۔۔۔پروانے کیلئے چراغ خوشبو کیلئے پھول بس
صدیقؓ کیلئے خدا کا رسولﷺ بس (اقبال)
حضرت سیدنا ابوبکر صدیقؓ کی شان بہت بلند ہے۔حضور نبی کریمﷺ کے ساتھ ہجرت
کا واقعہ ہو یا غزوات کا موقع ،آپؓ ہر جگہ حضورﷺکے شانہ بشانہ کھڑے نظر آتے
ہیں۔یہی وجہ ہے کہ حضورﷺ نے آپؓ کے بارے میں فرمایا کہ میں نے دنیا میں
تمام انسانوں کے احسانوں کا بدلہ دیدیا مگر ابوبکرؓ کے احسانوں کا بدلہ
اللہ عزوجل خود دے گا۔
نام ونسب:
خلیفہ اوّل،جلیل القدر صحابی،یارغار ،امیرالمومنین،مردوں میں سب سے پہلے
اسلام قبول کرنے والے سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا نام عبداللہ،کنیت
ابوبکر اور لقب صدیق اور عتیق تھا۔آپؓ کے والد کا نام عثمان اور کنیت ابو
قحافہ تھی۔والدہ گرامی کا نام سلمیٰ اور کنیت ام الخیر تھی۔آپؓ کا تعلق
قریش کے ایک قبیلہ بنو تمیم سے تھا۔عہد جہالت میں حضرت ابوبکرؓ کا نام عبد
الکعبہ تھا جسے آنحضرتﷺنے تبدیل کر کے عبداللہ رکھ دیا تھا۔
صدیق کی وجہ تسمیہ:
آپؓ کے لقب صدیق کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ آپؓ نے ’واقعہ معراج‘(حضورﷺ کے
معراج پر جانے کی) کی تصدیق کی،چنانچہ حضورﷺ نے آپؓ کی اس تصدیق کی وجہ سے
آپؓ کو صدیق کا لقب دیا اور آپؓ ہمیشہ سچ بولا کرتے تھے۔حضرت انس بن مالکؓ
سے مروی ہے کہ حضورﷺ احد پہاڑ پر تشریفلے گئے اور آپﷺ کے ہمراہ سیدنا
ابوبکر صدیق ،حضرت سیدنا عمرِ فاروق اور حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہم بھی
تھے۔احد پہاڑ پر زلزلہ آگیا ۔حضورﷺ نے اپنے پاؤں مبارک کی ٹھوکر لگائی اور
فرمایا:اے احد !ٹھہر جا،تجھ پر ایک نبی ،ایک صدیق اور دو شہید موجود ہیں۔
عتیق کی وجہ تسمیہ:
حضرت عائشہ صدیقہؓ سے مروی ہے ،فرماتی ہیں کہ ایک دن والد محترم حضور اکرمﷺ
کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوئے تو حضورﷺ نے ارشاد فرمایا ،یا ابوبکر(رضی اللہ
عنہ)!اللہ تعالیٰ نے تمہیں آگ سے آزاد فرما دیا۔چنانچہ آپؓ اسی دن سے عتیق
کے نام سے مشہور ہو گئے۔
ولادت باسعادت:
آپؓ واقع فیل کے اڑھائی برس بعد574ء میں مکہ مکرمہ میں پیدا ہوئے۔
اخلاق وکردار:
آپؓ جاہلیت کے زمانہ سے ہی اعلیٰ اخلاق وکردار کے مالک تھے۔آپؓ نرم دل اور
شریفانہ طبیعت رکھتے تھے اللہ تعالیٰ نے آپؓ کو قلبِ سلیم کی دولت عطا کی
ہوئی تھی،یہی وجہ تھی کہ اپنی قوم کے اکثر گمراہ کن اعتقادات اور عادات
