میرے ایک محترم بھائی نے اولیاء
اللہ کی ذات کے وسیلے کے سلسلہ میں ابن ماجہ کی ایک حدیث تحریر کی تھی۔
میرا یہ کالم اسی تحریر کا جواب ہے۔ آپ نے ابن ماجہ کی حدیث نمبر 1385 کو
وسیلہ کے ثبوت میں بیان کیا ہے۔ جناب یہ حدیث تو میرے موقف کی تائید کر رہی
ہے آپ کے نہیں۔ پوری حدیث لکھ دوں تاکہ پڑھنے والوں پر آپ کا جھوٹ ظاہر ہو
جائے۔
" ایک نابینا مرد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور
درخواست کی کہ اللہ سے میرے لیے عافیت کی اور تندرستی کی دعا مانگیے۔ آپ نے
فرمایا اگر چاہو تو آخرت کے لیے دعا مانگوں یہ تمہارے لیے بہتر ہے اور چاہو
تو (ابھی) دعا کردوں۔ اس نے عرض کیا دعا فرما دیجیے۔ آپ نے فرمایا کہ اچھی
طرح وضو کرو اور دو رکعتیں پڑھ کر یہ دعا مانگو(اللهم اني أسالك و أتوجه
اليك بمحمد نبي الرحمة يا محمد اني قد توجهت بك الى ربي في حاجتي هذه لتقضي
اللهم شفعه في)
آپ سے درخواست کرتا ہوں کہ ذرا وضاحت کر دیجیے کہ صحابی نے کیا درخواست کی
اگر آپ کا جواب یہ ہے کہ دعا کی تو میرا اگلا سوال ہے کہ دعا کس سے کی جاتی
ہے۔ دوسری بات یہ بتائیں کہ اس دعا میں وسیلہ کا لفظ کہاں استعمال ہوا ہے۔
اور اگر ہوا ہے تو کیا ان الفاظ کے ساتھ کہ "اے اللہ میں نبی کی ذات کے
وسیلے سے دعا مانگتا ہوں" میں یہ ثابت کرتا ہوں کہ اس صحابی نے نبی پاک کی
دعا کا وسیلہ اختیار کیا ذات کا نہیں بلکہ دعا کا وسیلہ اختیار کیا۔ پہلے
ترجمہ پیش خدمت ہے " اے اللہ میں آپ سے سوال کرتا ہوں اور آپ کی طرف متوجہ
ہوتا ہوں رحمت والے نبی (کی دعا) کے وسیلے سے۔ اے محمد میں نے آپ صلی اللہ
علیہ وسلم (کی دعا) کے وسیلے سے اپنے پروردگار کی طرف توجہ کی اپنی اس حاجت
کے سلسلہ میں تاکہ یہ حاجت پوری ہو جائے۔ اے اللہ نبی پاک کی سفارش (دعا)
میرے بارے میں قبول فرما لیجیے۔ یہ بھی یاد رکھیے گا کہ وسیلے کے لیے (بمحمد)
استعمال ہوا (بوسیلہ محمد) نہیں
اب میں اپنی بات کی مزید وضاحت کر دوں۔ صحابی نے کیا درخواست کی (دعا کی)۔
نبی پاک نے کیا جواب دیا۔ ( آخرت کے لیے دعا مانگوں یا ابھی دعا کر
دوں)صحابی نے کیا جواب دیا (دعا فرما دیجیے)۔ اسی لیے دعا کے آخر میں صحابی
نے اللہ تعالیٰ سے عرض کی اے اللہ میرے حق میں نبی پاک کی وہ سفارش بھی
قبول کر لیں جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کی خدمت میں پیش کی ہے۔ یہ
سفارش بھی اس لیے تھی کہ نبی پاک اس وقت موجود تھے اور صحابی نے دعا کی
درخواست کی تھی۔ اور اب حدیث نمبر 1384 بھی پیش کرتا ہوں جس میں ہر مسلمان
کو دعا کا طریقہ بتایا گیا ہے ( یہاں یہ بھی عرض کر دوں کہ یہ دونوں احادیث
صلوة الحاجة کے عنوان کے تحت دی گئی ہیں)
" حضرت عبداللہ بن ابی فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے
پاس تشریف لائے اور فرمایا جس کو اللہ جل جلالہ سے یا اس کی مخلوق سے کوئی
حاجت ہو تو وہ وضو کر کے دو رکعتیں پڑھے پھر یہ دعا مانگے حلم اور کرم والے
اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں۔ بڑے تخت کا مالک اللہ پاک ہے تمام تعریفیں
اللہ کے لیے ہیں۔ اے اللہ میں آپ کی رحمت کے اسباب مانگتا ہوں اور وہ اعمال
جو آپ کی مغفرت اور بخشش کو لازم کر دیں۔ اور ہر نیکی کی طرف لانا اور ہر
گناہ سے سلامتی اور میں آپ سے سوال کرتا ہوں کہ بلا مغفرت کیے میرا کوئی
گناہ نہ چھوڑیے اور میری ہر فکر کو دور کر دیجیے اور میری ہر حاجت جس میں
آپ کی رضا ہو پوری فرما دیجیے۔ پھر اللہ تعالیٰ سے دنیا آخرت کی جو چیز
چاہے مانگیے اللہ تعالیٰ اس کے لیے مقدر فرما دیں گے۔"
پہلی بات دیکھیں کہ اس دعا میں صرف اللہ کی رحمت اور دعا کا وسیلہ اختیار
کیا گیا ہے۔ نبی پاک کی ذات اقدس سمیت کسی انسان کی ذات کا نہیں۔ دوسری بات
یہ کہ آپ اپنی کسی بھی حاجت کا تصور کریں اس کی دعا اس حدیث میں موجود ہے۔
کسی انسان کی ذات کا وسیلہ اختیار کرنے والوں کے لیے یہ دونوں احادیث ہی
کافی ہیں۔ میرے ایک محترم بھائی نے وسیلہ کے بارے میں 3 حصوں میں جو کالم
لکھا ہے اس کے رد کے لیے میری یہ کاوش اور جناب محد دانش کا کالم " وسیلہ
شرک" پڑھ لیں۔ اللہ ہم سب کی صحیح دین کی طرف رہنمائی فرمائے۔ آمین |