13 رجب……یوم وفات شیخ الادب مولانا اعزاز علی امروہی ؒ

شیخ الادب حضرت مولانامحمد اعزاز علی صاحب ؒ کے نام اور کام سے اہل علم حضرات خوب اچھی طرح واقف ہیں ۔ درسِ نظامی کی تعلیم کی تکمیل کے سلسلہ میں ایک نو آموز طفل دبستان طالب علم کو فن ادب و فقہ کی جن موشگافیوں کے حصول کی قدم قدم پر ضرورت پڑتی ہے اُن میں مولانا اعزاز علی صاحب ؒ کا نام کسی بھی صورت نہیں بھلایا جاسکتا اور نہ ہی آپؒ کے گراں قدر علمی و ادبی احسانات سے امت مسلمہ کا کوئی فرد کبھی سبک دوش ہوسکتا ہے۔

مولانا اعزاز علی صاحبؒ کی پیدائش ہندوستان کے مشہور شہر بدایون میں ۱۳۰۰ ؁ھ میں غروب شمس کے وقت ہوئی اور نانا جان نے آپؒ کا نام اعزاز علی تجویز کیا آپؒ کا تعلق ہندوستان کے مشہور قبیلہ ’’کمبوہ‘‘ سے ہے جس کے افراد کسی زمانہ میں شاہی لشکر میں بلند مناصب اور اُونچے عہدوں پر فائز تھے ۔والد کی طرف سے آپؒ کاسلسلہ نسب یہ ہے: ’’ محمد اعزاز علی بن محمد مزاج علی بن حسن علی بن خیر اﷲ……الخ

مولانا اعزاز علی صاحبؒجب اپنے سن شعور کو پہنچے تو آپؒ کے والد ماجد نے آپؒ کو حافظ قطب الدین صاحبؒ کے پاس چھوڑا جہاں رہ کر آپؒ نے قرآن مجید کے دو ثلث ناظرہ پڑھے اور اس کے بعد حافظ شرف الدین صاحبؒ کی نگرانی میں پورا قرآن مجید حفظ کیا ۔ کلام اﷲ شریف حفظ کرلینے کے بعد آپؒ نے پہلے اُردُو زبان کی تعلیم حاصل کی اور اس کے بعد اپنے والد ماجد سے فارسی زبان کی تعلیم حاصل کی ۔ فارسی کی تعلیم کی تکمیل کے بعد آپؒ نے مدرسہ عربیہ گلشن فیض تلہر میں رہ کر مولانا مقصود علی خان صاحب ؒ سے عربی درسِ نظامی کی ابتدائی کتابیں شرح ملا جامیؒ تک پڑھیں اور پھر اس کے بعد مدرسہ عین العلم شاہ جہان پور میں کچھ عرصہ رہ کر آپؒ نے فقہ اور فارسی کی بعض کتابیں مختلف اساتذہ کرام سے پڑھیں ۔ مدرسہ عین العلم شاہ جہان پور میں درسِ نظامی کی متوسط درجہ کی کتابوں سے فراغت کے بعد آپؒ نے اپنے بعض اساتذہ کے پرزور اصرار پر ازہر الہندجامعہ دار العلوم دیوبند میں داخلہ لے لیا اور وہاں مختلف علوم و فنون اور معقولات و منقولات کی کتابوں کی تکمیل کرکے وہاں سے دورۂ حدیث مکمل کرکے سند فراغت حاصل کی۔

دار العلوم دیوبند سے فراغت کے بعد مدرسہ نعمانیہ بھاگل پور پورینی میں اپنے استاذحضرت شیخ الہندؒ کے ایماء پر آپؒ نے اپنی تدریسی زندگی کا آغازکیا اور خوب مخلصانہ جد و جہد اور مسلسل سعی و کوشش کرکے آپؒ نے اس غیر آباد و نامانوس علاقہ میں قال اﷲ و قال الرسول کا غلغلہ کچھ اس طرح بلند کیا کہ طلباء جوق در جوق اس مدرسہ کا رُخ کرنے لگے اور وہاں سے فراغت کے بعد قابل قدر نگاہوں سے دیکھے جانے لگے ، لیکن یہ سلسلہ کچھ زیادہ عرصہ تک نہ چل سکا بلکہ بعض عاقبت نااندیش شریر قسم کے لوگوں کی شرارت کی وجہ سے مجبور ہوکر آپؒ نے ہاں سے استعفیٰ دے دیا اور مدرسہ افضل المدارس شاہ جہان پور سے اپنا تدریسی ذوق قائم کرلیا جہاں تقریباً مسلسل تین سال تک آپؒ ا پنے تدریسی فرائض سرانجام دیتے رہے۔ مدرسہ افضل المدارس چوں کہ صرف ایک باہمت مخیر انسان کی توجہ سے چل رہا تھا جو بعد میں انتقال کرگئے اس لئے ان کے انتقال کے بعد مدرسہ کے حالات جب آپؒ کے بس سے باہر ہوگئے تو آپؒ نے اس مدرسہ سے بھی سبک دوشی اختیار کرلی ۔