رسوم وغیرہ سے اپنے آپ کو دور رکھتے تھے۔قبولِ اسلام سے پہلے قریش کے اشراف
اور معززین میں آپؓ کا شمار ہوتا تھا،علم الانساب میں سب سے زیادہ ماہر تھے
،فطرت سلیمہ کی وجہ سے لایعنی اور فضولیات سے ہمیشہ کنارہ کش رہتے تھے۔آپؓ
ہمیشہ سچ بولتے تھے اور آپؓ بلند اخلاق وکردار کے مالک تھے۔
حلیہ مبارک:
آپؓ کی رنگت سفید ،بدن دبلا تھا،دونوں رخسار اندر کو دبے ہوئے تھے چہرے پر
گوشت زیادہ نہ تھا ، پیشانی ہمیشہ عرق آلود رہتی تھی اور پیشانی کشادہ
وبلند تھی ۔ہمیشہ نگاہیں نیچی رکھتے تھے ،انگلیوں کی جڑیںگوشت سے خالی
تھیں،حنا اورکسم کا خصاب لگاتے تھے ۔پیٹ بڑھاہوا تھا۔
قبول اسلام:
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ وہ واحد شخصیت ہیں کہ مردوں میں سب سے پہلے
آپؓ نے اسلام قبول کیا ۔حضورﷺ نے ارشاد فرمایا کہ میں نے جس کسی کو اسلام
کی دعوت دی اس نے کچھ نہ کچھ تردد اور ہچکچاہٹ کا اظہار کیا ،سوائے ابوبکر
بن ابی قحافہ(رضی اللہ عنہ)کے ،جب میں نے انہیں اسلام کی دعوت دی تو انہوں
نے بغیر کسی تامل کے فوراًاسلام قبول کر لیا۔آپؓ کو یہ بھی اللہ تعالیٰ کی
طرف سے اعزاز حاصل ہے کہ آپؓ کے خاندان کی چار نسلیں اسلام سے مشرف
ہوئیں،والد،والدہ،خود،اولاد،پوتے نواسے،سب نے نبی اکرمﷺ کے دست اقدس پر
اسلام قبول کیا۔
حضرت حسان بن ثابتؓ کے آپؓ کیلئے اشعار:
جب تم کسی کا رنگ وغم یاد کرو،تو ابوبکرؓ کو بھی یاد رکھو،وہ دنیا میں سب
سے زیادہ متقی اور عادل تھے سوائے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آپؓ
سب سے زیادہ وفادار اور صلح کار تھے،آپؓ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ کی طرف رجوع
ہونے والے اور یارغار تھے،اور آپؓ ہی سب سے پہلے رسولﷺ کی تصدیق کرنے والے
تھے۔
تبلیغ اسلام:
آپؓ نے جب اسلام قبول کیا تو آپؓ نے اس کا اظہار کیا ،اللہ تعالیٰ اور اسکے
محبوب حضور کریمﷺ کی طرف لوگوں کو دعوت دینا بھی شروع فرما دیا اور دینِ
اسلام کی تبلیغ میں کوشاں ہوگئے۔آپؓ کی کوشش سے بہت جلد بہت سے لوگوں نے
اسلام قبول کر لیا ۔آپؓ کی اولین تبلیغ سے جن بلند مرتبہ لوگوں نے دعوتِ حق
پر لبیک کہا ان کا شمار عشرہ مبشرہ صحابہ کرام(رضی اللہ عنہم)میں ہوا۔
مظلموں کی اعانت:آپؓ نہایت رفیق القلب اور رحمدل تھے کسی کے ساتھ ظلم
وزیادتی ہوتا دیکھ کر برداشت نہ کر سکتے تھے۔ آپؓ ہی نے سیدنا بلالؓ کو ان
کے ظالم آقا سے خرید کر آزاد کرایا۔اسی طرح عامر بن فہیرہؓ کو بھی آزاد
