گمنام حوالوں کا اور گمنام خیر خواہوں کا کوئی پرسانِ حال
نہیں ہوتا، اچھا ہوگیا تو واہ واہ اور شکریہ، برا ہوگیا تو ایک نا ختم ہونے
والی تلاش شروع ہوجاتی ہے۔ ہم پاکستانیوں کو انگنت نامعلوم افراد کا سامنا
ہے (ایک نامعلوم افراد وہ ہیں جنہوں نے ابتک انگنت زندگیوں کو موت کے گھاٹ
اتاردیا اور ایک پاکستانی فلم کا عنوان ہے نامعلوم افراد)۔ یہاں تو اغواء
کرنے والے بھی اپنے ہوتے ہوئے نامعلوم ہوتے ہیں اور تو اور ہمارے قانون
نافذ کرنے والے ادارے بھی راہ چلتے کسی کو گرفتار کر کے لے جاتے ہیں مگر
کسی کو کچھ پتہ نہیں ہوتا تو وہ قانون نافذ کرنے والے بھی ہمارے لئے
نامعلوم ہی ہوتے ہیں۔قدرت ہی ان نامعلوم کو معلوم کی فہرست میں ڈالے تو
ڈالے ہمارے بس کی تو بات ہی نہیں۔ ہم پاکستانی انتہائی غیر محفوظ ہیں جیسا
کہ آج ہمارے ملک کے انتہائی معزز اور جہاندیدہ سیاستدان محترم شیخ رشید
صاحب نے اپنے سماجی میڈیا کہ پیغام میں لکھا ہے کہ "اس ملک میں سوائے
پانامہ کیس کے فیصلے کے سوا کوئی بھی محفوظ نہیں"۔
سرگودھا کا تازہ ترین سانحہ پر لکھنے کا دل چاہتا ہے اور نا ہی دماغ ساتھ
دینے کیلئے تیار ہورہا ہے اس واقع میں 20 انسانی زندگیوں کو ڈنڈوں اور تیز
دھار آلے سے موت کے گھاٹ اتار دیا گیا، سفاکیت اور انسانیت کی تذلیل کی ایک
اور اعلی مثال قائم کی گئی۔ ہمارے ملک میں پولیوکے قطرے پلانے والے محفوظ
نہیں ہیں، ہمارے ملک میں قانون نافذ کرنے والے محفوظ نہیں، مسیحائی کے علم
بردار ڈاکٹر محفوظ نہیں ہیں، مجرم اور معصوم کا فیصلہ کرنے والے جج محفوظ
نہیں ہیں، ہماری درسگاہیں محفوظ نہیں، ہمارے اساتذہ محفوظ نہیں ہیں، ہمارے
ہسپتالوں میں مریض محفوظ نہیں ہیں، یہاں اگر سچ بولنے والا محفوظ نہیں تو
غیر محفوظ جھوٹا بھی ہے۔
لیکن ہم پاکستانی اپنے دل کے ہاتھوں مجبور ہیں ہمیں قائدِ اعظم محمد علی
جناح کی انتھک محنت اور لگن یاد رہتی ہے ہمیں شاعرِ مشرق علامہ محمد اقبال
کے اشعار جھنجھوڑتے رہتے ہیں ہمیں اپنے آباؤاجداد کی قربانیاں بھلائے نہیں
بھولتیں یہ وہ تمام حالتیں ہیں کہ ہم وطنِ عزیز پاکستان کو ایک انتہائی غیر
محفوظ ریاست لکھنے سے قاصر ہیں۔
اخبار کے ادارتی صفحہ پر اور بلاگ کہ نیچے ایک مخصوص سے خانہ میں ایک عبارت
لکھی ہوتی ہے کہ "ادارے کا لکھنے والے کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں"۔
اس خاص عبارت کے دو مقاصد سمجھ میں آتے ہیں ایک تو یہ کہ ادارہ جو شائع کر
رہا ہے وہ رائے عامہ کی ترجمانی کرنے کی کوشش کر رہا ہے دوسرا یہ کہ ادارہ
کسی خاص زاویہ سوچ کی ترویج کیلئے کام نہیں کر رہا۔ دونوں ہی مقاصد نیک اور
لکھنے والوں کیلئے حوصلہ افزاء ہیں۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ادارہ لکھنے والے کی ذمہ داری لینے سے کیوں
