انسان ترقی کی منازل طے کرتا ہوا اس مقام تک جا پہنچا ہے،
ماضی میں جس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا۔ انسان کا یوں مسلسل ترقی کی
سیڑھیاں چڑھتے چلے جانا اس کے غوروفکر اور تدبر کی واضح دلیل ہے، لیکن
افسوس کی بات یہ ہے کہ غوروفکر اور علوم و فنون کے اس ترقی یافتہ دور میں
بھی بہت سے لوگ جہالت پر مبنی اقدامات کی بدولت تنزلی کی گہری گھاٹیوں میں
گرتے جارہے ہیں اور جعلی عاملوں، جعلی پیروں اور جعلی گدی نشینوں کے ہاتھوں
استعمال ہوکر بلاسوچے سمجھے جان، عزت و آبرو اور مال برباد کرنے میں مشغول
ہیں۔ آئے روز ملک میں جعلی عاملوں اور پیروں کے حوالے سے ایسے ایسے واقعات
رونما ہورہے ہیں، جنہیں سن کر رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں، بلکہ ایسے واقعات کی
صداقت پر یقین ہی نہیں آتا، کیونکہ کسی بھی عقل مند انسان سے ایسے گھناؤنے
افعال کا صادر ہونا ناممکن معلوم ہوتا ہے، لیکن کیا کیا جائے،کسی انسان سے
جن احمکانہ حرکتوں کے صدور کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا، جعلی پیروں کی ’’برکت‘‘
سے وہ سب کچھ ہورہا ہے۔ سرگودھا میں مزار کے احاطے میں رونما ہونے والا
سانحہ اس کی تازہ مثال ہے۔ سرگودھا میں واقع ایک مزار کے احاطہ میں مزار کے
متولی اور اس کے ساتھیوں کے ہاتھوں 20 افراد کے بہیمانہ قتل نے پوری قوم پر
لرزہ طاری کر دیا ہے۔ 20 افراد کا قتل ہر لحاظ سے بہت بڑا سانحہ ہے، جس پر
جتنا افسوس کیا جائے کم ہے۔ سرگودھا کے نواحی گاؤں میں واقع ایک درگاہ کی
گدی نشینی کے تنازع پر 20 افراد کے قتل کا مرکزی کردار درگاہ کا متولی ہے
اور اس نے اپنے ساتھیوں یا عقیدت مندوں کے تعاون سے قتل کی یہ ہولناک
واردات کی ہے۔ پولیس نے درگاہ کے متولی عبدالوحید اور اس کے ساتھیوں کو
گرفتار کیا اور اس نے اعتراف جرم کیا ہے۔ یہ مزار پیر محمد علی گجر کے نام
سے منسوب ہے اور اسے آستانہ پیر علی محمد قلندر بھی کہا جاتا ہے، جو
سرگودھا کے تھانہ کینٹ کی حدود میں گاؤں چک 95شمالی میں ہے۔ اطلاعات ہیں کہ
دربار کے متولی عبدالوحید اور صاحب دربار پیر علی محمد گجر کے خاندان میں
گدی نشینی کا تنازع چل رہا تھا۔ متولی نے اپنے مرشد پیر علی محمد گجر کے
اکلوتے بیٹے آصف کو بھی اسلام آباد سے بلایا ہوا تھا۔ ملزم عبدالوحید اور
آصف دونوں گدی نشینی کے خواہشمند تھے اور اس تنازع کے حل کے لیے پنچایت
بلائی گئی تھی۔ جیسے جیسے لوگ آتے رہے تو انھیں دربار کے ساتھ متصل مکان
میں لے جا کر نشہ آور شے پلائی گئی اور پھر قتل کیا جاتا رہا۔ ملزم
عبدالوحید نے اعتراف جرم کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسے شک تھا کہ مقتول افراد
اسے زہر دینا چاہتے ہیں، اس نے تمام افراد کو پہلے نشہ آور چیز پلائی اور
پھر ساتھیوں سے مل کر ڈنڈوں اور خنجروں کے وار کر کے موت کے گھاٹ اتار دیا۔
مقامی افراد نے بتایا کہ عبدالوحید مہینے میں ایک دو بار درگاہ پر آتا تھا،
جب بھی آتا اپنے مریدوں کو نشہ پلاتا اور ان پر تشدد کرتا تھا۔ دورانِ
