بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کا پورا نام کلبھوشن سدھیر
یادیو (Kulbhushan Sudhir Yadav) ہے۔ اسے بلوچستان کے علاقے سے3 مارچ 2016
کو پاکستانی فورسیز نے گرفتار کیاتھا۔ بھارت کا یہ کوئی پہلا جاسوس نہیں اس
سے قبل بھی کوئی 8 بھارتی جاسوس پاکستانی فورسیز نے گرفتار کیے ۔ان کے خلاف
قانون کے مطابق کاروائی عمل میں لائی گئیں۔کلبھوشن کا گرفتار ہوناکوئی قابل
ذکر بات نہیں ۔
کلبھوشن یادیو سے پہلے بلویر سنگھ 1974میں جاسوسی کے الزام میں گرفتار ہوا،
اسے12سال قید ہوئی ، سزا بھگت کر بھارت واپس چلا گیا،
رویندرا کوشک بھارتی جاسوس 1975میں گرفتارہوا، اسے قانون کے مطابق سزائے
موت ہوئی ، جسے عمر قید میں تبدیل کردیا گیا،
سر جیت سنگھ 1985میں گرفتار ہوا، اسے عمر قید کی سزا ہوئی، اپنی قید پوری
کرنے کے بعد واپس بھارت لوٹ گیا۔سربجیت سنگھ 1990میں گرفتار ہوا ، جیل میں
تھا اسے قیدیوں نے ہی مار ڈالا،رام پرکاش1997میں گرفتارہوا ، اسے 10سال قید
ہوئی ، 2008میں رہا کر کے بھارت روانہ کردیا گیا،ست پال1999میں کارگل میں
جاسوسی کے لیے بھیجا گیا ، گرفتار ہوا ، جیل میں چل بسا،رام راج2004میں
گرفتار ہوا، اسے 8سال قید کی سزا ہوئی ، سزا بھگت کر بھارت واپس لوٹ
گیا،کشمیر سنگھ جنرل مشرف کے دور میں گرفتار ہوا، تاہم اسے انسانی ہمدردی
کے طور پر بھارت بھجوا دیا گیا اور 2016میں کلبھوشن یادیو جاسوسی کے الزام
میں گرفتار ہوا اسے سزائے موت فیلڈ کورٹ مارشل میں پاکستان آرمی
ایکٹ1952سیکشن59اور سیکرٹ ایکٹ1923کے سیکشن 3کے تحت سزائے موت سنائی گئی
ہے۔ تاہم اسے سپریم کورٹ میں اپنی سزا پر نظر ثانی کا حق قانونی طور پر
حاصل ہے۔ کچھ خبریں اس قسم کی بھی آنا شروع ہوگئیں ہیں کہ پاکستان کی ایک
نامور خاتون وکیل نے کلبھوشن یادیو کی وکالت کرنے کا ارادہ ظاہر کیا ہے ۔
یہ بات ابھی حتمی نہیں۔ادھر جنرل مشرف نے بھارتی میڈیا کو انٹر ویو دیتے
ہوئے کلبھوشن یادیو کی سزا کو قانون کے مطابق قرار دیا، جب بھارتی اینکر
راہول نے ان سے سوال کیا کہ پاکستان نے ویانا کنونشن کی خلاف ورزی نہیں کی
تو جنرل مشرف نے اسے دوٹوک الفاظ میں یاد دلا یا کہ کیا بھارت اقوام متحدہ
کی 1948کی قرارداد جو کہ کشمیریوں کو ان کے حق دلانے کے لیے تھی اس نے اس
قرارداد کا پاس کیا۔ جنرل مشرف نے اجمل قصاب کی نیپال سے گرفتاری اور پھر
اسے سزائے موت دینے کا ذکر بھی کیا۔ اس گفتگو میں پاک فوج کے ریٹائر افسر
کرنل حبیب بھی زیر بحث آئے۔ جو نیپال ہی سے لاپتہ ہوچکے ہیں۔ ان کی گمشدگی
کے تانے بانے بھارت سے ملتے نظر آرہے ہیں۔بھارت گزشتہ 70سال سے پاکستان کے
خلاف مختلف قسم کی غیر اخلاقی، غیر قانونی حرکتیں کررہا ہے۔ کلبھوشن یادیو
اس اعتبار سے مختلف ہے کہ یہ بھارت کی نیوی کا ان سرونگ آفیسر کمانڈر ہے۔
یہ پہلے ایران گیا وہاں یہ’ برکت حسین پٹیل‘ کے نام سے نہیں معلوم کیا کرتا
