راتوں رات امیر ہونے کا منفرد طریقہ

کوئی زمانہ تھاکہ لوگ راتوں رات امیر ہونے کے لیے زمین کے نیچے دفن خزانوں کی تلاش کی جستجو میں رہاکرتے تھے پھر جسے خزانہ مل جاتا اس کے دن بدل جاتے ۔اب زمین میں دفن خزانے کی بازگشت کہیں سنائی نہیں دیتی لیکن آج بھی امیر ہونے کا ایک منفرد طریقہ دریافت ہوا ہے ۔ جس پر عمل کرتے ہوئے بے شمار کنگلے افراد بھی کروڑ بلکہ ارب پتی ہوچکے ہیں ۔ آج کل ان کا شمار ملک کے امیر ترین بلکہ مخیر ترین افراد میں ہوتا ہے ۔ایک اچانک مجھے گھر کے ایڈریس پر ایک شادی کارڈ موصول ہوا ۔یہ شادی کیا تھا بلکہ پرفیوم کا ڈبہ محسوس ہورہا تھا جب اسے کھول کردیکھا تو ایک شناسا دوست کی بیٹی کی شادی کا یہ کارڈ تھا ۔ یہاں یہ عرض کرتا چلوں کہ میرا یہ دوست چند سال پہلے تک میرے ساتھ ہی ایک ادارے میں ملازمت کیاکرتے تھے ۔ریٹائرمنٹ کے بعد انہوں نے اپنے بقایا جات کی رقم کو پراپرٹی میں انویسٹ کیا اور ڈی ایچ اے چھ میں ایک شاندار دفتر قائم کرکے خود مینجنگ پارٹنر بن بیٹھے ۔ایک دن فون پر ان سے بات ہوئی توانہوں نے بتایا کہ میں نے 16 لاکھ انویسٹ کیے تھے جو چند سالوں میں ہی 16 کروڑ تک جاپہنچے ۔پھر انہوں نے فیملی سمیت ورلڈ ٹور ( دنیا کی سیرو سیاحت )کا پروگرام بنایا اور پتہ نہیں کس کس ملک میں وہ فیملی سمیت انجوائے کرتے رہے ۔قصہ مختصر میں جب انکی بیٹی کی شادی میں پہنچا تو گاڑیوں کی اتنی لمبی قطار وہاں دکھائی دی جیسے لاہور کی ایلیٹ کلاس اسی شادی میں شریک ہے ۔ حسن اتفاق سے میں نے ایک ارب پتی شخص کا انٹرویو کیا میں بھی جب اس کے گھر پہنچا توایک کینال پر عالیشان محل کو دیکھ کر حیران رہ گیا میں سمجھا شاید بیوی بچے بھی بالائی منزل پر ہی رہتے ہوں گے انہوں نے تردید کرتے ہوئے بتایا کہ فیملی کے لیے ایک اور عالیشان بنگلہ تعمیر کیاہے ۔میں نے پوچھا ہم جہاں بیٹھے ہیں اس بنگلے کی مالیت کیاہوگی اس نے بتایا کہ پانچ کروڑ سے کم نہیں ہوگی ۔ بات ہی بات میں پوچھا کہ آپ کی کامیابیوں کا راز کیا ہے اس نے فخریہ انداز سے بتایا کہ وہ چند سال پہلے ضلع فیصل آباد کے کسی گاؤں سے 2900 روپے جیب میں ڈال کر لاہور آئے تھے یہاں انہوں نے پراپرٹی کا کاروبار شروع کیا اﷲ تعالیٰ نے اس کاروبار میں اتنی برکت ڈالی کہ میں خود دو چار لاکھ روپے ماہانہ ضرورت مندوں میں خیرات کرتا ہوں گویا اب ان کا شمار ارب پتی اور بڑے بزنس مینوں میں ہوتا ہے ۔پیسے کی اس قدر ریل پیل ہے کہ اب اس نے صوبائی اسمبلی کا الیکشن لڑنے کی منصوبہ بندی کررکھی ہے ۔بحریہ ٹاؤن کے ملک ریاض کو اب شاید ہی کوئی نہ جانتا ہو، آج کل ان کا شمار ایشیا کے امیر ترین افرادمیں ہوتا ہے ۔ان کی کامیابیوں کی مثال اس طرح دی جاسکتی ہے کہ بحریہ ٹاؤن کا نام ہی کامیابی کی ضمانت بن چکا ہے وہ جب بھی کوئی پراجیکٹ متعارف کرواتے ہیں تو چھوٹے بڑے پراپرٹی ڈیلر انکی فائلیں خرید کر ہی راتوں رات امیر ہوجاتے ہیں ۔