گؤ رکشا:عجب ناٹک ہے میاں

ہندوستان میں جمہوریت کو شرمسار کرنے والے، عدلیہ کا قتل کرنے والے، مساوات و برابری کا جنازہ اٹھانے والے واقعات کثرت سے رونما ہورہے ہیں، محبت نفرت کا روپ دھار چکی ہے، انصاف بے حسی کی چادر تان کے سو گیا، عادل و منصف ظالموں پر مہربان ہیں، کمزور، لاچار افراد خوف و ہراس میں مبتلا ہیں، گزرنے والی ہر گھڑی اور سیاسی رہبران کی زبان سے نکلنے والے الفاظ لوگوں کے ذہنوں کو تشویش میں مبتلا کررہے ہیں اور خوف و دہشت کا شور بلند ہوتا جارہا ہے، ملک نفرت و تعصب کے دلدل میں دھنستا جارہا ہے، نسل پرستی، مذہبی منافرت آسمان چوم رہی ہے، ہردن اس صورت حال میں اضافہ ہوتا جارہا ہے اور اس ضمن میں جس بھیانک صورت حال سے رام ولکشمن اور چشتی و اجمیری کی سرزمین دوچار ہے، وہ انتہائی اذیت کا عنوان ہے، چند مفاد پرستوں نے ملک کے وقار اور عظمت کو اپنی خواہشات کی تکمیل کے لیے داؤں پر لگا رکھا ہے، اخبارات کی سرخیاں ان حقائق کی شاہد ہیں، مسلمانوں پر سرزمین ہند تنگ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے، جمہوری شان و شوکت کو بالائے طاق رکھ کر، انسانی رشتہ سے کنارہ کش ہو کر، وطنی اور قومی جذبات سے منھ پھیر کر مسلمانوں کو ہراساں کرنے کا گندا کھیل کھیلا جارہا ہے، پورا ملک اس طرح کے سینکڑوں واقعات اپنے دامن میں رکھتا ہے، جہاں مسلمان ظلم و ستم، تشدد و تعصب کا نشانہ بنتے ہیں اور انہیں تختۂ مشق سمجھ کر ہر جرم کو روا رکھا جاتا ہے، جان و مال عزت و آبرو سرعام نیلام کردی جاتی ہے، اور قانون عدالت انتظامیہ تماشائی محسوس ہوتے ہیں، چاہے وہ بجنور کا نجیب ہو، یا دادری کا اخلاق، منہاج انصاری ہو، یا ناصر خان درد والم کی داستان بہت طویل ہے اور اس کا لفظ لفظ جگر کو چھلنی کرنے والا ہے۔ کل بہار میں ایک 20سالہ نوجوان کو’’لوجہاد‘‘کی بھینٹ چڑھا دیا گیا، نفرت پروروں نے اس معصوم کو پیٹ پیٹ کر مار ڈالا، جرم محبت اس کے لیے جان لیوا ثابت ہوا، انتظامیہ، عدلیہ، گواہ، ثبوت کچھ بھی نہیں، وحشیوں نے سارے نظام کو اپنے گھر کی لونڈی سمجھ رکھا ہے اور جب چاہیں، جہاں چاہیں بے قصور مسلم نوجوانوں کے خون سے دھرتی کا سینہ رنگین کردیتے ہیں، ملک کی فضا کو مسموم کرنے کی کوشش کرتے ہیں، محبت واخوت کی بنیادوں کو مسمار کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور صرف کرتے ہیں، کوئی موقعہ چوکتے نہیں، خاص طور پر گائے کی حفاظت کے نام پر ہمارے ملک میں جو نفرت کی سیاست ہورہی ہے، اس نے عوام کی حفاظت کو خطرے میں ڈال دیا ہے، چند دن قبل گائے خرید کر