کرایا اور نہدیہ اور ان کی بیٹی کو بھی کفار کے ظلم سے نجات دلائی۔
رسول اللہﷺ سے آپؓ کا عشق:
حضرت سیدنا ابوبکر صدیقؓ کو سید عالمین حضرت محمدمصطفیﷺ سے بہت محبت
تھی۔ایک دفعہ نبی رحمت ﷺحرم شریف میں تھے کہ کفار نے آکر نبی پاکﷺ کو ایذا
پہنچانی شروع کر دی۔آپؓ بھاگے ہوئے مسجد پہنچے اور مجمع چیر کر اندر گئے
اور فرمانے لگے کہ کیا تم اس ہستی کو مارنا چاہتے ہو جویہ کہتے ہیں کہ میرا
رب اللہ ہے،اب کافروں نے نبیﷺ کو چھوڑ کر ان کو مارنا شروع کر دیا ،آپؓ کو
اتنا مارا کہ آپؓ بیہوش ہو گئے،آپؓ کے قبیلے کے لوگ آپ کو اٹھا کر گھر لے
گئے،ہوش آتے ہی آپؓ نے اپنی والدہ سے پوچھا کہ نبی کریمﷺ کس حال میں
ہیں؟آپؓ کی والدہ نے کہا کہ بیٹے!تیرا اپنا حال یہ ہے کہ جسم زخموں سے چور
چور ہو چکا ہے اب بھی پوچھ رہے ہو کہ ان(ﷺ)کا کیا حال ہے؟فرمایا :ہاں !جب
تک مجھے ان کے حال کا پتہ نہیں چلے گا اور جب تک میں اپنے آقا ومولیٰ (ﷺ)کو
دیکھ نہیں لوں گا بے قرار رہوں گا جب پتہ چلا کہ آپﷺ دارارقم میں ہیں تو
فوراًوہاں پہنچے اور اپنے یار (نبی رحمتﷺ)کا دیدار کیا۔تو نبی کریمﷺ نے انؓ
کا بوسہ لیا۔
غزوہ تبوک میں جب سیدنا عمرؓ نے دل ہی دل میں سوچا کہ آج میرے پاس مال
زیادہ ہے آج میں ابوبکرؓ سے نیکی میں آگے نکل جاؤں گا کیونکہ ان کے پاس مال
کم ہے تو حضرت عمرؓاپنے گھر کا آدھا مال لے آئے جبکہ سیدنا صدیق اکبرؓ اپنے
گھر کا سارا مال لے آئے تو جب سید عالمینﷺ نے پوچھا کہ عمرؓ کیا لائے تو
کہا کہ آدھا مال لے آیا ہوں اور آدھا گھر والوں کیلئے چھوڑ آیا ہوں تو جب
آقا کریمﷺ نے ابوبکرؓ سے پوچھا کہ کیا لائے ہو تو کہا کہ اپنے گھر کا سار
مال لے آیا ہوں تو رسول اکرمﷺ نے پوچھا کہگھر والوں کیلئے کیا چھوڑ آئے ہو
تو کہا:’ اللہ اور اس کا رسولﷺ‘ تو عمرؓ نے کہا کہ میں ابوبکرؓ سے آگے نہیں
بڑھ سکتا۔
۔۔پروانے کو چراغ ہے بلبل کو پھول بس صدیقؓ کیلئے ہے خدا کا رسولﷺ بس
حضرت ابوبکر صدیقؓ آپﷺ کے بہت ہی قریبی ساتھی تھے۔آپؓ حضور کے ساتھ ہر گزرے
ہوئے وقت کو اپنے لئے باعث فخر سمجھتے تھے۔آپؓ کی حضور پاکﷺ کیلئے پیش کی
گئی خدمات مثالی ہیں ۔ایک دن حضرت عائشہؓ نے حضورﷺ سے پوچھا کہ کوئی ایسا
بھی ہو گا جس کی نیکیاں آسمان میں موجود ستاروں کے برابر ہوں گی تو آپﷺ نے
جواب دیا کہ ہاں!عمرؓ ہیں،جن کی نیکیاں آسمان میں موجود ستاروں کے برابر
ہیں،حضرت عائشہؓ نے کہا کہ مجھے لگا تھا کہ آپﷺ میرے بابا کا نام لیں