میرے مشاہدے میں ایک اور پراپرٹی ڈویلپر ہے جن کو لوگ پیار سے حاجی چھرا کہہ کر پکارتے ہیں یہ شخص اپنے نام کی مناسبت سے ہی کام دکھاتے ہیں ۔ یہ پلاٹ خرید کر ان پر مکانات تعمیر کرتے ہیں اور فروخت کردیتے ہیں ۔سال میں دو یا تین بار عمرہ ضرور کرتے ہیں حج بھی انہوں نے چار پانچ کررکھے ہیں ۔والد کی کامیابیوں کو دیکھتے ہوئے بیٹے بھی تعلیم حاصل کرنے کی بجائے پراپرٹی کے کاروبار میں ہی شریک ہوچکے ہیں ۔ میں ایک مرتبہ مکان دیکھنے کے لیے جوہر ٹاؤن گیا وہاں ایک پراپرٹی دفتر دکھائی دیاجس میں داخل ہوا تو میرے ہی علاقے کاایک ناظم جو انڈر میٹرک تھا۔ پراپرٹی بلڈر کے روپ میں بیٹھا نظر آیا میں اس کی شان و شوکت دیکھ کر ششدر رہ گیا وہ مجھے اپنے گھر لے گیا جس میں اس نے اپنی دوسری بیوی کو رکھاہوا تھا دفتر اور گھر دونوں اپنی مثال آپ تھے ۔ وہ مجھے بہت اچھی طرح جانتا تھا کہ میں رائٹر ہوں 60 کے قریب کتابیں بھی میں نے تصنیف اور تالیف کی ہیں ۔اس نے طنزیہ لہجے میں پوچھا آپ نے کتنی کتابیں لکھی ہیں میں نے کہا60 ۔اس نے کہا میں نے ایک کتاب بھی نہیں لکھی میرا گھر دیکھو ،میرا کاروبار دیکھو ، میں جس سرکاری دفتر میں بھی جاتا ہوں تو لوگ مجھے جھک کرسلام کرتے ہیں ۔ آپ فائدے میں ہیں کہ میں ۔ میں نے کہا جناب بات تو آپ کی ٹھیک ہے لیکن جس معاشرے میں اہل علم اور اہل دانش روٹی کی فکر میں لگے رہیں اور آپ جیسے لوگ پراپرٹی بلڈرز بن کر راتوں رات امیر ترین شخص بن جائیں وہ معاشرہ واقعہ تحسین کے قابل ہے ۔میرے ایک دوست نے اپنا گھر 39لاکھ کا فروخت کیا تین مہینے بعد جب فائنل پے منٹ ہونے لگی تو اس مکان کی قیمت 45 لاکھ تک پہنچ چکی تھی۔گویا تین مہینوں میں ہی چھ لاکھ روپے کا فائدہ ۔ہے نا حیرت والی بات ۔ یہی عالم ان بلڈرز کا ہے جو پانچ مرلے کے پلاٹ پر 80 لاکھ روپے خرچ کرکے ایک کروڑ 30 لاکھ کا تقاضا کرتے ہیں۔ اس وقت لاہور میں ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی کے دس فیز تک تو تعمیر ہوچکے ہیں اور ان کی فائلوں کا کاروبار عروج پر ہے جبکہ دو مزید فیز بی آر بی نہر کے ساتھ ساتھ قصور تک جا پہنچے ہیں ۔ لاہور کے علاوہ اسلام آباد ، کراچی ، پشاور ، گوجرانوالہ ، ملتان ، بہاولپور میں بھی DHA کے نام سے ہاؤسنگ سوسائٹیاں اور ان میں بنگلے تعمیر ہورہے ہیں ۔ جس میں کوڑیوں کے بھاؤ زمین خرید کر کروڑوں روپے مرلہ کے حساب سے ڈویلپ کرکے فروخت کی جارہی ہیں ۔ جتنا فائدہ DHA والوں کو ہوتا ہے اس سے پچاس گنا فائدہ ان پراپرٹی ڈیلرز اور ڈویلپر ز کو ہوتا ہے جو DHA کے ساتھ پراپرٹی کا کاروبار کرتے ہیں ۔ڈیفنس اتھارٹی اور بحریہ ٹاؤن نے تو معاشی انقلاب برپا کیاہی ہے ۔ان کے دیکھا دیکھی ہی چھوٹے بڑے شہر میں جدید سہولتوں سے آراستہ ہاؤسنگ سکیموں کی برسات شروع ہوچکی ہے ۔
 

Aslam Lodhi
About the Author: Aslam Lodhi Read More Articles by Aslam Lodhi: 802 Articles with 784437 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.