گلگت بلتستان کو آئینی عبوری صوبہ بنانے کی سفارشات

پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کے لئے یہ بات سمجھنے کی ہے کہ گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کے خطوں کو اندرونی سطح پہ مکمل اختیارات دیئے جانے سے پاکستان کی قوت میں کمی کے بجائے اضافہ ہو گا ،عالمی سطح پہ مسئلہ کشمیر پر پاکستان کے موقف کو تقویت حاصل ہو گی اور مقبوضہ کشمیر کے عوام کے لئے بھی ایک پرکشش صورتحال پیدا ہو گی۔لیکن سوال یہ ہے کہ پاکستان میں کشمیر کاز اور پاکستان کے وسیع تر مفاد کا احساس و ادراک آخر کس کو ہے؟ہے بھی یا نہیں؟

گلگت بلتستان ،پاکستان،آزاد کشمیر اور مقبوضہ کشمیر ہی نہیں بلکہ ہندوستان اور عالمی برادری بھی اس بات پہ نظر رکھے ہوئے ہے کہ پاکستان حکومت گلگت بلتستان کو اپنا صوبہ بناتی ہے یا نہیں۔28اپریل1949کو حکومت پاکستان اور آزاد حکومت ریاست جموں و کشمیر کے درمیان معاہدہ کراچی کے تحت آزاد حکومت کی نمائندہ حیثیت ختم کر دی گئی اور گلگت بلتستان کا انتظام حکومت پاکستان نے لے لیا۔آج اس معاہدے کے متعلق یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اس معاہدے سے معلوم ہوتا ہے کہ گلگت بلتستان کا انتظام آزاد کشمیر حکومت سے لیا گیا ۔گلگت بلتستان میں یہ تصور عام ہے کہ آزاد کشمیر حکومت نے گلگت بلتستان کا انتظام پاکستان کے حوالے کر کے ان کے مسائل و امور سے لاتعلقی اختیار کر لی،جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اس وقت بھی آزاد کشمیر حکومت کی حیثیت یہی تھی کہ وہ حکومت پاکستان کے اس معاہدے سے انکار کی پوزیشن میں نہیں تھی۔اپنی مرضی کا اختیار آزاد کشمیر حکومت کو کبھی بھی حاصل نہیں رہا۔دوسرا تصور گلگت بلتستان میں یہ پھیلا یا گیا کہ مسئلہ کشمیر کی وجہ سے گلگت بلتستان کو حقوق نہیں ملے،جبکہ حقیقت میں مسئلہ کشمیر سے اس بات پہ کوئی پابندی نہیں لگتی کہ گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کی حکومتوں کو مکمل مقامی امور میں بااختیارنہ کیا جائے۔یہ بات سمجھنے کی ہے کہ آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کے حقوق کے امور محض آئینی حوالے سے مالیاتی اور انتظامی حقوق سے متعلق ہی نہیں بلکہ اصل مسئلہ ان خطوںکا اسٹیبلشمنٹ ،بیوروکریسی کی طرف سے برتائو کا وہ انداز ہے جس میں اب تک کوئی تبدیلی دیکھنے میں نہیں آ سکی ہے۔

اطلاعات کے مطابق گلگت بلتستان میں آئینی سیٹ اپ کی تشکیل نو کے لئے وزیر اعظم پاکستان کے مشیر خارجہ سرتاج عزیز کی سربراہی میں قائم کمیٹی نے اپنی سفارشات وزیر اعظم نواز شریف کو دے دی ہیں۔ان تجاویز کے مطابق گلگت بلتستان کو صوبے کی طرح کا درجہ دیا جائے گا اور خطے کے رقبے اور آبادی کے مطابق گلگت بلتستان کو قومی اسمبلی اور سینٹ میں نمائندگی دی جائے گی۔تاہم گلگت بلتستان کو صوبہ ڈیکلیئر نہیں کیا جائے گابلکہ اسے آئینی عبوری صوبے کا نام دیا جائے گا۔(اطلاعات کے مطابق گلگت بلتستان کو قومی اسمبلی میں 4اور سینٹ میں3سیٹیں دینے کی تجویز ہے)اس مقصد کے لئے آئین کے آرٹیکل1میں کوئی تبدیلی نہیں کی جائے گی البتہ گلگت بلتستان کوقومی اسمبلی اور سینٹ میں نمائندگی دینے کی خاطر متعلقہ دفعات/آرٹیکلز میں ترامیم کی جائیں گی ۔اس کے علاوہ پاکستان کے آئین کے تحت قائم، مالیاتی اور بین الصوبائی معاملات کو حل کرنے کے لئے قائم آئینی ادارے مثلا نیشنل اکنامک کونسل ،کونسل آف کامن انٹرسٹ اور ارسا سمیت جملہ دیگر اداروں میں گلگت بلتستان کو ممبر شپ نہیں دی جائے گی بلکہ ان میں سے چند اداروں میں گلگت بلتستان کو 'آبزر ور سٹیٹس' یا خصوصی دعوت پر شمولیت کی سہولت دی جائے گی،جس کے نتیجے میں گلگت بلتستان کو ان اداروں میں بغرض مشاورت یا ووٹنگ ،فیصلے کا استحقاق حاصل نہ ہو گا۔

