اہل عرب میں مشہور ہے کہ اگران کے یہاں مہمان آئے
اور کھائے پئے بغیر چلاجائے تو وہ ان کا دشمن ہوگا ،کسی مہمان کا کھائے پئے
بغیر جاناان کی ثقافت کے خلاف سمجھا جاتا ہے اور جو ان کی ثقافت کے خلاف ہو
وہ ان کی کیلئے دشمن سے کم نہیں ، ان کے خیال میں وہ ان کیخلاف کینہ رکھتا
ہے ، بغض رکھتا ہے اور عین ممکن ہے کہ وہ کبھی بھی ان پر حملہ آور ہوسکتا
ہے ۔ اس میں نمک حلالی یا نمک حرامی کا تصور نہیں بلکہ عداوت کا پہلو شامل
ہوتا ہے کہ دشمن کے گھر وہ کھایا پیا نہیں کرتے بلکہ اپنی نفرت کا اظہار
کرتے ہیں۔ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں لیا جاسکتا کہ وہاں مہمان نوازی سے عاری
لوگ بستے ہیں ، عرب تو زمانہ جاہلیت سے مہمان نواز ہیں ، حاتم طائی کی مثال
لی جاسکتی ہے جو اسلام سے بہت پہلے عرب میں اپنی مہمان نوازی کی وجہ سے اس
قدر مشہور تھا کہ لوگ دور دراز سے صرف اس کی اس اعلیٰ ظرفی کی خاطر مسافتیں
طے کرکے آیا کرتے تھے ۔اہل مغرب میں بھی مہمان نوازی بھر پور انداز میں کی
جاتی ہے البتہ وہ مہمان لازم نہیں کرتے کہ وہ کھائے پیئے ، تواضح کیلئے
اہتمام کیا جاتا ہے ، دسترخوان سجایا جاتا ہے اب یہ مہمان کی صوابدید پر ہے
کہ وہ کھائے کھائے ورنہ خصمانوں کھائے ۔ اس کے برعکس مشرق میں یہ پابندی ہے
کہ مہمان کچھ نہ کچھ ضرور کھائے اسے حاجت ہو نہ ہو، وہ پرباش ہی کیوں نہ ہو
اسے دستر خوان سے مستفید ہونا لازم ہوتا ہے ۔ افغانوں اور انہی کی روایات
کے امین ہمارے پشتون بھائی گولی کی نوک پر مہمان کو کھانے پر مجبور کردیتے
ہیں کہ اگر اس نے ان کے یہاں سے کچھ نہ کھایا تو گولی کھانی پڑے گی ، مہمان
جان کو قیمتی جان کر کچھ نہ کچھ زہر مار کرنے کو ترجیح دیتے ہیں ۔ مسلمانوں
کی ثقافت اور اسلامی تعلیمات کی رو سے مہمان اﷲ کی رحمت تصور کیا جاتا ہے
چنانچہ اس کی خاطر مدارت کرنا وہ اپنا دینی فریضہ سمجھ کرتے ہیں جس کا
بنیادی مقصد اﷲ رب العزت کی خوشنودی کا حصول ہے ۔ ہندوؤں میں مہمانوں کا اس
قدر احترام کیا جاتا ہے کہ وہ اسے اپنا بھگوان مانتے ہیں ۔ ویسے ان کے یہاں
بھگوان کا تصور ہی نرالہ ہے ، وہ اچھی بات کو بھگوان سے تعبیر کرنے کے ماہر
ہیں ۔ حاتم طائی بھی ان کے آگے کوئی مقام نہیں رکھتا ۔ نمک حرامی یا حلالی
کا تصور بھی ان کی اختراح ہے ۔ اگر کوئی ان کا کھا پی کر بھی ان کے خلاف
جائے ، دغا دے ، مخاصمت رکھے ، وہ ان کی نظر میں نمک حرام اور جو ان کی
جائز یا ناجائز بات پر حمایت کرے وہ نمک حلال قرار پاتا ہے ۔اس نمک حلالی
اور نمک حرامی کے تصور نے اسلامی فلاحی مملکت پاکستان میں بھی اپنی جڑیں
ایک سازش کے تحت مضبوط کرلی ہیں ۔حالانکہ یہ ایک ایسی ریاست کا آئینہ تھی
جو ہمارے آخری نبی ﷺ کے اصولوں پر قائم کی گئی تھی ۔ جہاں حق کو حق اور
باطل کو ہمیشہ باطل ہی کہا گیا۔ اس کا عمل دخل عام معاشرے سمیت ہر سطح پر
دیکھا جاسکتاہے ۔ کہا جاتا ہے کہ ہمارے وطن عزیز میں جمہوریت اپنی آب و تاب
کے ساتھ کبھی پھل پھول نہیں سکی ، ہر تھوڑے عرصے کے بعد آمریت نے اس پر شب
خون مارا اور ملک میں غاصبانہ طرز حکمرانی کو موقع فراہم ہوا۔ انڈیا میں
ایسا کبھی نہیں ہوا ، کیوں ؟۔ وجہ تلاش کرنے بیٹھ جائیں تو بہت وقت درکار
ہوگا ، بس اتنا ہی سمجھ لینا کافی ہے کہ وہاں فوج نے جمہوریت کا جو نمک
کھایا ہے اسے حلا ل کررہی ہے ۔ چنانچہ وہ کبھی جمہوریت کے آگے سر نہیں اٹھا