گے،آپﷺ نے کہا کہ حضرت ابوبکرؓ کی ایک رات حضرت عمر فاروقؓ کی تمام نیکیوں
سے زیادہ افضل ہے۔اور یہ اسی رات کی بات کی گئی تھی کہ جس کے بارے میں حضرت
عمر فاروقؓ نے کہا تھا کہ مجھ سے میری تمام نیکیاں لے لی جائیں اور سیدنا
صدیق اکبرؓ کی وہ ایک رات مجھے دیدی جائے ۔
ہجرت مدینہ۔۔۔غار ثور میں قیام:
۔ہجرت کا مختصر واقعہ یوں ہے کہ کفار نے اپنی مجلس شوریٰ میں طے کر لیا کہ
وہ نبیﷺ کے گھر کا محاصرہ کرکے آپ کو شہید کر دیں گے۔اسی رات اللہ نے اپنے
محبوب کو حکم دیا کہ اے محبوبﷺ!صدیقؓ کو ساتھ لو اور آج مکہ سے ہجرت کر کے
مدینہ کو سدھاروحضورﷺ نے حضرت علیؓکواپنے بستر پر سونے کا حکم دیا اور
فرمایا صبح لوگوں کی امانتیں جو ہمارے پاس ہیں ان کو پہنچا دینا اور پھر تم
بھی مدینہ کا قصد کرنا ۔حضورﷺ باہر نکلے تو کفار محاصرہ کئے ہوئے تھے آپﷺ
نے سورۃ ےٰسین کی ابتدائی آیتیں پڑھ کر ان پر دم کیا ان پر غنودگی کی کیفیت
طاری ہو گئی اور حضورﷺ بخیروعافیت ان کے نرغہ سے نکل کر صدیقؓ کے گھر کی
طرف روانہ ہو گئے ان کو ہمراہ لیکر مکہ سے نکلے اورغارِ ثور میں قیام
فرمایا۔اس کا منہ بہت تنگ تھا صرف لیٹ کر ہی اندر داخل ہوا جاسکتا تھا۔حضرت
صدیقؓ پہلے خود اندر گئے اور غار کو تمام خس وخاشاک سے صاف کیا۔جتنے سوراخ
تھے ان کو بند کیا ایک سوراخ باقی رہ گیا اس پر اپنے پاؤں کی ایڑھی رکھ دی
اور عرض کی کہ حضورﷺ اندر قدم رنجہ فرمائیں۔حضورﷺ تشریف لائے اور صدیق کے
زانو پر سرِ مبارک رکھا اور استراحت فرما ہو گئے۔صدیقؓ کے بخت کی یاوری کا
کیا کہنا بیتاب نگاہیں اور بے قرار دل اپنے محبوب کے روئے زیبا کے مشاہدہ
میں مستغرق ہے نہ دل سیر ہوتاہے اور نہ آنکھیں۔ وہ حسنِ سرمدی وہجمالِ
حقیقی جس کی دل آویزیوں نے چشمِ فطرت کو تصویرِ حیرت بنا دیا تھا آج صدیق
کے آغوش میں جلوہ فرما ہے۔اے بختِ صدیق کی رفعتو!تم پر یہ خاک پریشان قربان
اور یہ قلبِ حزیں نثار!اسی اثناء میں حضرت صدیقؓ کی ایڑھی میں سانپ نے ڈس
دیازہر سارے جسم میں سرایت کر گیا لیکن کیا مجال کہ پاؤں میں جنبش تک ہوئی
ہو۔حضورﷺ بیدار ہوئے اپنے یارِ غار کی آنکھوں میں آنسو دیکھ کر وجہ دریافت
فرمائی۔پھر جہاں سانپ نے ڈسا تھاوہاں اپنا لعابِ دہن لگایا جس سے درد اور
تکلیف کافور ہو گئی۔اہلِ مکہ تلاش میں ادھر ادھر مارے مارے پھر رہے تھے۔ایک
ماہر کھوجی کے ہمراہ پاؤں کے نشان دیکھتے دیکھتے اس غار کے دہانے تک پہنچ
گئے جب قدموں کی آہٹ سنائی دی تو حضرت ابوبکرؓ نے جھک کر دیکھا تو معلوم