رہا ، ایران کے خلاف جاسوسی کررہا تھا یا پاکستان میں دہشت گردی کی منصوبہ
بندی میں مصروف رہا۔پھر یہ بلوچستان آگیا۔ یہاں پر اس نے پاکستان کے خلاف
اپنے منصوبوں پرعمل درآمد شروع کردیا۔ بکرے کی ماں کب تک خیر مناتی ، آخر
دھر لیا گیا۔ پاکستانی فورسیز نے گرفتار کیا۔ اس مرد کے بچے کی یدہ دلیری ،
پاکستان سے نفرت کا یہ عالم کہ اس نے ایک سے زیادہ بار اعتراف کیا کہ ہاں
میں پاکستان کے خلاف جاسوسی کر رہا تھا۔ یہ 9بھارتی جاسوس تو وہ ہیں جنہیں
پاکستان کی فورسیز نے گرفتار کیا اور انہیں قانون کے سامنے پیش کیا۔ ایسے
بھارتی جاسوسوں کی تعداد نہیں معلوم کتنی ہوگی جن کی کسی کو ہوا بھی نہیں
ہوئی، انہوں نے پاکستان میں اپنا کام کیا اور واپس بھارت کی راہی لی۔ جیسے
بھارت میں کسی نے انکشاف کیا تھا کہ وہ لاہور میں داتا دربار میں بھکاری بن
کر کئی سال جاسوسی کرتا رہا پھر واپس بھارت واپس چلا گیا۔
کلبھوشن یادیو کوسزائے موت سنا ئی گئی تو بھارتی حکومت ، شدت پسند وں،
متعصب ہندؤں اور پاکستان دشمنوں کی آنکھیں کھلیں کہ یہ تو پاکستان نے وہ کر
دکھا یا جس کی وہ توقع نہیں کررہے تھے۔ کلبھوشن یادیو کا کیس ایک سال سے چل
رہا تھا بھارتیوں نے اس کی گرفتاری کو اہمیت ہی نہیں دی ، کسی بھی قسم کا
ردِ عمل سامنے نہیں آیا، یہاں تک کہ بھارتی حکومت نے اپنے اس فوجی افسر کو
ماننے میں ہیل و ہجت کا شکار تھی جوں ہی پاکستان کی فوجی عدالت کی جانب سے
کلبھوشن یادیو کو سزائے موت سنائی۔ اب تو بھارتی حکومت کے ساتھ ساتھ نریندر
مودی،بھارتی وزیر خارجہ سشماسوراج ، متعصب ہندؤں کے پیروں کے نیچے سے زمین
نکل گئی، ان کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ پاکستان میں بھارتی فوجی
افسر کو اس طرح سزائے موت سنادی جائے گی۔یہ سزا اس لیے تو نہیں دی گئی کہ
یہ بھارتی جاسوس ہے اور پاکستان میں دہشت گردی کرنے کی منصوبہ بندی کررہا
تھا۔ یہ سزا تمام تر ٹھوس ثبوتوں کی بنیاد پر سنائی گئی ہے۔ اب تو بھارت
میں کلبھوشن یادیو کو لے کر بھارت میں ایک بھونچال آگیا۔ بھارتی ایوان بالا
راجیہ سبھا میں بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج نے پاکستان کے خلاف دھواں
دھار ، نفرت آمیز تقریر کرتے ہوئے پاکستان کو دھمکی دی کہ اگر پاکستان نے
ان کے چھیتے فوجی افسر جنہیں بھارت نے پاکستان میں جاسوسی کے لیے بھیجا تھا
کو بھانسی دی تو پاک بھارت تعلقات مزید خراب ہوجائیں گے۔ انہوں نے کھلم
کھلا پاکستان کو دھمکی دی کہ اس فیصلے پر عمل درآمد سے پہلے اچھی طرح سوچ
لیا جائے۔ کوئی اس بھارتی ،پاکستان دشمن متعصب، شدد پسند ، مودی کی چمچی سے
پوچھے کہ دونوں ملکوں کے درمیان حالات کب ، کس زمانے میں اچھے رہے ۔ یا اب
کونسے حالات بہت اچھے ہیں۔ ہمیں اچھی طرح معلوم ہے کہ بھارتی اگر جلتے توے
پر بیٹھ کر بھی پاکستان سے دوستی کے بات کریں تو ہم کبھی یقین نہیں کرنے