سکی اور غالباً کبھی بھی وہ اس قسم کا اقدام کرنے کا سوچ سکتی ہے ۔ ہمارے
یہاں معاملہ ذرا مختلف ہے ۔ اول تو ہماری سیاسی جماعتوں کو سیاست سے زیادہ
حماقت آتی ہے ، دوسرا اقتدار ان کی اولین ترجیح ہوتی ہے ، وہ حکمرانی کو
مراعات کا حصول سمجھتے ہیں ۔ ان مراعتوں کے حصول میں ہمارے ملک کے سیاست
دان ایسی ایسی مفاہمتیں کرجاتے ہیں کہ ان کا وبال عوام پر آجاتا ہے ۔ یہ
سیاست دان عوامی سطح پر ایک دوسرے کے سخت مخالف اور اندرون ِ خانہ ایک
دوسرے کو مضبوط کرنے کیلئے معاہدہ کرتے ہیں ،مثال کے طور پر میثاق جمہوریت
کو ہی لے لیجئے ، اس میں ایک دوسر ے کے خلاف بات کرنا ، مزاحمت کرنا، غیر
ضروری دباؤ ڈالنا گناہ تصور کیا جاتا ہے۔2008ء میں پیپلز پارٹی کی حکومت
قائم ہوئی ،میاں نواز کی اپوزیشن نے اس کا ہر جگہ ساتھ دیا نتیجہ میں اس نے
ن لیگ کو بھر پور نوازہ ۔ کہیں کہیں اختلاف کی فضا بنی جو پر فضا مقامات پر
قیام و طعام کی محفلوں میں چھٹ گئی ، اور ن لیگ اس کے کھائے ہوئے نمک کو
2013ء کے انتخابات تک نیک نیتی سے فرینڈلی اپوزیشن کی حیثیت سے حلال کرتی
رہی ۔ 2013ء میں میاں صاحب تیسری بار اقتدار میں آئے ، اب نمک حلالی پی پی
پی کے حصے میں آئی ، پی پی پی کے دور میں ن لیگ کے سوا کوئی مقابل نہیں تھا
لہٰذا یہ ایک دوسرے کی طاقت بنے رہے ، البتہ 2013ء کے انتخابات میں تحریک
انصاف ایک مضبوط اور آہنی دیوار بن کر ان کے مقابل آکھڑی ہوئی ۔ 2014ء کا
120روزہ دھرنا اس کی نمایاں خوبی بنا۔ اس احتجاج میں پی پی پی نے نمک حلالی
کا بھر پور ثبوت پیش کیا اور عمران خان کے خلاف حکومت کے ساتھ صف آرا نظر
آئی ۔پاناما کیس میں بھی اس نے حریف بننے کی کوشش نہیں کی جس کے عوض ایان
علی کی رہائی، شرجیل انعام میمن کی باحفاظت ملک میں واپسی اور حال ہی میں
ذرداری صاحب کے مخلص دوست ڈاکٹر عاصم کی ضمانت عمل میں آئی ۔27 دسمبر 2016ء
کو بے نظیر بھٹو کی برسی کے موقع پر آصف زرداری اور بلاول نے پارلیمانی
سیاست میں آنے کا اعلان کیا لیکن بعد میں انہیں ن لیگ کا کھایا ہوا نمک یاد
آگیا سو انہوں نے ارادہ ترک کردیا ۔ یہ اس تصور کی اعلیٰ مثال قرار دی جانی
چاہئے ۔ پاکستانی سیاست میں ایک اور اہم نام جو ان دنوں بہت نام کما چکا ہے
وہ لال حویلی کے شیخ رشید کا ہے ۔ یہ بہت پرانے اور منجھے ہو ئے سیاست دان
ہیں ، ن لیگ کی حکومت میں وزیر رہے ، مشرف دور میں بھی وزارت کے مزے لے چکے
ہیں لیکن اس بار ان کا جھکاؤپی ٹی آئی کی جانب ہے جبکہ وہ کئی بار اپنی الگ
حیثیت بھی ظاہر کرچکے ہیں جو ان کی انفرادی شخصیت کی مثال ہے ۔ وہ کپتان کے
ساتھ ہیں اور ذاتی فیصلے بھی کرتے ہیں ۔ وہ ن لیگیوں کے خلاف صف آرا ہیں
اور پی پی پی کی بھی خوب کلاس لیتے رہتے ہیں ۔ انہیں دونوں میں خرابیاں نظر
آتی ہیں ۔ وہ ن لیگ اور پی پی پی کو ایک دوسرے کی انشورنس پالیسی کے نام سے
یا د کرتے ہیں ۔ حالانکہ وہ میاں نواز شریف کی کیبنیٹ کا حصہ اور ذرداری
صاحب کے اچھے دوست بھی رہ چکے ہیں ۔ گزشتہ دنوں آصف علی زرداری سے انٹرویو
میں اس انشورنس پالیسی سے متعلق سوال کیا گیا تو انہوں نے بات کا رخ موڑتے
ہوئے کہا کہ شیخ رشید ان کے صدارتی دور میں دیگر دوستوں کی طرح دسترخوان کا
حصہ رہے ہیں ممکن ہے کہ ان کے کھانے میں نمک کم ہو۔
آپ بات تک پہنچ گئے ہوں گے ، اگر نہیں تو یہ سمجھ لیجئے کہ شیخ صاحب نے ان
کا نمک اس طرح سے نہیں کھایا جس طرح دیگر لوگ ان کے کھائے ہو ئے نمک کو
حلال کررہے ہیں ۔ |