لارہے 15افراد کے ساتھ راجستھان کے ضلع الور میں خونی کھیل کھیلا گیا اور ان کے دلائل پیش کرنے پر اور یہ ثابت کرنے پر کہ وہ گائے خرید کر لارہے ہیں، انسانی لباس زیب تن کیے ہوئے، بھیڑیوں نے ان کی ایک نہیں سنی اور ان لوگوں کی جان لے لی گئی، گائے خریدنے کے جرم میں انہیں زخموں سے چور چور کردیا گیا، زخموں کی تاب نہ لا کر ان میں سے ایک شخص دنیا سے کوچ کرچکا ہے، عدلیہ کا خون کرنے والے مزے میں ہیں، اگرچہ پولیس نے 4 افراد کو گرفتارکیااور انہیں سلاخوں کا دیدار کرایا ہے، مگر انہیں سرکاری مہمانوں کے سوا اور کیا کہا جاسکتا ہے۔گزشتہ چند سالوں میں کتنے لوگ ہیں جو گائے کی حفاظت کے نام پر قتل کردیے گئے، ان کے گھر اجاڑ دیے گئے، ان کے بچوں یتیم کردیا گیا، تاریخ کے اوراق پلٹتے جائیے اور دیکھتے جائیے کیا کسی کو انصاف ملا ؟کیا کسی قاتل کو تختۂ دار پر چڑھایا گیا ؟کیا کسی قاتل کا انجام بھیانک ہوا ؟تمام سوالات کے جوابات نفی ہی میں ہوںگے تو پھر پولیس کا گرفتار کرنا، انہیں قید کرنا، چند دنوں بعد ضمانت پر رہا کردینا، ایک سلسلہ ہے، جس سے لوگوں کو خاموش کردیا جاتا ہے، ان کی زبانیں مقفل کردی جاتی ہیں، ان کی توجہ مبذول کردی جاتی ہے، چند دنوں بعد تمام لوگ اپنے کاموں میں مصروف ہو جاتے ہیں، انصاف کہیں فائلوں میں دب کررہ جاتا ہے اور حقائق کو دیمک چاٹ چاٹ کر صفحات کے چہروں کو چیچک زدہ کردیتی ہے اور مقتول کے ورثاء انصاف کے انتظار میں بوڑھے ہو جاتے ہیں، ان کی آنکھیں پتھرا جاتی ہیں، مگر انصاف تو عنقاء ہے، کہاں ملتا ہے؟ کسے ملتا ہے ؟کوئی خوش نصیب ہی ہوگا جو اس کا دیدار کرلے، یقین نہ آئے تو اخلاق کے کیس کو پھر سے ذہن میں تازہ کرلیجئے اور یاد کیجیے کس طرح ایک شخص کو زدو کوب کرکے موقعہ واردات پر قتل کردیا گیا تھا، وقت گزرتا جارہا ہے، مگر کوئی خوش کن خبر کانوں کو نصیب نہیں ہوئی، البتہ اس کے بعد ’’گئورکشکوں ‘‘کی بربریت کے کئی واقعات منظر عام پر آچکے ہیں، سب سے بڑا اعزاز تو گائے کی حفاظت کا دعویٰ کرنے والوں کو یوپی کی مسلم نواز حکومت نے دیا تھا، ایک قاتل کو ہندوستان کی آبرو، ہندوستان کی آن بان شان ترں گے میں لپیٹ کردفن کردیا گیا، اور سارے قوانین منھ تکتے رہ گئے، اتنے بڑے اعزاز کے بعد اب راہ میں کون سی دیوار حائل ہے، جو ان ظالموں کے قدموں کو روکے اوران کے سفاک ارادوں پر قدغن لگائے، ان کے گندے خیالات پر کچوکے لگائے اور ان کے جذبات نفرت کی کمر توڑدے اور ان کے خیالات میں تبدیلی پیدا کرے، انہیں سدھرنے پر مجبور کرے، بظاہر کوئی صورت نظر نہیں آتی، مگر حکومت