اس طرح گلگت بلتستان کے انتظامی ڈھانچہ اور پولیٹیکل انپاور منٹ کے انتظامی حکم مجریہ2009''گلگت بلتستان انپاورمنٹ اینڈ سیلف گورنینس آڈر2009''کے تحت گلگت بلتستان کونسل کو جو وسیع تر مالیاتی،انتظامی اورقانون سازی کے اختیارات حاصل ہیں،ان میںبھی کسی قسم کی تبدیلی کی کوئی سفارش یا امکان نہیں ہے۔جس کا مطلب یہ ہے کہ گلگت بلتستان کے معاملات میں قانون سازی،مالیاتی کنٹرول اور دیگر انتظامی امور پر مکمل اور موثر کنٹرول بدستور کونسل کو حاصل رہے گا۔چائنا پاکستان اکنامک کولیڈور(CPEC)کے حوالے سے گلگت بلتستان کے وسائل اور آمدن میں جو اضافہ ہو رہا ہے،اس کا فائدہ گلگت بلتستان کو براہ راست ہونے کا کوئی امکان نہیں کہ ان تمام معاملات پر کونسل بدستور قابض،متصرف رہے گی۔یوں گلگت بلتستان کو علامتی طور پر جو صوبائی طرز کا سٹیٹس دیا جا رہا ہے،اس میں ان کے وسائل ،کنٹرول اور اضافے کی صورت میں تعمیر و ترقی کے لئے گلگت بلتستان کا اندرونی مالیاتی خود مختاری کا مطالبہ پورا نہیں ہو سکے گا۔گلگت بلتستان کے حوالے سے سرتاج عزیز کمیٹی نے مختلف امور پر دو دو،تین تین تجاویز دی ہیں کہ ان میں سے کوئی بھی قبول کر لی جائے۔

گلگت بلتستان کے بارے میں سرتاج عزیز کمیٹی میں تمام قومی ادارے 'آن بورڈ' کئے گئے ہیں۔اطلاعات کے مطابق گلگت بلتستان کو اس طرز کاعبوری صوبائی سٹیٹس دینے اور مکمل طور پر صوبہ ڈیکلیئر نہ کرنے کی وجہ یہ بیان کی جا رہی ہے کہ آئین کے ّرٹیکل 1کے تحت صوبہ قرار دینے سے آئین کے آرٹیکل257کے تحت تمام ریاست جموں و کشمیر کے حوالے سے حکومت پاکستان کی تسلسل سے اختیار کردہ پالیسی کی نفی ہو گی اور اس سے مسئلہ کشمیر پر منفی اثرات مرتب ہو نے کا قوی احتمال ہے،جیسا کہ قبل ازیں شملہ معاہدے کے تحت مسئلہ کشمیر کو پاکستان اور ہندوستان کے درمیان باہمی تنازعہ قرار دینے سے زیر بحث چلا آ رہا ہے اور مقبوضہ کشمیر میں میں جاری ہندوستان کے خلاف جدوجہد آزادی کے پیش نظر ،حکومت پاکستان 'افورڈ' نہیں کر سکتی۔گلگت بلتستان کے حوالے سے ان تجاویز کو آئینی اعتبار سے دیکھا جائے ،جو صوبائی سٹیٹس دینا چاہتے ہیں،پاکستان کے آئین میں یہ گنجائش نہیں ہے کہ کسی خطے کو عبوری طور پر صوبہ قرار دیا جائے۔پاکستان کے آئین کے تحت زیر انتظام کی تعریف میں گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر نہیں آتے۔آرٹیکل 258قبائلی علاقوں اور اسلام آباد ٹیریٹری کی گورنینس کے لئے قانون سازی کے اختیار کو ڈیل کرتی ہے۔یوں پاکستان کے آئین میں کسی خطے کو اپنا آئینی عبوری صوبہ بنانے کی کوئی گنجائش موجود نہیں ہے۔

