انہوں نے کہا

ہم قرضے لیکر صوبے کوڈبونانہیں چاہتے ۔پرویزخٹک
جنابِ عالی کے ارشادات توبڑے نیک ہیں بلکہ ہمیشہ ہی نیک ہوتے ہیں مگر’’ ہاتھی کے دانت کھانے کے اور،دکھانے کے اور‘‘والامعاملہ ہے وزیراعلیٰ صاحب ایک جانب تو قرضوں کی مذمت میں ارشادتِ عالیہ فرمارہے ہیں جبکہ دوسری جانب’’ جنگلہ بس‘‘ کیلئے صوبے کو57ارب روپے میں گروی رکھاجارہاہے اوپرسے یہ خوشخبری بھی سنائی جارہی ہے کہ ’’ جنگلہ بس‘‘ پرصوبے کی ایک پائی خرچ نہیں ہوگی اس جنگلہ بس پرصوبے کی رقم خرچ نہیں ہوگی تو کیاایشیائی ترقیاتی بینک نے اپنی ’’زکوٰۃ ،صدقات ، خیرات یاعطیات ‘‘خیبرپختونخواکودینے کافیصلہ کیاہے ؟ یہ جو57ارب روپے کی رقم جنگلہ بس پرلگائی جارہی ہے صوبائی حکومت کوابھی تک اس بارے میں لب کشائی کی توفیق نہیں ہوئی کہ اس 57ارب کے بدلے کتنے 57ارب اس غریب قوم کی چمڑی ادھیڑکروصول کئے جائیں گے ؟بین الاقوامی ساہوکارخیرات نہیں بانٹتے بلکہ ایک کے بدلے دس وصول کرتے ہیں بالکل یہی منصوبہ جب پنجاب حکومت نے ترکی جیسے برادرملک کی تعاون سے بنایاتوآپ نے ارشادفرمایاتھاکہ پنجاب کے عوام کوگروی رکھ کر40ارب روپے ایک فضول منصوبے پرخرچ کئے گئے جبکہ یہی رقم انسانوں پرخرچ کرنے کی ضرورت تھی اب کیا آپکی رقم انسانوں پرخرچ ہوگی اورپنجاب میٹروکی رقم گدھوں پرخرچ ہوئی تھی؟ جنابِ عالی ! آپ نے جب سے اقتدارسنبھالاہے محض باتوں سے ہی کام چلانے کی کوشش کرتے آرہے ہیں صوبے میں کرپشن اس قدرعروج پرہے کہ وزرا ، سپیکرحتیٰ کہ آپ کے اسم گرامی پربھی جنرل حامدجیسی غیرمعمولی شخصیت نے انگلیاں اٹھائیں اب تک آپکے آٹھ وزرا کرپشن کے الزامات میں برطرف ہوچکے ہیں یاان سے وزارتیں واپس لے لی گئی ہیں جو باقی بچے ہیں انکے بارے میں اطلاعات وہی ہیں جو انکے پیشروؤں کے بارے میں تھیں مگر’’بلی کے گلے میں گھنٹی باندھنے والا‘‘ کوئی نہیں شکرکیجئے آپ کو خدا نے وضعداراپوزیشن سے نوازاہے ورنہ قدم قدم پر آپکی حکومت کے ’’کارنامے‘‘ بکھرے پڑے ہیں ماہرینِ معیشت کے مطابق صوبے کی معیشت کاٹھپہ بیٹھ چکاہے سرکاری ملازمین خفاہیں ،پولیس اوراساتذہ شکوہ کناں ہیں،افسران ناراض ہیں، عوام بیچاری تو کسی شماروقطارمیں نہیں،قرضے لینابری بات نہیں دنیاکے بڑے بڑے ممالک ایک دوسرے کے قرضدارہیں مگرآپ شائددنیاکے واحدحکمران ہیں جوقرضے لیکراسے برابھی سمجھتے ہیں انقلاب ،تبدیلی اورروایت شکنی کی باتیں بہت ہوچکیں ناچیزپہلے بھی متعددمرتبہ عرض کرچکاہے کہ اب آپکے پاس ایک سال کاعرصہ باقی بچاہے خدارااب توکوئی کام کیجئے بے شک قرضے لیکرکیجئے قرضوں سے کوئی ڈوبتانہیں بس قرضوں کے مثبت استعمال کی اہلیت ہونی چاہئے ۔

