حرمین شریفین کی حاضری کے دوران سوچ و بچار کرتا رہا کہ
اگلا کالم کس موضوع پر تحریر کیا جائے۔ ایک خیال یہ تھا کہ "مشاہدات حرمین
شریفین" کے عنوان سے کچھ ایسی اصلاحی باتیں لکھوں جو ہم جملہ زائرین حرمین
کیلئے فائدہ مند ہوں۔ لیکن مدینہ شریف میں قیام کے دوران کچھ ایسی صورت حال
پیدا ہوئی کہ پوری توجہ سمٹ کر درحبیب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کیدہلیز پہ
آکے رک گئی اور ابھی ابھی ارادہ بدل لیا کہ اس موضوع پر بالتفصیل اصلاحی
باتیں آئندہ کسی کالم میں لکھوں گا البتہ چند ایک ضروری باتیں اس میں بھی
ذکر کر دونگا۔ آج بروز بدھ 5 اپریل 2017 ہے۔ ہوا یوں کہعصر سے پہلے "باب
السلام" سے داخل ہو کر مواجہ شریف(حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے رخ اقدس اور
چہرہ مبارک) کے سامنے کھڑے ہو کر، آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بارگاہ
عالی میں درود وسلام کا نذرانہ عقیدت و محبت پیش کیا۔ جب مواجہ شریف کے
سامنے پہنچے تو منتظمیں نے کہا کہ بیٹھ جاؤ کیونکہ عصر کا وقت قریب ہے۔ لوگ
بیٹھنے لگے لیکن ہمارا دل نہیں مان رہا تھا کہ نماز پڑھتے ہوئے نبی کریم
صلی اللہ علیہ وسلم کے رخ اقدس کی طرف پیٹھ ہو۔ ہو سکتا ہے کہ "کتابی مفتی"
جواز کا ہی فتوی دیں لیکن میرے دل کا مفتی مجھے کھینچ کے باہر لے آیا کہ
بجائے مواجہ شریف کی طرف پیٹھ کر کے نماز پڑھنے کے ہم آپ صلی اللہ علیہ و
آلہ وسلم کے قدموں کی طرف اور گنبد خضری کے سامنے نماز پڑھیں گے۔ "باب بقیع"
سے باہر آکر قدمیں شریفین کی سمت والی کھڑکی کے سامنے بیٹھے ہی تھے کہ "باب
جبریل" (مسجد نبوی شریف کا باب بقیع اور باب بلال رضی اللہ عنہ کے درمیان
والا دروازہ) کھول دیا گیا اور زائرین کو اند آنے کی اجازت دے دی گئی۔ اللہ
کریم نے ہمیں بھی بآسانی اندر آنے کا موقع عطا فرمایا۔ نماز عصر "باب جبریل"
سے داخل ہو کر قدمین شریفین کے پاس ادا کی۔ بعد از نماز روضہ اطہر کی دیوار
کے ساتھ عین اس جگہ بیٹھنے کی سعادت میسر آگئی جہاں آقائے دو جہاں صلی اللہ
علیہ وسلم کے قدمین شریفین ہیں۔ اس موقع کو اپنے لئے دین و دنیا کاسرمایہ
سمجھا۔ درود پاک کا نذرانہ پیش کرکے اپنے کریم آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی
بارگاہ میں التجا کی کہ یہاں بیٹھ کر چند سطور لکھنے کی جسارت کر رہا ہوں۔
اجازت عنایت فرمائیں۔یا رسول اللہ آپ شافع یوم النشور ہیں۔ہم گنہگاروں اور
ان سطور کے ہرپڑھنے والے کی شفاعت فرمانا۔ الحمد للہ رب العالمین یہ اللہ
کا خصوصی کرم ہے۔ نہ جانے پھر زندگی میں ایسے پرکیف لمحات نصیب ہوں کہ نہ
ہوں۔ اپنی کم مائیگی کے احساس کے ساتھ گہری سوچوں میں گم ہوں کہ میرے رب
کریم کی کتنی کرم نوازی ہے کہ مجھے یہاں بیٹھنے کا موقع عنائت فرمایا۔ اس