ہوا کہ کفار کی ایک جماعت غار کے منہ پر کھڑی ہے۔اپنے محبوب کو یوں خطرہ
میں گھرا دیکھ کربے چین ہو گئے اور عرض کی کہ یارسول اللہﷺ!اگر انہوں نے
جھک کر دیکھا تو یہ ہمیں پا لیں گے۔حضورﷺ نے فرمایا کہ اے ابوبکر !ان دو کی
نسبت تمہارا کیا خیال ہے جن کا تیسرا اللہ تعالیٰ ہو۔یہ ہے توکل اللہ کا وہ
مقام جو شانِ رسالت کے شایاں ہیں اس وقت اللہ نے اطمینان وتسکین کی ایک
مخصوص کیفیت اپنے حبیب ﷺ پر نازل فرمائی اور حضورﷺ کے صدقے حضرت ابوبکرؓ پر
بھی اس کا ورود ہوا جس سے ان کی ہر طرح کی پریشانی دور ہو گئی۔حضورﷺ تین دن
تک وہاں قیام فرما رہے۔حضرت اسماءؓحضرت صدیقؓ کی بڑی صاحبزادی آکر کھانا
پہنچا جاتیں ۔آپ کے صاحبزادے ہر روز کی نئی خبریں دے جاتے اور آپ کا
چرواہاعامر بن فہیرہ رات کو ریوڑ لے آتااور تازہ دودھ پیش کرتا۔حضرت صدیقؓ
کے کنبہ کا ہر فرد بلکہ غلام تک اتنے مخلص اور قابلِ اعتماد تھے کہ کسی نے
راز کو افشاء نہ کیا اور گراں قدر انعام کا لالچ ان کے غلام کے دل کو بھی
نہ للچا سکا۔کفار مکہ نے حضورﷺ کو شہید کرنے کی جو ناپاک سازش کی تھی اس
طرح ناکام ہوئی اور اللہ کی بات جو ہمیشہ بلند رہتی ہے اس موقع پر بھی بلند
ہو گئی۔حضرت ابوبکر صدیقؓ کی صحابیت قرآن سے ثابت ہے جو شخص حضرت ابوبکر
صدیقؓ کی صحابیت کا انکار کرے وہ نصِ قرانی کا منکر ہو کرکافر ہوا۔
حضرت صدیق اکبرؓ حضور نبی کریمﷺ کے سسر بھی تھے کیونکہ ام المومنین سیدہ
عائشہ صدیقہؓ آپؓ کی صاحبزادی تھیں۔آپؓ تمام غزوات میں حضور نبی کریمﷺ کے
ساتھ رہے۔آٹھ ہجری میں فتح مکہ کے موقع پر آپؓ حضور نبی کریمﷺ کے ساتھ شہر
میں داخل ہوئے ،نو ہجری میں حضورﷺ نے آپؓ کو امیرِ حج مقرر کیا۔رسولِ کریمﷺ
کے وصال کے بعد امت مسلمہ نے آپؓ کو اپنا خلیفہ منتخب کیا،آپؓ نے اپنے خطبہ
میں فرمایا:اے لوگو!میں تمہارا حاکم تو بنایا گیا ہوں لیکن تم سے بہتر نہیں
ہوں اگر میں نیک کام کروں تو اس میں میری مدد کرو اور اگر برا کام کروں تو
مجھے ٹوکو،صدق امانت ہے اور کذب خیانت،تمہارا کمزور شخص میرے نزدیک طاقتور
ہے اور تمہارا طاقتور شخص میرے نزدیک کمزور ہے۔
لشکرِ اسامہ بن زیدؓ:
ماہِ صفر کے آخری ایام میں رسول کریمﷺ نے مسلمانوں کو بلقا اور فلسطین کے
علاقوں میں جاکر رومیوں سے جنگ کرنے کا حکم دیا ،اس جنگ کیلئے تیار ہونے
والے لشکر میں مہاجرین وانصار میں سے کبار صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بھی