الیکشن کمیشن کیاصرف گالیاں ہی کھاسکتاہے ؟ چیف الیکشن کمشنر
چیف الیکشن کمشنر جسٹس(ر) سرداررضاخان نے یہ الفاظ اسوقت اداکئے جب تحریک انصاف کے خلاف غیرملکی فنڈنگ کیس میں پی ٹی آئی کے وکیل انورمنصورکی جانب سے الیکشن کمیشن کے دائرۂ اختیارکوچیلینج کیاگیاتحریک انصاف اس سے پہلے سپیکرآیازصادق کے ریفرنس میں بھی ’’استثنیٰ ، دائرۂ اختیاراورچیلنج‘‘ کے ہتھیاروں سے جیتی ہے کمال کی بات ہے اگراس ملک میں پارلیمنٹ پرحملوں،پولیس اہلکاروں کے سروں میں ڈنڈے مارنے والوں ،ملکی وقارکی علامت عمارتوں پرحملہ کرنے والوں اور’’چوٹی‘‘ کے راہنماؤں کوکوئی’’چھوٹی ‘‘عدالت حاضرنہیں کرواسکتی، الیکشن کمیشن کی دائرۂ اختیارانہیں چھونہیں سکتی توکیاصرف ہائیکورٹ اورسپریم کورٹ کوہی آپ عدالت سمجھیں گے باقی کوئی عدالت آپکے ’’پائے‘‘ کی نہیں اگر ’’ترقی ‘‘کایہ عالم رہاتوشائدآپکے خلاف کسی کیس کیلئے پاکستان کو ’’عالمی عدالتِ انصاف ‘‘ سے رجوع کرناپڑے چیف الیکشن کمشنرنے بالکل درست کہاہے جس ادارے سے جواب طلبی کی جاتی ہے،اسے گالیاں دی جاتی ہیں،اسے مطعون کیاجاتاہے تواسے اختیاربھی دیاجاناچاہئے اگرچہ بااختیارالیکشن کمیشن آپ سمیت کسی سیاسی جماعت کوسوٹ نہیں کرتا ویسے الیکشن کمیشن کوکم ازکم اتنااختیارضرورہوناچاہئے کہ وہ کسی سیاسی جماعت سے اسکی غیرملکی فنڈنگ کی تفصیلات طلب کرسکے اگرقانونی طورپرالیکشن کمیشن کویہ اختیارحاصل نہیں تو اخلاقی اورروایتی طورپہ اسے یہ حق حاصل ہے خان صاحب اخلاق اورروایات سے زیادہ باخبرہیں برطانیہ جیسی سلطنت کئی صدیوں سے اخلاقیات اور روایات کے تحت چلائی جارہی ہے تحریک انصاف غیرملکی فنڈنگ کے حوالے سے طلب کی گئی تفصیلات پیش کرکے الیکشن کمیشن کواخلاقی اورروایتی طورپربااختیاربناسکتی ہے ۔

بے گناہوں کومارنے والے طالبان کے حق میں نہیں ۔ مولاناسمیع الحق
اچھاکیا جوجناب عالی نے وضاحت فرمائی ورنہ تویہاں سمجھاجارہاتھاکہ حضرت تمام طالبان کے حق میں ہیں یہ بدگمانی آپکے فرمان’’ طالبان ہمارے بچے ہیں‘‘ کی بناپرپیداہوئی اب بات واضح ہوگئی کہ آپکے’’بچے ‘‘ کونسے طالبان ہیں ؟(گڈ اوربیڈکی تفریق یہاں بھی نمایاں ہے) مگر نجانے کیوں حضرت نے آج تک کسی بھی ’’بے گناہوں ‘‘ کے اجتماعی خونریزی کی مذمت نہیں کی انہوں نے بنوں کے مذکورہ خطاب میں بھی فرمایاکہ سامراج کے خلاف کھڑاہونااوراسکے خلاف جہادفرض ہے کہیں انکی نظرمیں سامراج وہ تونہیں جوبازاروں ،مدرسوں،سکولوں،یونیورسٹیوں،بسوں ،پبلک مقامات پرحتیٰ کہ مسجدوں میں کیڑے مکوڑوں کی طرح مررہی ہے اگر یہی ’’سامراج‘‘ ہے تو واقعی اسکے خلاف بڑی کامیابیاں حاصل کی جا چکی ہیں یہ’’ سامراج‘‘ توگزشتہ اڑتیس برسوں سے مارکھارہی ہے اورمررہی ہے مگراسکے باوجودیہ ختم ہونے میں نہیں آرہی ۔

قیمتیں بڑھنے پرٹماٹرچوری ہونے لگے۔(خبر)
جب ٹماٹرجیسی اشیاء کسی قوم کی کمزوری بن جائیں تواس قوم کاخداہی حافظ ہے خبرکے مطابق ٹماٹرپشاورمیں ڈیڑھ سوجبکہ افغانستان میں ڈھائی سوروپے کلوبک رہی ہے بیس روپے کلووالی سبزی یاپھل اگرڈھائی سوروپے کلوہوجائے تولامحالہ چوری کے واقعات سامنے آئیں گے ویسے ٹماٹرچوری کی خبرمیں خبروالی کوئی بات ہی نہیں یہاں پشتو محاورے کے مطابق ’’اوخان پہ بڈہ وہی‘‘(اونٹ نیفے میں اڑسے جاتے ہیں)اورخبرنہیں بنتی استثنیٰ کی چادرکے نیچے گوبھی بلکہ پیٹاکدوتک موجودہیں مگرنظروں سے اوجھل ہیں ویسے ٹماٹرکی قیمت بیس روپے سے زائدنہیں ہونی چاہئے اوراگرہوجائے توقوم ٹماٹرکھاناترک کردے ’’ٹماٹرزدہ‘‘ قوم کودنیاپرحکمرانی کے خواب زیب نہیں دیتے ،ٹماٹرکوٹماٹررہنے دیں، افیون مت بنائیں،گارنٹی ہے قیمت نہیں بڑے گی یہی اطلاق ہرقسم کی اشیا پر کیجئے کسی بھی چیزکی قیمت ناجائزبڑھ جائے تو اسے استعمال کرناترک کردیجئے دولت کے پجاری قیمت خودبخوداعتدال پرلائیں گے ویسے قیمت بڑھنے کابھوک سے بھی گہراتعلق ہے لوگوں میں ٹماٹرکھانے کی بھوک اورسرمایہ داروں کوناجائزمنافع کمانے کی بھوک،اسی بھوک نے ٹماٹرجیسی معمولی چیزکوبھی چوری کے قابل بنایااس بھوک کوقبرکی مٹی ہی مٹاسکتی ہے۔

Wisal Khan
About the Author: Wisal Khan Read More Articles by Wisal Khan: 80 Articles with 57979 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.