تفتیش ملزم نے پولیس کو بتایا کہ مریدوں کو اس شک میں قتل کیا ہے کہ وہ 2
سال پہلے انتقال کر جانے والے اس کے پیر کو زہر دینے کی سازش کا حصہ تھے
اور شبہ تھا کہ اب اسے بھی زہر دینے کا منصوبہ بنایا جا رہا ہے، اگر میں
مریدوں کو نہ مارتا تو وہ مجھے مار دیتے، کیونکہ یہ لوگ مجھے درگاہ کی گدی
نشینی سے ہٹا کر قتل کرنا چاہتے تھے، جیسے ہی مجھے اس بات کا علم ہوا تو
میں نے ساتھیوں سے مل کر کر ان کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ 20افراد کے قاتل
عبدالوحید نے گرفتاری کے عد عدالت میں بیان دیتے ہوئے کہا ہے کہ مقتولین
میری اولاد کی طرح تھے، ان کے گناہ جھاڑنے کے لیے ان کی قربانی دی ہے۔
عبدالوحید نے کہا کہ اس نے جس طرح لوگوں کو قتل کیا ہے، اسی طرح دوبارہ
زندہ بھی کرسکتا ہے۔ ترجمان کے مطابق پیر علی محمد گجر کا بیٹا مقتول آصف
اسلام آباد پولیس کا ملازم اور پولیس لائن ہیڈ کواٹر میں تعینات تھا۔ آصف
وزیراعظم سیکرٹریٹ کے سکواڈ میں بھی تعینات رہ چکا تھا، جبکہ قاتل
عبدالوحید اس وقت بھی الیکشن کمیشن کا ملازم ہے اور اس کی ریٹائرمنٹ میں
9سال باقی ہیں۔ بلدیاتی انتخابات میں اہم ترین عہدوں پر فائز رہنے والے
عبدالوحید گجر کا گزشتہ سال کے شروع میں لاہور سے اندرون سندھ (سجاول)
تبادلہ کیا گیا، جس پر عبدالوحید گجر نے وہاں جانے سے انکار کیا اور ایل پی
آر (قبل از وقت ریٹائرمنٹ) کی درخواست دے کر ایک سال رخصت پر چلا گیا۔
عبدالوحید کے حوالے سے اس کے دفتر کے ساتھیوں نے نام ظاہر نہ کرنے کے وعدے
پر بتایا کہ عبدالوحید نماز، روزے کا قائل نہیں تھا، بلکہ اسلامی شعائر کا
مذاق اڑایا کرتا تھا۔
ضلع سرگودھا میں ایک جعلی پیر کے ہاتھوں کم ازکم بیس عقیدت مندوں کے پرتشدد
قتل اور متعدد کے زخمی کیے جانے کی لرزہ خیز واردات ہمارے معاشرے کے ایک
نہایت ہولناک اور توجہ طلب پہلو کی عکاس ہے۔ سرگودھا کے نواحی گاؤں میں
واقع درگاہ میں بیس افراد کا بہیمانہ قتل ہوا، لیکن اس سلسلے میں مقتولین
کے ورثا پولیس کو کچھ بھی بتانے کو تیار نہیں۔ علاقہ مکینوں نے بھی پراسرار
خاموشی اختیار کر رکھی ہے، جبکہ ورثا میں سے کوئی بھی مدعی بننے کو تیار
نہیں جس کے بعد پولیس نے سب انسپکٹر شمشیر خان کی مدعیت میں ایف آئی آر درج
کی ہیں۔ مرکزی ملزم عبدالوحید اور اس کے تین ساتھی ظفر، آصف اور کاشف کے
خلاف درج مقدمے میں قتل، اقدام قتل، دہشت گردی، لاشوں کی بے حرمتی اور دیگر
سنگین دفعات شامل ہیں۔ دربار میں مریدوں کے قتل عام پر بار بار بیانات
بدلنے والے سفاک مرکزی ملزم نے اعتراف جرم کرتے ہوئے کہا کہ اس نے ان افراد
کو دوبارہ زندہ کرنے کے لیے موت کے گھاٹ اتارا۔ مقامی ایم این اے ذوالفقار
بھٹی اور علاقے کے دیگر بااثر افراد قاتل عبدالوحید کی حرکتوں سے آگاہ تھے،
لیکن مجرمانہ غفلت کا مظاہرہ کیا۔وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے اس
واردات کا نوٹس لیا اور ان کی ہدایت پر صوبائی وزیر اوقاف سید زعیم حسین