۱۳۳۰ ؁ھ کے اوائل میں آپؒ کے ایک مشفق استاذمولانا محمد سہول صاحب ؒ کی سعیٔ پیہم کی بدولت دارالعلوم دیوبند کی منتظمہ کمیٹی نے/ ۲۵ روپے کے مشاہرہ پر آپؒ کا تقرر دارالعلوم دیوبند میں کرلیا جہاں آپؒ ابتدائی مدرس مقرر ہوئے اور تقریباًنوسال تک آپؒ دارالعلوم میں اپنے تدریسی فرائض سر انجام دیتے رہے، اس کے بعد کسی معقول عذر کی بناء پر آپؒ کو دارالعلوم چھوڑنا پڑا اور وہاں سے واپس چلے آئے ، لیکن چوں کہ قدرت الٰہیہ کو آپ ؒ ہی کے وجودِ مسعود سے دارالعلوم کی خدمت لینا منظور تھی اس لئے ایک سال بعد ارباب حل و عقد کے مشورے سے اتفاقاً آپؒ کو دوبارہ دارالعلوم دیوبند آنا پڑا اور تادم واپسیں آپؒ دارالعلوم ہی میں اپنی خدمات سرانجام دیتے رہے۔

دُنیائے علم و ادب میں آج کل کے دور میں ایسے فاضل اور ماہر اساتذہ ضرور موجود ہیں جو ہر فن کی آخری کتاب منتہی طلباء کو پڑھانے کی اپنے اندر استعداد رکھتے ہیں لیکن ایسے اساتذہ کا ڈھونڈنا بہت مشکل اور دقت طلب مسئلہ ہے جو مبتدی طلباء کو اُن کی استعداد کے مطابق ابتدائی کتابیں کما حقہ پڑھاسکیں، لیکن مولانا اعزاز علی صاحبؒ کی یہ نمایاں خاصیت تھی کہ وہ جس طرح ہر فن کی آخری کتاب منتہی طلباء کو پڑھا نے کی اپنے اندر کامل استعداد رکھتے تھے اسی طرح ہر فن کی ابتدائی کتاب مبتدی طلباء کو بھی پڑھانے کی اپنے اندر مکمل صلاحیت رکھتے تھے۔

وقت کی پابندی آپؒ کا طغرائے امتیاز تھا ،آپؒ وقت کی بہت سخت پابندی فرمایا کرتے تھے ، سردی ہو یا گرمی ، جاڑا ہو یابرسات ، بیماری ہو یا تندرستی ، شادی ہو یا غمی آپؒ اُصول تھا کہ سبق بہرحال ہونا چاہیے، کمرہ میں گھڑی موجود تھی ، وقت سے کم از کم دس منٹ قبل بغل میں کتاب دبائی ، کمرہ کو تالا لگایا اور گھنٹہ بجانے والا ابھی گھنٹہ بجانے سے فارغ بھی نہ ہوا کہ آپؒ درس گاہ میں پہنچ گئے اور سبق شروع ہوگیا ، اُدھر گھنٹہ بجا اور اِدھر آپ کی کتاب بند ہوگئی۔

لیکن بایں ہمہ فضل و کمال آپ ؒ کے مزاج میں انکساری ، فروتنی اور تواضع کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی ، آپ نام و نمود اور شہرت سے حد درجہ نفور رہتے تھے ۔ آپؒ کے مزاج میں استغناء و بے نیازی اور اﷲ تعالیٰ کی ذات پر توکل و بھروسہ حد درجہ کا تھا ، چنانچہ ملک بھر کی بیسیوں یونی ورسٹیوں نے آپؒ کو گراں قدر مشاہروں پر بلایا لیکن آپؒ ہمیشہ دارالعلوم کے قلیل مشاہرہ کو اُن کے کثیر مشاہرہ پر ترجیح دیتے رہے۔

علمی اشتغال و انہماک کی وجہ سے گو عبادت و ریاضت میں آپؒکی مشغولیت زیادہ نہیں تھی لیکن اس کے باوجود حضرت گنگوہیؒ کی ایمانی فراست بھری نگاہ نے آپؒ کو شرف بیعت سے بہرہ ور کیا اور شیخ الاسلام حضرت مدنی ؒ نے اپنی اجازت و خلافت کی خلعت سے آپؒ کی ذات متصف باصد صفات کو نوازا۔

