جیسا كہ بیان كیا جا چكا ہے قرآن كے سلسلہ
میں مجموعہ روایات 1 سے جو درجہ بندی سامنے آئی ہے وہ گھر میں قرآن ركھنے
سے شروع ہو كر بالاترین درجہ یعنی اس پر عمل كرنے پر جاكر ختم ہوتی ہے۔
قرآن كے علم كے مراتب اور اس كے بطون (جیسا كہ تفصیلی طور پر اس كے بارے
میں گفتگو ہوگی) مندرجہ ذیل ہیں:
الف) گھروں میں قرآن ركھنا
ب) قرآنی آیتوں كی طرف دیكھنا
ج) آیات قرآنی كو غور سے سننا
د) تلاوت قرآن
ھ) قرآن میں غور و فكر كرنا
) قرآن پر عمل كرنا
ذكورہ بالا مرحلوں كے سلسلوں میں بہت سی احادیث پائی جاتی ہیں كہ ان میں سے
ہر مرحلہ كے لئے چند روایت كو بطور نمونہ پیش كیا جائے گا اور كوشش ہوگی كہ
روایت كے انتخاب میں معتبر سند كا خاص خیال ركھا جائے البتہ ہر مرحلہ میں
اتنی روایتیں پائی جاتی ہیں كہ ان كا معصوم سے صادر ہونے كا احتمال تقویت
پاتا ہے۔
الف) قرآن گھروں میں ركھنا
پرانے زمانے سے كسی مخصوص چیز كو متبرك جاننا اور اسے گھروں میں ركھنا
ہمارے معاشرہ میں مرسوم ہے۔ قرآن كو گھروں میں ركھنے كی جو سفارش ہماری
روایتوں میں ملتی ہے شاید اس كی ایك علت یہ ہو كہ كسی خرافاتی چیز كو متبرك
جاننے كے بجائے لوگ كلام الہی سے متبرك ہوں اس لئے امام صادق (ع) فرماتے
ہیں: "انہ لیعجبنی ان یكون فی البیت مصحف یطرد اللہ عزوجل بہ الشیاطین"۔
مجهے تعجب ہوتا ہے كہ گھر میں قرآن ہو اور اس كے ذریعے خداوند شیاطین كو
دور كرتا ہے۔
قرآن سے انسیت كا سب سے نچلا درجہ جیسا كہ بیان كیا جا چكا یہ ہے كہ اس كو
گھروں میں ركھا جائے تاكہ اگر كوئی اپنے آپ كو كسی بھی طرح سے قرآن سے
مرتبط نہیں ركھ سكتا ہے تو حداقل اسے گھر میں ركهے۔ حتیٰ اگر یہ معنی بھی
امام كے ملحوظ نظر نہ ہو تو تب بھی قرآن كا گھروں میں ركھنا انسان كی مصلحت
كے تحت ہے جیسا كہ روایت میں اشارہ ہوا ہے۔
بعض روایتیں ایسی بھی پائی جاتی ہیں جو اس روایت سے تعارض ركھتی ہیں جس میں
قرآن كو دیكهے بغیر یا اس كی تلاوت كئے بغیر گھروں میں ركھنے سے مذمت كی
گئی ہے۔
لیكن جیسا كہ بیان كیا جا چكا ہے اس تعارض كا حل لوگوں كے مراتب مختلف ہونے
كی وجہ سے ہے۔ مشخص ہے اگر كوئی شخص قرآن كو دیكھنے یا اس كی تلاوت كی قدرت
نہیں ركھتا تو حداقل جو كام وہ كرسكتا ہے وہ یہ ہے كہ اس كو گھر میں ركھے
اور اس طرح كے نمونہ معاشرہ میں پائے جاتے ہیں عین نماز كی طرح كہ اگر كوئی
پڑھنے سے عاجز ہے تو كم سے كم اشارہ كے ذریعہ بجا لائے۔
ب) قرآن كی طرف دیكھنا
قرآن كی طرف دیكھنے كے سلسلہ میں بعض ایسی روایتیں پائی جاتی ہیں جو اسے
ایك طرح كی عبادت شمار كرتی ہیں۔ حضرت ابوذر (رح) رسول خدا (ص) سے نقل كرتے
ہیں كہ آپ نے فرمایا: "قرآن مجید كی طرف دیكھنا عبادت ہے"
پیغمبر اكرم (ص) سے منقول دوسری روایتوں میں ملتا ہے "اعطوا اعینكم حظھا من
العبادة قالوا: و ماحظھا من العبادة؟ قال: النظر فی المصحف و التفكر فیہ و
الاعتبار عند عجائبہ"
تمھاری آنكھیں ہیں عبادت میں كچھ حصہ ركھتی ہیں اسے ادا كرو سوال كیا گیا:
عبادت میں ان كا حصہ كیا ہے؟ فرمایا:
قرآن كی طرف دیكھنا اس میں تدبر كرنا اور اس كے عجائب سے عبرت حاصل كرنا۔
البتہ دوسری روایت میں قرآن میں غور و خوض پر بھی دلالت كرتی ہے جو مراحل
بالاتر میں سے ہے لیكن روایت ابوذر (رح) كے پیش نظر اگر كوئی صرف قرآن كی
طرف دیكهے بھی تو ایك طرح كی عبادت ہے اور دوسری روایت پہلی روایت كے اطلاق
كو مقید نہیں كر رہی ہے، چونكہ خارجی موجود ہے۔ جب قرآن كو گھر میں ركهنے
كی سفارش كی گئی ہے تو لامحالہ اسكی آیات كی طرف دیكھنا بھی اہمیت فراواں
ركھتا ہے۔ |