قادری بھی جائے وقوع پر پہنچے۔ انھوں نے کہا کہ جعلی پیروں اور تعویز گنڈا
کرنے والوں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔ بلاشبہ اس واردات کے ملزمان
کو قانون کے مطابق سزا ملنی چاہیے اور اس کے ساتھ ساتھ مزارات اور درگاہوں
کے انتظامات اور گدی نشینی کے حوالے سے محکمہ اوقاوف کو متحرک کردار ادا
کرنا چاہیے تاکہ مستقبل میں ایسی کوئی واردات نہ ہوسکے۔ مزارات کو صرف
اوقاف کے رجسٹر پر چڑھا لینا ہی کافی نہیں، یہاں ہونے والی سرگرمیوں پر کڑی
نظر رکھنا بہت اہم ہے۔ جرائم پیشہ افراد بھی ایسی جگہوں کو اپنا ٹھکانہ
بناتے ہیں، جہاں وہ بھیڑ میں چھپ سکیں اور تو اور، یہ مقامات نیشنل سیکورٹی
کے زاویہ سے بھی نہایت اہم ہیں۔ بھارت کے قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈوول
صاحب کے بقول مزارات چھپنے اور کیموفلاج کے لیے بہترین جگہیں ہوتی ہیں۔ ان
کے مطابق وہ لاہور میں ایک طویل عرصہ داتا دربار میں ملنگ بنے رہ کر گزارنے
میں کامیاب ہوئے، جس سے ثاب ہوا کہ بہت سے غیر ملکی جاسوس ملک میں دہشتگردی
کی کاررائیاں کر کے یہاں چھپ جاتے ہیں۔ بہت سے جرائم پیشہ افراد درباروں
اور مزاروں میں رہ کر اپنے دھندے چلاتے ہیں۔ بچوں کو اغوا کرکے بھیک
منگوانے والے، بچوں کے گردے فروخت کرنے والے اور تاوان کے لیے اغوا کرنے
والے افراد انہیں مزاروں اور درباروں میں چھپے ہوتے ہیں، جبکہ یہاں منشیات
کا دھندہ بھی کیا جاتا ہے، لیکن حکومت اس جانب توجہ ہی نہیں دیتی، جس کا
نتیجہ ایسے ہی واقعات کی صورت میں سامنے آتا ہے، جیسا سرگودھا میں پیش آیا۔
حکومت کی عدم توجہی اور عوام کی جہالت کی بدولت ملک میں جعلی پیروں اور
جعلی عاملوں کی تعداد میں روزبروز اضافہ ہورہا ہے، ان کی بڑھتی ہوئی یہ
تعداد ملک و قوم کے لیے نقصان کا باعث ہے۔ ملک میں سادہ لوح عوام اپنے
مسائل کے حل کے لیے ان جاہلوں کے حکم پر چلتے ہیں، جس کی وجہ سے اب تک
نجانے کتنے لوگ جان، مال اور عزت سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔افسوس ہے 21ویں صدی
میں بھی ملک میں بہت سے لوگ توہم پرستی کا شکار ہیں،سادہ لوح افراد دھڑا
دھڑ جعلی پیروں کے مزاروں ، درباروں اور عاملوں کے آستانوں کا رخ کرتے
ہیں۔گھریلو جھگڑوں سے نجات، شوہر کوراہ راست پر لانے، مقدمہ بازی، کاروباری
بندش، اولاد کے حصول، بیرون ملک رہائش ودیگر مقاصد کے حصول کے لیے خواتین
کی بڑی تعداد جعلی عاملوں اور جعلی پیروں کے آستانوں کا رخ کرتی ہیں۔ مسائل
کے گرداب میں پھنسے مختلف طبقات کے تعلیم یافتہ، ان پڑھ اور ہر عمر کے
خواتین و حضرات انہیں اپنے مسائل کا ’’ واحد حل‘‘ سمجھنے لگ جاتے ہیں۔ ’’عاملین‘‘
چٹکی بجاتے میں ان کے مسائل کو حل کرنے کا جھانسہ دے کر ان سے بھاری رقوم
بٹور تے ہیں اور سادہ لوح مایوس خواتین ان کی چکنی چپڑی باتوں میں آکرمسائل
کے حل کے لالچ میں اپنی جمع پونجی سے محرومی سمیت عزت بھی گنوا بیٹھتی ہیں۔
ملک میں متعدد بار جعلی عاملوں اور پیروں کے ہاتھوں خواتین کی عصمت دری کے