کے۔ پاکستان کے حوالے سے بھارتیوں کی مثال کچھ ایسی ہے کہ’ بغل میں چھری
منہ پر رام رام‘۔ان کے منہ سے اول تو پاکستان کے بارے می خیر نکلتا ہی
نہیں، اگر کبھی نریندر مودی نواز شریف کی دعوت پر خاموشی سے شادی کی تقریب
میں شرکت کرنے آبھی جاتے ہیں تو اندر کا میل اور پاکستان سے کدورت نکلنے
والی نہیں ہے۔
بھارتی وزیر خارجہ سشماسوراج فرماتی ہیں کہ کلبھوشن یادیو کو پاکستان نے
بلوچستان سے نہیں بلکہ ایران سے اغوا کیا تاکہ اسے جاسوس قرار دے کر بھارت
کو دنیا کے سامنے بدنام کرے۔ واہ سشماجی واہ! یہ بھی وضاحت کردیں کہ یہ
موصوف ایران میں کب سے تھے اور کیا کر رہے تھے؟ ایسا تو نہیں کہ یہ پہلے
ایران کی جاسوسی کرتے رہے ہوں۔اب ایران کو بھارتی جاسوسوں سے ہوشیار ہوجانا
چاہیے۔ اس قسم کی حرکتیں بھارت ہی کوزیب دیتی ہیں، پاکستان کو نہیں۔ چلیے
آپ اپنی خواہش بھی پوری کر لیجئے گا، قانون حق دیتا ہے اپیل کا ، اپیل کر
لیجئے گا، کلبھوشن یادیو اپنے حلفیہ بیان سے مکر نے والا نہیں ، اس نے ماتا
جی کی قسم کھائی ہے کہ وہ سچ ہی بولے گا چاہے سولی پر ہی چڑھ جائے اور
دیکھئے گا سشما جی ایسا ہی ہوگا۔ آپ بلاوجہ پاکستان کو برا بھلا کہے چلی
جارہی ہیں، ملامت کر رہی ہیں، دھمکی، دھونس ، مذمت، انتباہ ان سب باتوں سے
کام نہیں چلے گا۔ کلبھوشن یادیو آپ کی نیوی کا افسر ہے جو پاکستان میں
جاسوسی کے لیے بھیجا گیا۔ اسے اپنے کیے کی سزا ضرور ملے گی۔ آپ اور مودی جی
کتنا ہی جی ہلکان کریں، غضب ناک حالت میں اپنے منہ سے جھاگ اگلتے ہوئے
پاکستان کے خلاف جو چاہیں کہیں ۔ کلبھوشن یادیو اپنے منطقی انجام کو ضرور
پہنچے گا۔ سشما جی یہ آپ کا چھیتا جس کے حمایت میں آپ نیلی پیلی ہوکر، غضب
ناک شکل بنا کر پاکستان پر گرج برس رہی ہیں اس سے کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ یہ
موصوف جاسوس 47برس کے ہیں ،ممبئی ان کا آبائی شہر ہے۔ 16 اپریل 1970کو
انہوں نے جنم لیا ۔ 1987میں بھارتی نیشنل ڈیفنس اکیڈمی سے کمیشن حاصل کیا ،
1991میں بھارتی نیوی جوائن کی۔ یہ2003میں ایران چلا گیا اور وہاں یہ اپنے
کوڈ نام’ برکت حسین پٹیل ‘بن کر کاروبار کے ساتھ ساتھ پاکستان کے خلاف اپنے
مقصد کے حصول کی منصوبہ بندی کرتا رہا۔ ایران کا شہر ہے چابہار جو اس کی
سرگرمیوں کا مرکز تھا۔ چاربہار میں رہتے ہوئے کلبھوشن یادیو کے کلیجے کی آگ
کو ٹھنڈنک نہیں ملی ، اس کے اندر پاکستان کے خلاف آگ تھی جسے وہ باہر
نکالنا چاہتا تھا۔ ایران میں رہ کر پاکستان کے خلاف اپنے مقاصد میں کامیابی
حاصل نہیں کر پارہا تھا چنانچہ اس نے چاربہار سے پاکستان منتقل ہونے کا
منصوبہ بنایا، ایران سے بلوچستان ہی وہ ذریعہ تھا جہاں سے یہ پاکستان میں
داخل ہوسکتا تھا اور اس نے ایسا ہی کیا۔ بلوچستان میں اس نے پاکستان میں
ہونے والی دہشت گردی میں کیا کردار ادا کیا اس کی تفصیل سامنے نہیں آئی
