مودی سرکار سے نبرد آزما خالصتان اور مقبوضہ کشمیر کے حریت پسند

آپ کو یاد ہوگا‘یاد بھی کیوں نہ ہو کہ یہ صرف آج سے ایک سال 3ماہ اور 9روز پہلے کی بات ہے کہ مودی سرکار اور ایک بھارتی میڈیا نے پاکستان کے خلاف جارحانہ بیانات اور لائق نفریں پراپیگنڈے کی توپوں کا رخ پاکستان کی جانب کر رکھا تھا اور ڈس انفارمیشن کی خوفناک بمبنگ اور میزائلنگ جاری تھی۔ پاکستان الزامات کی زد پر تھا۔ اس روز یہ بتایا جارہا تھا کہ 3جنوری 2016ء کو بھارتی پنجاب میں پٹھانکوٹ کے علاقے میں دہشت گردوں نے ایئرفورس بیس پر حملہ کردیا‘ جھڑپ کے نتیجہ میں 3فوجی اور 5 حملہ آور مارے گئے‘ حملہ آور پولیس وین چھین کر ایئربیس میں داخل ہوئے‘ فوجی یونیفارم پہنے ہوئے حملہ آور نان آپریشنل ایریا میں داخل ہوگئے جہاں طیارے اور ہیلی کاپٹرپارک کئے جاتے ہیں۔ حملہ آوروں نے دستی بموں اور خودکار ہتھیاروں سے تباہی مچا دی‘‘۔ واضح رہے کہ جب پٹھان کوٹ ایئر بیس پر حملہ ہوا تو 29 جنگی جہاز اور ہیلی کاپٹر وہاں موجود تھے۔ ڈسٹرکٹ پولیس افسر کا بیان حیران کن تھا کہ ا یئربیس پر مسلح حملہ آور اتنے بے وقوف تھے کہ انہوں نے لڑاکا فوجی طیاروں اور لڑاکا ہیلی کاپٹروں کو کوئی نقصان پہنچانے کے بجائے صرف 3 فوجیوں کو نشانہ بنانے پر اکتفا کیا۔حالانکہ اس وقت اسی پولیس افسر کے مطابق 29 جنگی جہاز اور ہیلی کاپٹر موجود تھے۔ لڑاکا فوجی طیاروں اور لڑاکا ہیلی کاپٹروں کو خراش تک بھی نہیں آئی۔ بھارتی میڈیا کے مطابق فوجی وردیوں میں ملبوس5حملہ آوروں نے مقامی وقت کے مطابق صبح ساڑھے تین بجے ایئر بیس پر حملہ کیا جس کے فوری بعد اطراف کا علاقہ سیل کردای گیا جبکہ فوج کے کمانڈویونٹ کو بھی طلب کیا گیا۔ سیکورٹی حکام کا کہنا تھا کہ ’’حملہ آوروں کی تعداد زیادہ تھی دیگر دہشت گردوں کی تلاش کے لئے سرچ آپریشن جاری ہے‘‘۔ بھارتی صدر پرناب مکھرجی اور وزیراعظم نریندر مودی نے پٹھان کوٹ ایئربیس پر حملے کی شدید مذمت کرتے ہوئے واقعہ کی رپورٹ طلب کر لی ہے۔