شامل تھے،سید عالمینﷺ نے اس لشکر کی قیادت حضرت اسامہ بن زیدؓ کے سپرد کر
دی۔سید عالمینﷺ کے وصال مبارک سے دو دن قبل لشکرِ اسامہ بن زیدؓ کی تیاری
مکمل ہو گئی تھی اور اسکی تیاری کا سلسلہ رسولِ کریمﷺ نے اس مقصد کیلئے
ماہِ صفر کے آخر میں لوگوں کو جہادِ روم پر جانے کا حکم دیا اور حضرت اسامہ
بن زیدؓ سے ارشاد فرمایا کہ تم اس مقام کی طرف روانہ ہو جاؤ جہاں تمہارے
والد نے شہادت پائی تھی وہاں خوب جہاد کرو،میں تمہیں وہاں جانے والے لشکر
کا امیر مقرر کرتا ہوں۔رسول کریمﷺ لشکر اسامہؓ کی روانگی سے دو دن پہلے
شدید بیمار ہو گئے جس کے باعث یہ لشکر مقامِ جرف پر رک گیااور نبی کریمﷺ کے
وصال مبارک کے بعد مدینہ طیبہ آگیا۔حضور کریمﷺ کے وصال کے تیسرے دن آپؓ نے
ایک شخص کو حکم دیا کہ وہ اعلان کرے کہ اسامہ کے لشکر کو رومیوں سے جہاد
کیلئے بھیجنے کا فیصلہ ہو چکا ہے،اسلئے اس لشکر کا ہر سپاہی مدینہ طیبہ سے
نکل کر مقام جرف پر پہنچ جائے جہاں پر کہ اس لشکر نے پہلے روز پڑاؤ ڈالا
تھا۔صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اس لشکر کو نہ بھیجنے کا کہااور کہاکہ ان
نازک حالات میں مناسب نہیں کہ آپ مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد کو اپنے سے الگ
کر دیں،یہاں پر یہ جماعت رکے گی تو مددگار ثابت ہو گی۔سیدنا صدیق اکبرؓ نے
اس بات کو قبول نہ فرمایا اور ارشاد فرمایا کہ اس ذات کی قسم!جس کے ہاتھ
میں ابوبکر کی جان ہے اگر مجھے یہ یقین ہو کہ جنگل کے درندے مجھے اٹھا کر
لیجائیں گے تو بھی میں اسامہ کا لشکر ضرور روانہ کروں گا جس طرح کہ رسول
کریمﷺ نے اس کو روانہ کرنے کا حکم فرمایا تھا۔اگر ان بستیوں میں میرے سوا
کوئی بھی نہ رہے اور میں اکیلا رہ جاؤں تو بھی یہ لشکر روانہ ہو گا۔
خلافت کا عرصہ(۶۳۲ء۔۔۶۳۴):
آپؓ کے دور خلافت میں مندرجہ ذیل واقعات پیش آئے:
آپؓ نے مرتدین کے خلاف لشکر کشی کر کے فتنہ ارتداد کا خاتمہ کر دیا۔آپؓ کے
دور میں بہت سے لوگوں نے جھوٹی نبوت کا دعویٰ کیا جس میں مسلیمہ کذاب بھی
شامل تھا ،سیدنا صدیق اکبرؓ نے اس فتنہ کے خاتمہ کیلئے حضرت خالد بن ولیدؓ
کی قیادت میں اسلامی لشکر کو ترتیب دیا اور اس مسلیمہ کذاب کے فتنہ کو ختم
کیا۔ آپؓ نے مرتدین کی سرکوبی اور قلع قمع کیلئے گیارہ لشکر تیار کئے
تھے۔سو آپؓ نے ناموسِ رسالتﷺ کی حفاظت کی۔آپؓ نے منکرین زکوۃ کی سرکوبی
کی،آپؓ نے لشکر کشی کر کے مدعیان نبوت کا خاتمہ کر دیا آپؓ کے زمانہ خلافت
