کالم کا عنوان پڑھ کر تخیل کی پرواز کسی اور جانب
نکل سکتی ہے۔ محاوروں کا رستہ روکنا ایسے ہی مشکل ہے، جیسے آئی ٹی کی یلغار
کے سامنے بند باندھنے کی کوشش کرنا۔ محاورے پارلیمنٹ میں بھی جاسکتے ہیں،
جاتے بھی رہتے ہیں، عدالتوں میں عین بحث کے موقع پر بھی محاورے در آتے ہیں۔
یہاں محاورے بیان نہیں کئے جائیں گے، بس ذرا بکروں کے ذکر پر محاوروں کی
یاد آگئی تھی۔ خبر اُڑتی ہوئی اٹھائی گئی ہے، جیسے اپنے صحافی بھائی اڑتی
چڑیا کے پر گِن سکتے ہیں، اسی طرح یہ انکشاف بھی سامنے آیا ہے کہ پارلیمنٹ
میں دو بکرے لائے گئے، ایک کا رنگ کالا اور دوسرے کا سفید تھا۔ آگے کی
کہانی دیوار کے پیچھے کی ہے، جہاں نگاہ تو نہیں گئی، مگر تصور کی آنکھ سے
دیکھنے سے معلوم ہوا کہ انہیں ذبح کیا گیا۔ البتہ وجہ اس قربانی (یا صدقے)
کی یہ بیان کی گئی کہ آنے والے موسم گرما میں بجلی کی تعطلی بالکل نہ ہو،
یا پھر کم سے کم ہو۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ آیا یہ قربانی اﷲ تعالیٰ کے ہاں
شرفِ قبولیت پاتی ہے یا نہیں۔ دیکھا جائے تو یہ کام انسانی استطاعت میں ہے،
مگر مسئلہ یہ ہے کہ اپنے ہاں محنت کم کی جاتی ہے، شارٹ کٹ زیادہ نکالنے کی
کوششیں زیادہ کی جاتی ہیں۔ خیر یہ طریقہ بھی اﷲ اور اس کے رسولﷺ کا بتایا
ہوا ہی ہے، کہ صدقہ وغیرہ سے بلائیں ٹل جاتی ہیں۔
ساتھ ساتھ توکل کی کہانی بھی ہو تو صدقہ زُود اثر ثابت ہو سکتا ہے، یقین نہ
ہو، یا کم ہو تو صدقہ بھی اثر نہیں کرتا۔ جہاں تک صدقے کا استعمال ’ردّ ِ
بلیاّت‘کے لئے ہی ہوتا ہے، تو عوام کے لئے بلاؤں کی بے شمار قسمتیں ہیں۔
قدم قدم پر بلائیں انسان کو گھیرے ہوئے ہیں۔ گلی محلے کے مخصوص مائینڈ سیٹ
لوگ،سرکاری محکمہ جات، پولیس، تعلیمی معاملات، صحت وصفائی کے حسابات، ٹیکس
کے محکمے سمیت خود حکومتیں عوام کے لئے چھوٹی بڑی بلائیں ہی تو ہیں۔ عوام
میں ایک اور بلا(جسے بَد بلا کہا جائے تو بے جانہ ہوگا) باہمی معاشرتی
اختلافات اور تعویذ گنڈوں کی داستانیں ہیں۔ دوسروں کے کاروبار باندھنا اور
جادو وغیرہ کرنا عام ہے، رشتے ناطوں کے جوڑ توڑ کی کہانیاں بھی عام ہیں۔ ان
بلاؤں کو ٹالنے کے لئے یار لوگ جہاں بکروں کی قربانی سے کام لیتے ہیں، وہاں
اصلی جعلی عامل بھی میدانِ عمل میں پوری توانائیوں کے ساتھ موجود ہیں۔ یہی
وجہ ہے کہ اپنی پارلیمنٹ کے معزز ارکان اپنی اپنی بلاؤں کو ٹالنے کے لئے
دونوں طریقے ہی اپناتے ہیں۔ وہ بکروں کی قربانی سے بھی کام لیتے ہیں، اور
ان میں سے بہت سوں نے عاملوں سے بھی تعلقات استوار کر رکھے ہیں، کوئی مسئلہ
ہوا، فون پر ہی پھونک مار کر معاملے کو رفع دفع کروا لیا جاتا ہے۔ بکروں کی
قربانی کا نسخہ چند ماہ قبل پی آئی اے نے بھی آزمایا تھا، جب ایک طیارہ
زمین بوس ہوگیا تھا اور اس میں جنید جمشید سمیت بہت سے مسافر جان سے ہاتھ
دھو بیٹھے تھے، اس کے بعد بوکھلاہٹ کے عالم میں پی آئی اے نے اپنے بہت سے
فوکر طیارے گراؤنڈ کر دیئے تھے، پھر ایک روز قوم نے وہ تصویر دیکھی جس میں
طیارے کے قریب ہی ایک کالے رنگ کا بکرے کی قربانی اس لئے دی گئی کہ طیارہ
کسی حادثے سے محفوظ رہے۔ یہ معلوم نہیں ہوا کہ اسی کا گوشت مسافروں کو
کھلایا گیا کہ باعثِ برکت رہے، یا وہ پی آئی اے کے کسی بڑے کے گھر میں
نذرانہ کے طور پر پہنچا دیا گیا۔
گزشتہ روز ہی بجلی کے بڑے وزیر نے اپنے سابق قول اور فارمولے کو دہرایا ہے
کہ لوڈشیڈنگ کم ہو چکی ہے، تاہم گرمی کے اچانک بڑھ جانے سے (حالانکہ موسم
گرما اچانک نہیں آیا ) لوڈشیڈنگ میں اضافہ ہوا ہے، اس ماہ کے آخر تک قابو
پا لیں گے۔ اور یہ بھی کہ جہاں بجلی چوری ہوگی وہاں لوڈشیڈنگ ہوگی، یعنی
جاری رکھی جائے گی۔ لوڈشیڈنگ اسلام آباد سمیت ملک بھر میں جاری ہے، اس لئے
کہا جاسکتا ہے کہ اسلام آباد سمیت ہر جگہ بجلی چوری ہوتی ہے، جبھی تو
لوڈشیڈنگ کی جارہی ہے۔ اسلام آباد میں تو چوری نہیں ہو سکتی، البتہ لُوٹی
جاسکتی ہے، وہاں بڑے بڑے گھر بجلی بے دردی سے جلا رہے ہیں، جس میں عوام کا
خون بھی جلتا ہے۔ خیر اگر پارلیمنٹ کا کالے اور سفید بکرے کی قربانی والا
نسخہ کامیاب ہوگیا تو پھر دیگر ادارے اور حسب ِ استطاعت عوام بھی بکرے ذبح
کرکے بجلی کی تعطلی سے خلاصی پا سکیں گے ۔ بس پارلیمنٹ کے تجربے کے نتیجے
کا انتظار ہے۔
|