حملے کے فوری بعد حسب روایت بھارتی میڈیا اور وزراء نے ایک بار پھر بلاتحقیق پاکستان پر الزامات لگانا شروع کردیئے جبکہ بھارتی میڈیاکا ایک حصہ حملے کو مشکوک قرار دے رہا تھا۔ یہ میڈیا چیخ چیخ کر پوچھ رہا تھا کہ سرحد کے قریب ہی ایئربیس پر حملہ کیوں ہوا؟ بغیر تحقیقات کئے بھارت نے پاکستان کی جانب انگلی اٹھا دی؟ نیز یہ کہ مودی کے دورہ پاکستان کے بعد ہی ایئربیس پر حملہ ہونا تھا۔ یہ امر بھی کئی سوالات کو جنم دے رہا تھا کہ حملہ آور گرداس پور سے ایک روز قبل اغواء ہونے والی ایس پی کی اس گاڑی میں سوار تھے جو چھینی گئی تھی۔24 گھنٹے تک اس گاڑی کا کھوج لگانے میں بھارتی حساس ادارے کیوں کامیاب نہیں ہوئے۔ یہ کہ گرداس پور کوئی ممبئی ایسا بڑا اور گنجان آباد شہر نہیں تھا کہ اس گاڑی کا سراغ نہ لگایا جاسکتا۔ غیر جانبدار مبصرین کے مطابق یہ حملہ آور خود ساختہ تھا۔ آثار وقرائن بھی اس امر کی تصدیق کرتے ہیں۔مقام حیرت ہے کہ حملہ صبح 4بجے ہوالیکن سیکورٹی رات سے ہی الرٹ کردی گئی تھی۔ عام دنوں میں سیکورٹی ایئربیس کے گیٹ پر ہوتی ہے اور بیریئرز لگے ہوتے ہیں لیکن 2 جنوری شام 5 بجے بیریئرز ہٹا کر اندر منتقل کردیئے گئے تھے‘ آس پاس فروٹ اور سبزی کی دکانیں بھی بند کرادی گئی تھیں۔شہریوں نے انکشاف کیا تھا کہ ایئربیس کے قریب سے ایک روز قبل حفاظتی رکاوٹیں ہٹا دی گئی تھیں۔شہریوں کے انکشاف کے بعد ایئر بیس پر آج ہونے والا حملہ مشکوک ہوگیا۔ ابھی سرکاری سطح پر ایئربیس پر حملے کی تحقیقات شروع نہیں ہوئی تھیں کہ بدلگام اور منہ زور بھارتی میڈیا پاکستان پر الزامات کی اندھا دھند چاند ماری کررہا تھا جبکہ اسی روز بھارتی اخبار ہندوستان ٹائمز کی طرف سے واشگاف الفاظ میں تسلیم کیا گیا کہ ’’کوئی ملک کشمیر میں دراندازی نہیں کر رہا‘ صاف ظاہر ہے کہ ’’کوئی ملک‘‘ سے اس کی مراد پاکستان تھا۔

بھارتی میڈیا الزام عائد کرتا رہا کہ حملہ آور پاکستان میں اپنے سرپرستوں سے فون پر رابطے میں رہے۔ پٹھانکوٹ میں سینکڑوں افراد نے اس حملے کے خلاف مظاہرہ کیا اور پاکستان مخالف نعرے لگائے۔ دوسری جانب بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے کہا کہ دہشت گردوں کو کامیاب نہیں ہونے دیں گے‘دشمن بھارت کو ترقی کرتے ہوئے نہیں دیکھنا چاہتے۔ ادھر بھارتی وزیرداخلہ راج ناتھ سنگھ نے دھمکی دی کہ ’’پاکستان سمیت تمام پڑوسیوں کے ساتھ امن چاہتے ہیں مگر پٹھان کوٹ حملے کا منہ توڑ اور بھرپور جواب دیں گے‘‘۔ جبکہ بھارت کے وزیر مملکت برائے داخلی امور نے کہا کہ ’’پٹھان کوٹ میں حملہ کرنے والے گروپ کو پاکستان کے بعض عناصر سے تعاون حاصل تھا‘‘۔ کانگریس کے نائب صدر راہول گاندھی نے ٹویٹ کیا کہ ’’ پٹھانکوٹ ایئربیس پر ہونے والے حملے کی مذمت کرتا ہوں‘‘جبکہ کانگریس کے ترجمان نے پنجاب میں شدت پسندانہ حملے پر سوال کیا کہ ’’کیا نریندر مودی اس معاملے کو پاکستان کے سامنے اٹھائیں گے جہاں سے وہ ہو کر آئے ہیں‘‘۔ یہ امر بھی پیش نظر رہے کہ بھارت سرکار اور بھارت کا پاکستان دشمن میڈیا پٹھانکوٹ کے واقعہ کو جواز بنا کر دو طرفہ جامع مذاکرات کے مجوزہ عمل کے راستے کو اسی طرح مسدود کرنا چاہتا تھا جس طرح اس نے دسمبر 2008ء میں ممبئی حملوں کا ناٹک رچا کر جامع مذاکرات کی بساط لپیٹ دی تھی۔