ہند کو اس سلسلہ میں مناسب تدبیر اور صحیح حکمت عملی سے کام لینے کی ضرورت ہے کیونکہ یہ صورت حال ملک کو جنگل راج کی طرف لے جارہی ہے اور قانون شکنی کی یہ عام فضا جمہوریت کے لیے سم قاتل ہے، جو ملک سماج ومعاشرہ سادہ طبیعت عوام کے یہاں یقینی طور سے مستحسن عمل نہیں ہے اور دنیا کا کوئی شخص اسے جمہوریت کا عیب کہنے پر قادر ہے اور حقیقی معنوں میں یہ لوگ گائے کے عقیدت مند اور اس کے محافظ بھی نظر نہیں آتے بلکہ صورت حال ان کی مسلم دشمنی کو واضح کرتی ہے، گائے دوستی کو نہیں، انہوں نے یہ چولہ اس لیے پہن رکھا ہے تاکہ مذہب کی آڑمیں لوگوں کے جذبات بھڑکا کر انہیں اپنی حمایت اور موافقت کا خوگر بنالیا جائے اور ہر برے اور اچھے عمل کو مذہب سے وابستہ کرکے مستحسن کردیا جائے، ورنہ اگر انہیں واقعتا گائے سے الفت و محبت ہے اور اس کی عقیدت میں غرق ہیںتو سینکڑوں گائیں ملک میں سڑکوں کی خاک چھانتی پھرتی ہیں، کیوں انہیں پناہ نہیں دیتے ؟کیوں ان کے چارے پانی کا انتظام نہیں کرتے ؟کتنے گؤ شالا ایسے ہیں، جہاں بہت سی گائیں بیماری اور چارے کی قلت کی وجہ سے دم توڑ گئیں، ان کے ذمہ داران سے سوال کیوں نہیں کرتے ؟کانپور گؤ شالا میں مستقل گائیں بیماری اور موت کا شکار ہیں، گائیں سے عشق کرنے والوں نے کیا کیا ؟کسے پیٹا ؟کسے مارا ؟کس سے پرسش کی ؟کس سے سوال و جواب کیے ؟یا ان کی حفاظت کا کیا جتن کیا ؟بتائیں !اور اپنے دعوی کو حقیقت میں تبدیل کریں، چونکہ یہ سچ نہیں ہے، اس لیے دعوی بے دلیل ہے، الور میں پندرہ مسلمان تھے، تو انہیں پیٹا گیا، ڈرائیور غیر مسلم تھا، تو اسے چھوڑ دیا گیا، کیا یہی ہے گائے کی حفاظت کا بھیانک روپ ؟مذہبی منافرت پھیلانا اور اپنے مقاصد کی تکمیل کرنا، عجب ناٹک ہے، میاں’’جیو ہتھیا‘‘کو پاپ اور جرم کہنے والے، ہندتوا کا نعرا لگانے والے، رام و کرشن کی جے جے کار کرنے والے، دنیا کے سب سے عظیم سب سے معزز اور باعزت’’جیو‘‘کے خون کو مذہبی ذمہ داری سمجھ رہے ہیں، چہ بوالعجبی است "اس ڈھونگ اور ناٹک سمجھئے، ہوش میں آئیے، ملک کی آبرو کا خیال کیجئے، انسانیت کی عزت و حرمت کا لحاظ کیجئے، اور انسانیت زندگی ’’جیو‘‘کے سچے محافظ ملک کی ترقی میں روڑے مت اٹکائے ے، اکیسوی صدی میں مسلم شریعت تمہیں دقیانوسی نظر آتی ہے، یہ طریقہ کیا ذرا خیال کیجئے اور اپنی بیوقوفی اور بے حسی پر ماتم کیجئے۔
 

Rahat Ali Siddiqui
About the Author: Rahat Ali Siddiqui Read More Articles by Rahat Ali Siddiqui: 82 Articles with 75294 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.