گلگت بلتستان حکومت سمجھتی ہے کہ قومی اسمبلی اور سینٹ میں نمائندگی ملنے سے وہ وہاں گلگت بلتستان کے حقوق کے حوالے سے آواز اٹھائیں گے۔اب اختیارات گلگت بلتستان کونسل کو ہی دیا جائے تو 'سیلف گورنینس ' کس بات کی؟ 60/70فیصد ملازمین وفاق سے متعین ہوں تو گلگت بلتستان کو کون سی 'سیلف گورنینس' ملے گی؟اگر گلگت بلتستان حکومت کو مالیاتی،انتظامی اختیارات مل جائیں تو وہ قومی اسمبلی اور سینٹ میں نمائندگی کے مطالبے سے دستبردار ہونے کو تیار ہیں۔گلگت بلتستان حکومت یہ سمجھتی ہے کہ قومی اسمبلی اور سینٹ میں نمائندگی ملنا، گلگت بلتستان کو صوبہ بنانے میں ایک پیش رفت ہے اور اس سے مستقبل میں پاکستان کا پانچواں صوبہ بناتے ہوئے گلگت بلتستان کو باقی صوبوں کی طرح مکمل اختیارات حاصل ہو جائیں گے۔

یوں گلگت بلتستان کو عملی طور پر کچھ حاصل ہوتا تو نظر نہیں آ رہا کہ اس کے تمام مالیاتی اور انتظامی امور پر بدستور گلگت بلتستان کونسل قابض رہتے ہوئے مستفید ہوتی رہے گی ۔مجھے یاد ہے کہ گلگت بلتستان اسمبلی کے قیام سے پہلے گلگت بلتستان کے سیاسی افراد گلگت سے راولپنڈی تک بسوں پہ سفر کرتے تھے اور اسمبلی بننے کے بعد ان کے پاس اچھی گاڑیاں آ گئیں۔یوں قومی اسمبلی اور سینٹ میں نمائندگی ملنے سے گلگت بلتستان کے کئی سیاستدانوں کا تو 'بھلا' ہوتا تو نظر آتا ہے لیکن گلگت بلتستان کے عوام بدستور حقوق نہ دیئے جانے کے شاکی ہی رہیں گے۔پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کے لئے یہ بات سمجھنے کی ہے کہ گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کے خطوں کو اندرونی سطح پہ مکمل اختیارات دیئے جانے سے پاکستان کی قوت میں کمی کے بجائے اضافہ ہو گا ،عالمی سطح پہ مسئلہ کشمیر پر پاکستان کے موقف کو تقویت حاصل ہو گی اور مقبوضہ کشمیر کے عوام کے لئے بھی ایک پرکشش صورتحال پیدا ہو گی۔لیکن سوال یہ ہے کہ پاکستان میں کشمیر کاز اور پاکستان کے وسیع تر مفاد کا احساس و ادراک آخر کس کو ہے؟ہے بھی یا نہیں؟یہاں یہ بات بھی اہم ہے کہ گلگت بلتستان کے لئے اس مجوزہ نئے سیٹ اپ کے حوالے سے سرتاج عزیز کمیٹی یا حکومت پاکستان نے آزاد کشمیر حکومت سے کسی قسم کا کوئی رابطہ نہیں کیا ہے اور ناہی اس حوالے سے آزاد کشمیر حکومت کو کچھ بتانا،مشاورت کرنا ضروری سمجھا گیا ہے۔

Athar Massood Wani
About the Author: Athar Massood Wani Read More Articles by Athar Massood Wani: 777 Articles with 701725 views ATHAR MASSOOD WANI ,
S/o KH. ABDUL SAMAD WANI

Journalist, Editor, Columnist,writer,Researcher , Programmer, human/public rights & environmental
.. View More