وقت میرے سر کے اوپر گنبد خضری ہے۔ دائیں ہاتھ مرشد قلب و نظر میرے آقائے
نعمت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا روضہ مبارک ہے۔ اس سے متصل ریاض الجنہ،
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا منبر و مصلی اور اصحاب صفہ کا چبوترہ ہے۔
آپ کے روضہ اطہر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حضرت ابوبکر صدیق
اورحضرت عمر فاروق رضی اللہ عنھما آرام فرما ہیں اور یہ فقیر ان کے بھی
قدموں میں بیٹھا ہے۔ جب بائیں طرف توجہ کروں تو مسجد نبوی کے صحن سے متصل "جنت
البقیع" کا قبرستان ہے جہاں حضرت عثمان غنی، حضرت امام حسن، خاتون جنت حضرت
فاطمة الزہرہ، نبی کریم صلی اللہ علیہ و و آلہ وسلم کی ازواج مطہرات اور
جلیل القدر صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیھم و علیھن اجمعین کے پر انوار
مقبرے ہیں۔ میرے پاس کاغذ ہے نہ قلم اور نہ ہی کوئی لائبریری۔ بارگاہ رسالت
مآب میں جھکا ہوا دل ہے اور احساس گناہ سے کانپتا وجود۔ بس ایک موبائل ہے
جس کی سکرین پر اپنے جذبات کو الفاظ میں ڈھال رہا ہوں۔ جب اپنی کم ہمتی اور
گناہوں کا خیال آتا ہے تو لرزہ بر اندام ہو جاتا ہوں۔ دل کانپنے لگتاہے اور
آنکھیں اشک ہاہے ندامت سے تر ہوجاتی ہیں کہ کہاں میں جو علم کی رموز سے نا
آشنا، اسرار تصوف سے بے بہرہ اورادب کی وادی سے ناواقف ،ہیچمداں اور
نکما۔اور کہاں یہ بارگاہ محبوب رب العالمین، الوالعزم ہستیاں اور مقامات
مقدسہ۔ لیکن پھر قرآن پاک کی یہ آیت ورد زباں ہو کر باعث تسکین بن جاتی ہے
کہ " ولو انہم اذظلموا انفسہم جاؤاک. فاستغفروااللہ واستغفر لہم الرسول
لوجدوا اللہ توابا رحیما۔ کہ۔۔۔(اے میرے پیارے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم ۔
آپ کے یہ غلام اگر گناہوں کی وجہ سے اپنے اوپر زیادتی کر بیٹھیں۔ پھر آپ کی
بارگاہ میں حاضر ہوجائیں ۔ یہ بھی اللہ کریم سےاپنے گناہوں کی معافی مانگیں
اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی ان کے حق میں استغفار کریں تو یہ
اللہ کی ذات کو توبہ قبول کرنے والا اور اپنے بندوں کے حال پہ رحم کرنے
والا پائیں گے ) ہمیں اپنے گناہوں پر ندامت ہے اور اللہ کے حضور معافی کی
التجا بھی۔ لیکن پھر بھی ہماری پناہ گاہ تو یہی بارگاہ عالی ہے۔ یوم محشر
شفاعت کبری کی امیدیں اسی در سے وابستہ ہیں اور اللہ کی ذات کی معرفت
اورقرب کی خیرات بھی اسی دروازے سے ملنی ہے۔ بقول کسے
فنا فی اللہ ہوتے ہیں، فنا فی المصطفی ہو کر
خدا کو ڈھونڈھنے والے نبی کے در پہ آتے ہیں
ہمہ وقت زمین کے چپے چپے سے لوگ سفر کرکے حرمین شریفین حاضر ہوتے ہیں۔
عاجزی و انکساری کا پیکر بن کر پروانہ وار حق عبدیت ادا کرتے ہیں۔ آہوں اور
سسکیوں کے ساتھ انداز طلب خوبصورت اور دیدنی ہوتا ہے۔ لیکن کبھی کبھار ایسے