میں مسلمانوں نے عراق پر حملہ کر کے کئی ایرانی سالاروں کو شکست دی اور کئی
مقامات پر قبضہ کر لیا،اجنادین کی جنگ میں بھی فتح حاصل کی۔آپؓ نے قرآن کو
جمع کرنے کا حکم دیا۔
آپؓ کی اہل بیت سے محبت:
ایک دفعہ آپؓ نے حضرت امام حسینؓ کو گود میں اٹھا کر پیار کیااور آنسو جاری
تھے اور فرمایا کہ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں ابوبکر کی جان ہے مجھے آپﷺ
کے رشتے اپنے رشتوں سے بھی زیادہ محبوب ہیں۔ایک دفعہ آپؓ حضرت علیؓ کے چہرے
کو دیکھے جارہے تھے کہ حضرت عائشہؓ نے پوچھا کہ بابا!آج آپؓ حضرت علی کرم
اللہ وجہہ الکریم کے چہرے کو کیوں دیکھے جارہے تھے؟آپؓ نے جواب دیا کہ میری
پیاری بیٹی!میں نے رسول اللہﷺ سے سنا ہے کہ علیؓ کے چہرے کو دیکھنا عبادت
ہے اسلئے میں بھی مولا علیؓ کے چہرے کی زیارت کر رہا تھا۔سو آپؓ کو اہلِ
بیت سے بے حد محبت تھی۔
وصال مبارک:
سیدنا ابوبکر صدیقؓ یار غارویارِ مزار 22جمادی الثانی13ہجری بروز منگل علی
الصبح 63سال کی عمر میں اس دنیا فانی سے پردہ فرما گئے۔وقت نزاع آپؓ نے
اپنی بیٹی عائشہ کو وصیت کرتے ہوئے کہا تھا کہ مجھے انہی دو کپڑوں کے ساتھ
دفن کرنا کیونکہ نئے کپڑوں کی ضرورت مردوں سے زیادہ زندوں کو ہوتی
ہے۔اپنےوصال سے قبل آپؓ نے یہ بھی وصیت فرمائی کہ میرا جنازہ حضور کریمﷺ کے
حجرہ مبارک کے سامنے رکھ دینا اور اجازت طلب کرنا اگر دروازہ کھل جائے اور
اجازت مل جائے تو مجھے ہجرہ مبارک کے اندر دفن کرنا ورنہ عام قبرستان میں
،چنانچہ جب آپؓ کا جنازہ روضہ اقدس کے سامنے رکھا گیا تو دروازہ کھل گیا
اور روزِ اقدس سے آواز آئی :دوست کو دوست کے پاس لے آؤ۔قربان جائیں سیدنا
صدیق اکبرؓ آپؓ کی عظمت پر!قیامت تک یار غار کے ساتھ یار مزار بن گئے۔
اللہ پاک ہم سب کی آپؓ کے وسیلہ سے مغفرت فرمائے اور جنت الفردوس میں اعلیٰ
مقام عطا کرے!
سلام اے حضرت صدیق اکبرؓاے جہاں دیدہ ،سلام ہے حضرت صدیقؓ آقاﷺ کے
پسندیدہ،سلام ہے حضرت صدیقؓ تیری شان عالی ہے،تیرا ایکان اعلیٰ تیرا ایمان
عالی ہے،سلام ہے حضرت صدیقؓ تو ہے غار کا ساتھی،نبیﷺ کے روضہ پرنور جنت زار
کا ساتھی،سلام ہے حضرت صدیقؓ پیارے تو مہاجر ہے،تیری آقاﷺ سے الفت کا بیاں
ہر اک زباں پر ہے،سلام ہے حضرت صدیقؓ تو سردار امت ہے، سلام ہے حضرت صدیقؓ
تو رحمت ہی رحمت ہے،سلام ہے حضرت صدیقؓ تو آقاﷺ کا ہے تارہ،لٹا یا تو نے
سرکار کے قدموں میں گھر سارا۔ |