البتہ اس نے متعلقہ اداروں کے سامنے اپنے جرم کا ایک سے زیادہ بار اعتراف
کیا۔
پاکستان میں عوامی سطح پر کلبھوشن یادیو کی پھانسی کی سزا کو سراہا جارہا
ہے۔ میڈیا پر سیاسی، سماجی شخصیات سخت موقف رکھتی ہیں ۔ سب کا خیال یہی ہے
کہ پاکستان کو بھارتی اور’ را‘ کے ایجنٹ کے معاملے میں کسی بھی قسم کی نرمی
نہیں دکھانی چاہیے۔ بھارت سے جو آوازیں آرہی ہیں ان کی حیثیت گیدڑ بھپکیوں
سے زیادہ نہیں۔بھارت میں پاکستان کے سفیر نے اس معاملے پر دلیری، بہادری
اور بھارت کو کھری کھری سنائی ہیں کہ بھارتی میڈیا اور بھارتی متعصب اور
شدت پسند ہندؤں کو لگ بتا چل گیا کہ پاکستان اس معاملے میں نرمی سے کام
لینے والا نہیں۔ حالیہ کور کمانڈرز کانفرنس میں کلبھوشن یادیو کے حوالے سے
بہت واضح، دو ٹوک موقف اختیار کیا گیا جس سے قوم کے حوصلے بھی بلند ہوئے
ہیں۔ پاکستان کی حکومت کو تنقید کا سامنا ہے کہ وہ کلبھوشن یادیو کے معاملے
میں کھل کر بات نہیں کررہی۔ اس کا نام نہیں لیا جارہا، وزیر اعظم صاحب نے
اس کا نام لے کر اسے کنڈم نہیں کیا وغیرہ وغیرہ۔ بہت ممکن ہے کہ حکومتی
اہلِ سیاست اس میں کوئی مصلحت سمجھ رہے ہوں۔ لیکن یہ بات واضح ہوچکی ہے کہ
حکومت کی پالیسی کچھ بھی ہو۔ کلبھوشن یادیو کو سزائے موت فوجی عدالت نے
شواہد اور اس کے اپنے بیان حلفی کی روشنی میں سنائی ہے، قانون اُسے اپیل کا
حق دیتا ہے۔ شواہد بتاتے ہیں کہ اسے اپیل میں بھی منہ کی کھانی پڑے گی۔
پاکستان کے مشیر خارجہ امور سرتاج عزیز نے واضح الفاظ میں کہا ہے کہ
کلبھوشن یادیو ’را‘ کا ایجنٹ ہے ، اسے قانون کے مطابق سزا دی گئی ہے۔
پاکستان کا میڈیا، پاکستان کے عوام کلبھوشن یادیو کے اس گھنوانے کردار کو
کسی بھی صورت درگزر کرنے یا اسے کسی بھی قسم کی ریاعت دینے کی حق میں نہیں
لیکن قانون کی ہر طرح سے پاس داری ضروری ہے۔ بھارت کو بھارت کی زبان میں
جواب دینا ہی مناسب ہے۔ منظرؔ بھوپالی کی زبان میں
ستم کروگے ستم کریں گے
کرم کروگے کرم کریں گے
ہم آدمی ہیں تمہارے جیسے
جو تم کروگے وہ ہم کریں گے
چلائے خنجر تو گھاؤ دیں گے
بنو گے شعلہ اَلاؤ دیں گے
ہمیں ڈبونے کی سوچنا مت
تمہیں بھی کاغذ کی ناؤ دیں گے
قلم ہوئے قلم کریں گے
جو تم کروگے وہ ہم کریں گے
گلاب دوگے ، گلاب دیں گے
محبتوں کا جواب دیں گے
خوشی کا موسم جو ہم کو دوگے
تمہیں گلو کی کتاب دیں گے
کبھی سروں کو نہ خم کریں گے
جو تم کروگے وہ ہم کریں گے
ہواؤں کو اب لگام دے لو
سنو نہ چنگاریوں سے کھیلو
ملی جورائی بنے گی پروت
ذرا حقیقت سے کام لے لو
ستم کروگے ستم کریں گے
جو تم کروگے وہ ہم کریں گے
نیائے تم کو پکارتا ہے
سنو جو تم اَداتا ہے
ہمیشہ جیتی ہے آدمیت
جو ظلم کرتا ہے ہارتا ہے
ستم کا سر ہم قلم کریں گے
جو تم کروگے وہ ہم کریں گے
ستم کروگے ستم کریں گے
جو تم کروگے وہ ہم کریں گے
(15اپریل 2017) |