واقعات بھی پیش آچکے ہیں۔
ضعیف الاعتقادی کمزور ایمان کی علامت ہے، جہالت کی وجہ سے جعلی پیروں کا
کاروبار وسعت اختیار کر رہا ہے، جو معصوم لوگوں کی جان لینے سے بھی دریغ
نہیں کرتے۔ اﷲ کے در کو چھوڑنے والا دردر بھٹکتا ہے، اگر ہم قرآن و سنت پر
عمل پیرا ہوں تو ایسے واقعات پیش نہیں آئیں گے۔ حقیقت یہ ہے کہ دنیا میں ہر
انسان کو مختلف قسم کے پریشان کن عوارض پیش آتے رہتے ہیں اور انسان کا ان
عوارض سے پریشان ہونا ایک فطری بات ہے، لیکن ہر پریشانی سے نکلنے کا بہترین
حل بہتر پلاننگ ہوتا ہے۔ معاشرتی، معاشی و سماجی مسائل تو ہر معاشرے میں
ہوتے ہی ہیں، ایسے مسائل تب ہی حل ہوسکتے ہیں جب انھیں طریقے کے مطابق حل
کیا جائے۔ اس قسم کے مسائل کا عاملوں اور پیروں سے کوئی تعلق نظر نہیں آتا۔
حقائق کو نظرانداز کر کے ایسے مسائل کا حل پیروں اور عاملوں کے پاس جاکر
ڈھونڈنا سراسر عقل کے منافی ہے۔ اسی طرح بہت سے لوگوں کو نفسیاتی مسئلہ
ہوتا ہے، جنھیں کسی سائیکاٹرسٹ، سائیکالوجسٹ کی ضروت ہوتی ہے، لیکن لوگ
ایسے مسائل کا حل بھی عاملوں اور پیروں کے پاس جاکر ڈھونڈتے ہیں۔ کچھ لوگ
محنت کیے بغیر عاملوں کے ذریعے شاٹ کٹ طریقے سے امیر بننا چاہتے ہیں،
حالانکہ اگراس طرح راتوں رات امیر بننا ممکن ہوتا تو دوسروں کو امیر بنانے
والا یہ عامل یوں آستانہ بنا کر مکھیاں نہ مارتا۔ یہ صرف اورصرف عوام میں
شعور اور فہم کی کمی ہے جو ہر بات کا سرا عاملوں اور پیروں کے ہاتھ میں
پکڑا دیا جاتا ہے۔ معاملہ یہ ہے کہ مسائل اور پریشانیوں سے دوچار ہوجانے کے
بعد لوگ اتنے بد حواس ہو جاتے ہیں کہ انھیں جہاں بھی امید کی تھوڑی سی کرن
دکھائی دیتی ہے، اسی جانب چل پڑتے ہیں۔ جب کہ عامل حضرات لوگوں کی نفسیاتی
کمزوریوں سے فائدہ اٹھا کر اپنے مقصد میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔ دنیا کے تمام
مہذب اور تعلیم یافتہ ممالک اور معاشروں میں اس قسم کے گھناؤنے کاروبار پر
مکمل طور پر پابند ی عاید ہوتی ہے، لیکن بدقسمتی سے پاکستان میں ان لوگوں
کا کاروبار عروج پر ہے، جو عوام کو دھوکا دے کر نہ صرف انھیں لوٹ رہے ہیں،
بلکہ موت سے بھی ہمکنار کر رہے ہیں۔ معاشرے میں ایسے رستے ناسوروں کی صفائی
کی ضرورت ہے۔ تمام صوبائی حکومتوں کو چاہیے کہ جعلی پیروں اور عاملوں پر
پابندی کی سخت قانون سازی کریں، تاکہ آیندہ کوئی جاہل پیر جاہل انسانوں کی
جان نہ لے سکے۔ مستقبل میں ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے حکومت اورعلمائے
کرام کے علاوہ زندگی کے ہر شعبے سے تعلق رکھنے والے افراد کو اپنا کردار
اداکرنا ہوگا۔ حکومت کو بھی چاہیے کہ وہ ان جعلی عاملوں کے خلاف کریک ڈاؤن
کرے۔ لوگوں کو بدھو بنانے والے جعلی پیروں اور عاملوں کے خلاف مختلف ادوار
میں صوبائی اسمبلیوں میں قراردادیں منظور ہوتی رہی ہیں، لیکن اس کے باجود
ان کے خلاف کوئی موثر قانون سازی نہیں ہوسکی اور نہ کوئی سخت کارروائی
ہوسکی، اسی وجہ سے یہ لوگ آج تک عوام کو بے وقوف بنانے میں مگن ہیں۔ |