مولانا اعزاز علی صاحبؒ انتہائی درجہ سادہ مزاج واقع ہوئے ہیں ، آپؒ کے مزاج کی سادگی آپؒ کے لباس سے عیاں تھی ، آپؒ کے جسم پر کھادی کا ایک لمبا سا کرتہ ، معمولی کھدر کا پائجامہ ، سر پر دوپلی ( دو پلوں والی) ٹوپی اور پاؤں میں نہایت معمولی قیمت کا جوتہ آپؒ کا لباس تھا ؂
شاہد معنی کو آرائش کی کچھ حاجت نہیں
’’سبحہ و سجادہ‘‘ ہیچ اور’’ جبہ و ستار‘‘ ہیچ

مولانا اعزاز علی صاحبؒ کے دُنیائے علم و ادب کی گردن پر اس قدر گراں قدر علمی و ادبی احسانات ہیں کہ جن کے بوجھ سے وہ کبھی نہیں نکل سکتی ،آپؒ نے درسِ نظامی کی ادق ( دقیق) اور اصعب ( مشکل) کتابوں کے بڑی کاوش و تحقیق کے بعد حواشی لکھے اور اپنے طویل تدریسی تجربہ کی بناء پر ہر حیثیت سے ان کو عام فہم اور سہل سے سہل تر بنانے کی سعیٔ پیہم کی ہے جن کے نام یہ ہیں: (۱) حاشیہ نور الایضاح ( عربی) (۲) حاشیہ نور الایضاح (فارسی) (۳) حاشیہ دیوانِ حماسہ (۴) حاشیہ کنز الدقائق (۶) دیوانِ متنبی عربی (۷) اُردُو ترجمہ دیوانِ متنبی (۸) حاشیہ شرح نقایہ (۹) حاشیہ مفید الطالبین ( مطول) (۱۰) حاشیہ مفید الطالبین (مختصر) (۱۱) نفحۃ العرب (۱۲) حاشیہ نفحۃ العرب۔

مولانا اعزازعلی صاحب کی شاگردوں کی صورت میں روحانی اولاد کی تعداد ایک محدود اندازے کے مطابق چھ ہزار کے لگ بھگ ہے ، جن میں سے چند ایک تلامذہ کے نام یہ ہیں: (۱)مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی صاحبؒ (۲)مفتی محمد شفیع صاحب ( مفتیٔ اعظم پاکستان) (۳)مولانا عتیق الرحمن عثمانی صاحب ؒ (۴)مولانا محمد میاں صاحبؒ (۵)مولانا ڈاکٹر مصطفی حسن صاحب ؒ (۶)مفتی محمود الحسن نانوتوی صاحبؒ (۷)مولانا منظور احمد نعمانی صاحبؒ (۸)مولانا سعید احمد اکبر آبادی صاحبؒ (۹)مولانا نسیم احمد فریدی صاحب (۱۰)مولانا قاضی زین العابدین سجاد میرٹھی صاحب ؒ (مؤلف بیان اللسان) (۱۱)مولانا قاری محمد طیب قاسمی صاحبؒ (سابق مہتمم دار العلوم دیوبند) (۱۲)مولانا فخر الدین صاحب ؒ ( سابق استاذدارالعلوم دیوبند )(۱۳) مولانا معراج الحق صاحبؒ ( سابق استاذ دار العلوم دیوبند) (۱۴)مولانا عبد الاحمد صاحب ؒ ( سابق مدرس دارالعلوم دیوبند) (۱۵)مولانا سیدمحمد حسن صاحب (۱۶)استاذِ محترم حضرت مولانا جمشید علی صاحب ؒ (سابق شیخ الحدیث مدرسہ عربیہ رائے ونڈ)

مولانا محمد اعزاز علی صاحب ؒ نے مؤرخہ /۱۳ رجب المرجب ۱۳۷۴؁ھ بروز بدھ صبح صادق کے وقت اِس عالم آب و گل کو خیر آباد کہا اور دارالعلوم دیوبند کے متصل قبرستان ہی میں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے محو استراحت ہوگئے۔ ؂
سنہ چوہتر تھا ،صدی تھی چودھویں، تیرہ رجب
جب ہوئے اُوجھل ہماری آنکھوں سے شیخ الادبؒ

 

Mufti Muhammad Waqas Rafi
About the Author: Mufti Muhammad Waqas Rafi Read More Articles by Mufti Muhammad Waqas Rafi: 188 Articles with 278846 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.