افسوسناک مناظر بھی دیکھنے کو ملتے ہیں کہ مقامات مقدسہ کا احترام ملحوظ
خاطر نہیں رکھا جا رہا ہوتا. انتہائی قیمتی لمحات گپ شپ کی نظر کیے جا رہے
ہیں۔ کچھ زائرین حرمین گردنیں اکڑا اکڑا کر اور پوز بدل بدل کر فوٹوگرافی
اور سیلفیوں میں مشغول نظر آتےہیں۔ ایسی حرکات و سکنات دیکھ کربہت کوفت
ہوتی ہے۔ خصوصا خانہ کعبہ شریف کے احترام کا خیال رکھنا ہمارا دینی فریضہ
ہے اورمواجہ شریف (نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے چہرہ مبارک) کے
سامنے حاضری کے وقت تو حد درجہ ادب و احترام اور عجز و انکساری کا مرقع بن
کے اپنے آقا و مولا کی بارگاہ میں درو سلام پیش کرنا چاہئے۔ لیکن کچھ
زائرین یہاں بھی خاصی توجہ اپنے موبائل پر فوٹو گرافی یا سیلفیوں پر مرکوز
کیے ہوتے ہیں۔ ہمیں احساس ہونا چاہیئے کہ یہ لمحے زندگی میں بار بار آیا
نہیں کرتے۔ اور ہمیں اس بات کا بھی بخوبی احساس ہونا چاہیے کہ ادب و احترام
کے حوالے سے یہ انتہائی نازک مقام ہے۔ اللہ کریم نے اس بارگاہ کے آداب خود
سکھائے ہیں۔ یہاں کی بے ادبی ہماری زندگی بھر کی نیکیوں کو ضائع کرنے کا
سبب بن سکتی ہے۔ مقام مصطفی وہ مقام ہے کہ بقول اقبال
ادب گاہیست زیر آسماں از عرش نازک تر
نفس گم کردہ مے آید جنید و با یزید اینجا
ترجمہ(آسمان کے نیچے یہ وہ ادب کی جگہ ہے جو عرش سے بھی نازک تر ہے۔ یہاں
حضرت جنید بغدادی اور با یزید بسطامی رح جیسی ہستیاں اپنے سانس کو گم کر
لیتی ہیں کہ کہیں سانس کا بے ربط آنا جا نا بارگاہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ
و آلہ وسلم کی بے ادبی شمار نہ ہوجائے۔ حضرت خواجہ فخر الدین سیالوی
رحمةاللہ علیہ فرماتے ہیں۔۔۔
باب جبریل کے پہلو میں ذرا دھیرے سے
فخر کہتے ہوئے جبریل کو یوں پایا گیا
اپنی پلکوں سے در یار پہ دستک دینا
اونچی آواز ہوئی عمر کا سرمایہ گیا
الحمد للہ مدینہ طیبہ کی پر کیف فضاؤں میں جو لمحات بیت رہے ہیں، محسوس
ایسے ہوتا ہے کہ یہی "حاصل زندگی" ہیں۔ روضہ اطہر کی اندرونی دیوار کے ساتھ،
عین نبی کریم رؤف رحیم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے قدموں میں بیٹھ کر
اپنےجذبات کو الفاظ کا جامہ پہنانے کا اپنا ہی لطف ہے۔ خصوصا باب جبریل کی
دہلیز کے پاس بیٹھ کر جب یہ اشعار ورد زباں ہوئے تو دل مچلنے لگا اور وجود
کے انگ انگ سے وہ کیفیت عیاں ہو رہی ہیں کہ جنہیں لفظوں کا جامہ پہنانا
محال ہے۔
سارے نبیوں کے عہدے بڑے ہیں لیکن آقا ﷺکا منصب جدا ہے
وہ ا مامِ صفِ انبیاؑ ء ہیں، ان کا رتبہ بڑوں سے بڑا ہے
کوئی لفظوں سے کیسے بتا دے، ان کے رتبے کی حد ہے تو کیا ہے
ہم نے اپنے بڑوں سے سنا ہے، صرف اللہ ہی ان سے بڑا ہے
مستقل ان کی چوکھٹ عطا ہو، میرے معبود یہ التجا ہے
کوئی پوچھے تو یہ کہ سکوں میں، باب جبرئیل میرا پتہ ہے |