جعلی صحافیوں کے خلاف کریک ڈاؤن

سوشل میڈیا کی ایک سائیٹ پر میرے ایک صحافی دوست نے ایک پوسٹ اپنی ٹائم لائن پر لگائی جس کو پڑھنے کے بعد میرے دل میں خیال آیا کہ اس سے متعلق کچھ لکھا جائے پوسٹ کی تحریر کچھ یوں تھی کہ ـ"حکومت پاکستان جعلی صحافیوں کے خلاف کریک ڈاؤن کرنے والی ہے "یقینا ً یہ خبر میرے لئے تو باعث راحت تھی لیکن پھر ڈر رہا تھا کہ جس طرح جعلی ڈاکٹروں اور حکیموں کے خلاف کریک ڈاؤن تو کیا گیا اور خاصا کامیاب بھی رہا لیکن اس کے باوجود کہیں کہیں یہ جعلی ڈاکٹر اوح حکیم دوبارہ سے اپنی دکانداری سجا کر بیٹھ گئے ہیں شاید اس کی بڑی وجہ ہمارے ملک میں کرپشن کا عام ہونا ہے اگر ہم ملک کو صحیح سمت پہ لانا چاہتے ہیں تو ہمیں سب سے پہلے ملک سے کرپشن کے خاتمے کے لئے کام کرنا ہو گا۔ بلکہ اصل سند یافتہ ڈاکٹروں اور حکیموں کے خلاف بھی گھیرا تنگ کیا گیا جس سے وہ اپنے پیشے کو چھوڑنے پر مجبور ہو گئے ہونا تو ایسا چاہیئے تھا کہ ان ڈاکٹروں کو اپنی تعلیم بہتر کر نے کا موقعہ دیا جاتا ۔ہومیو ڈاکٹروں اور حکیموں کو بھی اپنی تعلیم پرخود بھی توجہ دینی چاہیئے۔تا کہ وہ وقت کے بدلتے تیور کے ساتھ اپنے آپ کو بھی بہتر کر سکیں۔

حکومت کا بھی فرض ہے کہ وہ اپنے شہریوں کے لئے بہتر مواقع فراہم کرے اور سند یافتہ ہومیو پیتھک ڈاکٹروں اور حکیموں کو بھی اپنی تعلیم بہتر کرنے کا موقع ضرور دے کیونکہ وہ سالہا سال سے اسی پیشے سے منسلک ہیں اور اس ے عالوہ وہ اور کچھ کرنے کے قابل بھی نہیں ہیں۔ ۔امید کرتا ہوں کہ حکومت ان کے بارے میں بھی ضرور سوچ و بچار کرے گی کیونکہ ملک میں پہلے ہی بے روز گاری کا جن قابو میں نہیں آ رہا۔اور ایسے میں ان سند یافتہ ہومیو پیتھک ڈاکٹروں اور حکیموں پر پابندی مزید بے روز گاروں میں اضافے کا سبب بنے گی۔اس پر حکومت وقت کو سوچنا چاہیئے۔

بات چل رہی تھی کہ اب جعلی صحافیوں کے خلاف بھی حکومت کریک ڈاؤن کا فیصلہ کر چکی ہے اور یہ درست فیصلہ ہے کیونکہ یہ جعلی صحافی سند یافتہ صحافیوں کو بد نام کر رہے ہیں یہ جعلی صحافی زرد صحافت اور بلیک میلنگ میں ملوث ہوتے ہیں اور خواہ مخواہ لوگوں کو تنگ کرتے رہتے ہیں ۔ان کا یقیناً خاتمہ ضروری ہے تاکہ ملک میں صاف ستھری اور آزادانہ صحافت کو فروغ مل سکے۔لیکن خیال کیا جائے کہ جو صحافی سند یافتہ اور پڑھے لکھے ہیں ان پر کوئی قدغن نہ لگائی جائے اور ان کے گردکوئی حصار نہ بنایا جائے جس سے ان کی آزادی کو ٹھیس پہنچے ۔

ہر صحافی کا فرض ہے کہ وہ اپنے پیشے کے ساتھ انصاف کرے اور اپنے ہاتھ سے سچائی کا دامن نہ چھوڑے۔یہاں مجھے افسوس سے کہنا پڑے گا کہ کچھ سند یافتہ صحافی بھی زرد صحافت کو فروغ دیتے ہیں جو پیشے سے نا انصافی ہے ۔اس میں کوئی شک نہیں کہ زیادہ تر صحافی ایماندار ،سچے اور انصاف پسند ہیں لیکن زرد صحافت کے ماننے والے بھی کم نہیں !اس لئے حکومت جہاں جعلی صحافیوں کے خلاف کاروائی کرنے جا رہی ہے وہاں ان زرد صحافت کے علمداروں کے خلاف بھی محاسبہ تنگ کیا جائے۔تاکہ ملک میں آزاد صحافت کو فروغ ملے ۔

ہر صحافی اپنے نقطہ نظر سے لکھتا ہے اور یہ اس کا حق بھی ہے کہ وہ جو سوچتا ہے اسے منظر عام پر بھی لائے لیکن خیال رکھے کہ کسی شخص یا ادارے کو براہ راست نشانہ نہ بنایا جائے۔صحافی کسی بھی ملک کے لئے ایک قیمتی سرمایہ ہیں۔صحافت ایک معتبر پیشہ ہے اور جعلی صحافیوں نے اسکو بد نام کر دیا ہے جس سے عام آ دمی کے ذہن میں صحافی بلیک میل ہوتے ہیں یقیناً ایسا نہیں، گنتی کے چند لوگ ایسے ہیں جو صحافت کو بدنام کرتے ہیں ان کا محاسبہ بھی ضروری ہے بلکہ صحافیوں کا فرض بنتا ہے کہ وہ اپنی صفٖ میں موجود ایسے افراد کی نشاندہی کریں تاکہ ان کو اپنے انجام تک پہنچایا جائے۔یہ بھی ایک جرم ہے اور جرم کرنے والے کو جو سزا دی جاتی ہے ایسے شخص کو بھی سخت سزا دی جائے تاکہ آئیندہ کوئی اس کا مرتکب نہ ہو سکے۔

آخر میں یہی کہوں گا کہ ملک سے ہر قسم کی برائی کا خاتمہ کرنا ضروری ہے لیکن اس کی آڑ میں کسی شخص کو نشانہ نہ بنایا جائے ۔امید ہے کہ تمام صحافی حکومت کے اس اقدام پر خوش ہوں گے تا کہ ان کے مقدس پیشے کو بد نام کرنے والوں کا قلم قمع ہو سکے،اﷲ تعالیٰ میرے وطن کو ہمیشہ قائم و دائم رکھے ۔پاکستان زندہ باد۔

H/Dr Ch Tanweer Sarwar
About the Author: H/Dr Ch Tanweer Sarwar Read More Articles by H/Dr Ch Tanweer Sarwar: 320 Articles with 1840921 views I am homeo physician,writer,author,graphic designer and poet.I have written five computer books.I like also read islamic books.I love recite Quran dai.. View More