یہ حقیقت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ بھارت دنیا کا وہ واحد ملک ہے جہاں کئی ریاستوں میں آزادی کی تحریکیں چل رہی ہیں۔ جن میں بھارتی پنجاب کے سکھوں کی مضبوط اور ناقابل تسخیر تحریک قیام خالصتان کی تحریک ہے۔ اس تحریک کو 80 کی دہائی میں آپریشن بلیو سٹار کے ذریعے بظاہر دبا دیا گیا تھا لیکن راکھ میں موجود اس کی چنگاریاں 2015ء میں مودی سرکار کے انتہا پسند ہندتوا کے فلسفے کے ردعمل میں اب شعلوں کا روپ دھار چکی ہیں۔ کون جانتا کہ 1950ء میں جب بھارتی آئین تیار کیا گیا تو سکھ اقلیت کو کلی طور پر نظرانداز کردیا گیا حالانکہ تحریک آزادی کے دوران سکھوں نے جو قربانیاں دیں اس کا اعتراف موہن داس کرم چندگاندھی‘پنڈت موتی لال نہرو اور پنڈت جواہر لال نہرو بھی شاندار الفاظ میں کرتے رہے۔اس حقیقت سے بھی بھارتی میڈیا اور حکام کو چشم پوشی نہیں کرنا چاہیے کہ بھارت میں انسانی حقوق کی پامالی کے بدترین مظاہر دیکھنے میں آرہے ہیں اور ان کا تسلسل 67 برسوں سے جاری ہے ۔سیکولر بھارت کو مودی سرکار اور بھارتیہ جنتا پارٹی ایک خالص ہندو ریاست بنانے پر تلی ہوئی ہے اور مختلف ریاستوں میں جاری آزادی کی تحریکوں کو تشدد اور کالے قوانین کے ذریعے کچلنے کی ناکام کوشش کی جارہی ہے۔مقبوضہ کشمیر کے علاوہ مشرقی پنجاب ) خالصتان( تامل ناؤ ‘آسام ‘ناگالینڈ‘جھاڑ کھنڈ‘ تری پورہ‘منی پور‘ شمالی مشرقی بھارت سمیت کئی ریاستوں میں بھی علیحدگی کی تحریکیں چل رہی ہیں۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بھارتی حکام عالمی طاقتوں کی پشتی بانی‘ کالے قوانین اور قوت کے بے محابا استعمال کی وجہ سے علیحدگی کی ان تحریکوں کو کب تک دبائے رکھنے میں کامیاب ہوگا۔ بھارت میں اقلیتوں سے جو ناروا سلوک کیا جارہا ‘انہیں قتل کیا جارہا اور ان کی املاک و جائیداد کو انتہا پسند ہندو حکام کی سرپرستی میں جس طرح نذر آتش کیا جارہا ہے ‘اس کا ردعمل آنا ایک فطری امر ہے۔اس سے کسی بھارتی حکمران کو مجال انکار نہیں کہ بھارت میں 1958ء سے نافذ افسپا کا قانون بھی ملک بھر میں جاری حریت پسند تحریکوں کو کچلنے میں بری طرح ناکام رہا ہے۔آخر بھارت سرکار کب تک خالصتان اور مقبوضہ کشمیر کے حریت پسندوں کے خون سے ہولی کھیلتی رہے گی۔

Dr.Ghulam Murtaza
About the Author: Dr.Ghulam Murtaza Read More Articles by Dr.Ghulam Murtaza: 20 Articles with 14887 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.