گریز کر رہا ہے آخر یہ ذمہ داری کون لےگا؟ لکھنے وال تو عام آدمی کی وہ بات
جو نا کوئی سنتا ہے اور نا وہ کسی کو سنا پاتا ہے معاشرے کے ہرفرد کی زبان
اور کان تک پہنچا دیتا ہے، لکھنے والا معاشرے میں پیدا ہونے والی خرابیوں
کو منظرِ عام پر لانے کی جدوجہد مسلسل میں مصروف ہے، لکھنے والے کا چلنا
پھرنا اٹھنا بیٹھنا سارا وقت سوچ بچار میں ہی گزرتا ہے کہ کس طرح اسکی
تحریر کی بدولت معاشرے میں اچھائی کی روش قائم ہوجائے اور برائی کا خاتمہ
ہوجائے۔ یقیناً ہر لکھنے والا کسی نا کسی طرح کسی مافیا کو منظرِ عام پر
لانے کے کام میں مصروف ہے۔ بہت کم یا شائد گنتی کہ لکھنے والے ہونگے جو
اپنے قلم کی جنبش کا معاوضہ لیتے ہونگے یا جنہوں نے لکھنے لکھانے کو ہی
اپنا پیشہ بنا رکھا ہے۔ مادہ پرستی کہ اس دور میں ہر انسان کو کوئی نا کوئی
ذریعہ معاش درکار ہوتا ہی ہے جسکی بدولت اپنی معاشی اور معاشرتی ضروریات
پوری کی جاسکتی ہوں۔ جدید دور میں لکھنے والوں کی ایک کثیر تعداد ہوچکی ہے
اور ان لکھنے والوں کو "بلاگرز" کے طور پر جانا جاتا ہے۔ یہ بلاگرز بھی وہی
کام کر رہے ہیں جو مضمون نگار اور اداریہ لکھنے والے کرتے ہیں مگر ان کے
قلم کی طرازیاں کو مختلف ہیں اور بے لگام بھی، یہ لوگ معاشرے کی برائیوں کو
جوں کی توں دیکھانے پر یقین رکھتے ہیں اور یہ کہیں گنا زیادہ تلخ بھی معلوم
ہوتے ہیں۔ ان لوگوں کی یہ تلخی سارے لکھنے والوں کیلئے نقصان یا دہشت زدگی
کا باعث بنتی جا رہی ہے۔ آج ساری دنیا میں مضمون نگار بھی ان بلاگرز کی وجہ
سے خطروں کی ذد میں آچکے ہیں۔ ہم سب مل کر کہلاتے تو صحافتی برادری ہے اور
اس برادری سے تعلق رکھنا ایک اور غیر محفوظ ہونے کی دلیل بن گئی ہے۔
اس مضمون کے توسط سے درخواست یہ کرنی ہے، پیغام یہ دینا ہے کہ لکھنے والوں
کی ذمہ داری کوئی تو لے چاہے کوئی "ضابطہ اخلاق" مرتب کر کہ نافذ کروا دیں
اور لکھنے والوں سے اس پر دستخط کروا لیں، اس ضابطہ اخلاق کی پاسداری نا
کرنے والوں کی ذمہ داری نا لیں۔ کیوں کہ جو مخصوص اور مشہور لکھنے والے ہیں
انکو تو کسی شناخت کی ضرورت نہیں ہے، ہم بھی اسی سپاہ کہ نامعلوم سپاہی
ہیں، ہم بھی اسی معاشرے میں رہتے ہیں اور اپنے وطن سے محبت اور جانثاری کے
علم بردار ہیں۔ تمام صحافتی تنظیمیں اور ادبی ادارے بھی اگر مناسب سمجھیں
تو اس تجویز پر غور کریں تاکہ نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی ہو اور وہ
بڑھ چڑھ کر ملک میں بڑھتی ہوئی ناچاقیوں کو ختم کرنے میں اور گرتی ہوئی
اخلاقی قدروں کو سہارا دینے میں اپنا، اپنے قلم کا استعمال بھرپور طریقے سے
کر سکیں۔ معلوم نہیں ہمارے ملک کا کوئی اخبار اس مضمون کو شائع کرے گا یا
نہیں مگر مجھے اتنا یقین ہے کہ آن لائن ادارے اس مضمون کو ضرور شائع
کردینگے۔ |