب، 880 کروڑ اور 500 کروڑ روپے کی
کرپشن کے کیسز ہیں بلکہ تھے۔ پہلے دو موصوف خدا کے کرم سے تقریباً رہا
ہوچکے ہیں اور شرجیل میمن صاحب کو بھی سندھی قوم نے عدالت کے فیصلے سے پہلے
ہی سونے کا تاج پہنا کر رہائی کی نوید سنا دی ہے۔ ڈاکٹر عاصم صاحب اور حامد
سعید کاظمی جیسے بزرگوں کو میں خراج تحسین پیش کرتا ہوں جو انہوں نے بڑھاپے
میں ہی جیل کی ہوائیں کھائیں۔
جیل کی ہوائیں ان بزرگوں کیوں نصیب ہوئیں یہ وہی دونوں بہتر جانتے ہیں
کیونکہ کرپشن کا پیسہ تو گم ہوا ہے اور وہ کوئی دو چار کروڑ روپے نہیں شاید
ہم جیسے مڈل کلاس کی دس نسلوں کے لیے دو چار کروڑ بھی کسی عظیم نعمت سے کم
نہیں لیکن ان حضرات پر سینکڑوں کروڑ نہیں بلکہ سینکڑوں ارب کے کیسز ہیں۔ یہ
لوگ ہی بہتر بتا سکتے ہیں کہ یہ کرپشن کیوں ہوئی اور قوم کا پیسہ کہاں گیا۔
شرجیل میمن صاحب گرفتار ہوئے دو گھنٹے بعد رہا ہوئے اور اس کے بعد جگا
بدمعاش کی طرح دھمکیاں دے رہے تھے لیکن موصوف کی یہ بھبھکیاں اس غریب قوم
کے لیے ہو سکتی ہیں۔ پچھلے دنوں برطانیہ سے موصوف کی ایک ویڈیو وائرل ہوئی
جس میں ایک پاکستانی نوجوان کھلے عام سڑک پر گالیاں دے رہا ہے اور موصوف
گیدڑ کی طرح اپنی سپیڈ تیز کر کے بھاگے جا رہے ہیں۔ وہاں اتنی جرات نہیں
ہوئی کہ اسے چیلنج کریں۔ ایسا نہیں ہو سکتا کیونکہ وہاں حقیقی جمہوریت ہے
اور یہاں پر جمہوری آمریت۔
زرداری صاحب انٹرنیشنل سیاستدان ہیں لیکن ان کے رویے سے یہی لگ رہا ہے کہ
وہ انٹرنیشنل ڈان ہیں اور وہ قومی چینل پر بیٹھ کر اداروں کو سرعام تنبیہہ
کرتے ہیں اور حکومت کو چیلنج کرتے ہیں۔ جلسوں میں حکومت کے خلاف عجیب قسم
کے نعرے پیش کرتے ہیں اور اپنی کابینہ کو بے گناہ کہتے ہیں اور خود کو دھلا
ہوا کہتے ہیں۔ یہ بادشاہی والے رویے ضرور اس دور کے مطابق ہیں لیکن قوم کا
کیا قصور ہے کہ وطن کے لیے بچے بڑے گنوا رہی ہے ان لوگوں کا کھیل بنا ہوا
ہے۔
یہ اربوں روپے تو ملک کے ایک صوبے کے سالانہ بجٹ جتنا ہیں۔ گذشتہ سالوں میں
سندھ میں پانی کی کمی کی وجہ سے سینکڑوں انسان پانی کی پیاس میں بلکتے مر
گئے لیکن ان کو وہاں وارننگ، چیلنج تنبیہات یاد نہ آئیں۔ اب بھی سندھ سے
لے کر بلوچستان تک لوگوں کو پینے کا پانی تک میسر نہیں کیا ان کے لیے کوئی
ہمدردی یاد نہیں۔ ہر روز ملک میں درجنوں افراد غربت کی وجہ سے خودکشیاں کر
رہے ہیں وہ یاد نہیں رہیں۔ لوگوں کو شاید اب اس عدلیہ، حکومت، مقننہ،
انتظامیہ سے کوئی غرض نہیں رہی جو اپنے شہریوں کے حقوق پورے کرنا ہی نہیں
چاہتے۔
یہ تو حقیقیت تسلیم کرنی ہوگی کہ اتنا پیسہ کہیں غائب تو ہوا جو ریکور بھی
نہیں ہو سکا اور ملزمان نے اپنی جان جوکھوں میں ڈال کر جیل اور حوالات میں
صبر و استقامت کا مظاہرہ کر کے قوم کے اس پیسے کو ہضم کرنے میں بڑا مشکل
وقت گزارا۔ قوم کی امیدیں اور رویے اب تبدیل ہو رہے ہیں۔ قو کا اعتماد
حکومت سے ہی نہیں بلکہ عدلیہ اور فوج سے بھی اٹھ چکا ہے۔ اس اعتماد کو
شرلیوں سے بحال تو ستر سال میں کیا جاتا رہا ہے لیکن ہو سکتا ہے آنے والے
سالوں میں یہ قوم جمہوری نعرے کی زد میں آنے کی بجائے کوئی اور راستہ چنے
ورنہ ارباب اختیار کو چاہیئے کہ قوم کا اعتماد بحال کریں۔ سیاستدانوں اور
لیڈروں کو چاہیئے اپنے ہم جماعتیوں کی کرپشن کو چھپانے کی بجائے انہیں
عدالت میں کھڑا کریں۔ اگر برطانیہ اور امریکہ کے حکمران عوام کو بنیادی
سہولیات فراہم کر کے اور بغیر کرپشن کے آدھی دنیا پر راج کر سکتے ہیں تو
ہمارے سیاستدان بھی ابھی تک جمع کی گئی رقم پر اپنی زندگی ان سے اچھی گزار
سکتے ہیں۔ |