مردان واقعے کے بعد ہر کوئی اپنی الگ ہی الاپ رہا ہے- کچھ
لوگ اس کی آڑ میں " اسلام دشمنی کی بغض "نکال رہے ہیں اور کچھ نام نہاد
لبرلز اپنی سٹیٹس اپ ڈیٹ کرکے "اسلام کی تعلیمات یہ نہیں"کہہ کر لکھتے آرہے
ہیں- ایک بہت ہی تعلیم یافتہ شخص نے فیس بک پر اپنی سٹیٹس اپ ڈیٹ کی اور
کہاکہ جاہل لوگ فتوے لئے پھرتے ہیں- میں نے اس کے سٹیٹس پر کمنٹس کیا کہ
صاحب کچھ لوگ آپ کو چور کہہ رہے ہیں تو ان صاحب نے چھوٹتے ہی مجھے ان باکس
میں پیغام بھیجا کہ کون مجھے چور کہہ رہا ہے ساتھ میں چار پانچ گالیاں بھی
چور کہنے والے کو دی - چونکہ میرا دوست بھی تھا اس لئے میری قسمت میں بھی
چار پانچ گالیاں آئیں- میں نے شکریہ کہہ کر اسے رپلائی دینا بند کردیا- یہ
وہ تعلیم یافتہ صاحب جو مردان واقعے کے بعد سٹیٹس اپ ڈیٹ کرتے رہے ہیں-
میرے ایک اور ساتھی نے مردان واقعے پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ یہ حق
کسی کو نہیں کہ کسی کو مار دیا جائے - میں اس کے اس بات سے متفق بھی ہوں
لیکن میں نے اسے چیک کرنے کیلئے کہہ دیا کہ تمھارا باپ چور ہے -یہ سننے کے
بعد میرے اسی ساتھی کا رویہ اور لہجہ تبدیل ہوگیا - پھر میں نے اسے کہہ دیا
کہ میں ایویں تمھیں چیک کررہا تھا اس لئے میں نے یہ الفا ظ بول دئیے -
مردان واقعے کے بعد ہر کوئی انسانیت ، صبر کا درس دے رہا ہے کہ ابھی تو
تحقیقات نہیں ہوئی اس لئے کسی کو مار دینا غلط ہے - میں بذات خود اس کے حق
میں نہیں ہوں کہ کوئی کسی کو قتل کرے- کیونکہ یہ کام ریاست کا ہے لیکن یہاں
پر ریاست ہے کہاں پر --
اب سوال یہ ہے کہ جب ہمیں اپنے آپ پر ، اپنے والدین کے بارے میں کسی بھی
جھوٹی بات پر غصہ آتا ہے اور ہم بلاتاخیر و تصدیق کئے لوگوں کو گالی دینے
پر اتر آتے ہیں اور ہمارے لہجے تبدیل ہو جاتے ہیں ایسے میں نبی کریم صلی
اللہ علیہ والہ وسلم کی شان میں گستاخی کا تصور..کیا یہ کوئی انسان برداشت
کرسکتا ہے- یہ وہی رحمت العالمین ہیں جنہوں نے ہمیں انسانیت کا درس دیا-جس
نے زندگی کے ہر شعبے میں خود عملی طور پر دکھا دیا کہ آئیڈیل کیا ہوتا ہے-
ایسے میں ان کی شان میں گستاخی ...کیا یہ کوئی برداشت کرسکتا ہے کوئی بھی
نہیں ...
مردان یونیورسٹی میں پیش آنیوالے واقعے کی حقیقت اگر سچائی کی بنیاد پر کی
جائے تو بہت ساری حقیقتیں سامنے آسکتی ہیں لیکن اگر روایتی پولیس اہلکاروں
کے بجائے سائنٹفک بنیادوں پر تحقیقات کی جائے جنہیں یہ سمجھ بوجھ ہو کہ
سوشل میڈیا پر متعلقہ افراد نے کب کس کیساتھ اور کن تاریخوں میں چیٹنگ کی
اور گستاخانہ الفاظ استعمال کئے-یہ کہنا کہ جعلی آئی ڈی کے ذریعے بکواس کی
جارہی تھی اس کا بھی پتہ چلایا جاسکتا ہے لیکن اگر کوئی ہمت کرے تو - صرف
بیانات دینے سے کچھ نہیں ہوتا، اور یہ بھی کوئی بریکنگ نیوز اور حقیقت نہیں
کہ کوئی سرکاری اہلکار کہہ دے کہ میں نے جو کہہ دیا وہی ٹھیک ہے اور پھر
سارے لوگ اسے مان بھی لیں-
اب آتے ہیں مردان واقعے پر موم بتی مافیا اور نام نہاد لبرلز پر جو پیش
آنیوالے واقعے پر تصاویر کیلئے سرخی پاوڈر لگا کر بیرونی فنڈنگ کیلئے بہت
کچھ کرنے کیلئے نکل آئے ہیں - یہ ٹھیک ہے کہ قتل کا واقعہ افسوسناک ہے اور
ایسا نہیں ہونا چاہیے لیکن کیا یہ قابل برداشت ہے-
اسی واقعے کی آڑ میں کچھ لوگ اسلام کامذاق اڑانے کیلئے بہت کچھ کرنے کیلئے
نکل آئے ہیں موم بتی مافیا اور لبرل اگر اس کیلئے احتجاج کرسکتے ہیں تو پھر
یہ لوگ ریاست کے خلاف اٹھ کھڑے کیوں نہیں ہوتے اور احتجاج اور دھرنے کیوں
نہیں دیتے - لیکن چونکہ ان نام نہاد لبرلز اور لبرل مافیا کو ریاست ہی کی
وجہ سے فنڈز ملتے ہیں تو اس وقت ریاستی اداروں کے خلاف آواز نہیں اٹھاتے
لیکن اسی طرح کے ایشوز پر لازمی دکانداری چمکاتی ہیں-مردان واقعے کی آڑ میں
اسلام کا مذاق اڑانے والے ان بی بیوں سے گزارش ہے کہ اسلام کا مطالعہ کریں
ویسے دو دن قبل اسی پشاور میں ایک گوئیے نے ایک لڑکی کو جنسی تشدد کا نشانہ
بنایا اب کچھ افراد صلح کیلئے لڑکی پر دباؤ ڈال رہے ہیں اور جرگے ہورہے ہیں
- اسی خاتون کیلئے تو موم بتی مافیا نے کوئی آواز نہیں اٹھائی کہ اس شہر
میں یہ کیا ہورہا ہے شائد نام نہاد لبرلز یہی آزادی چاہتی ہیں-
ویسے جن معاشرے میں حکمرانوں کے خلاف بات کرنے پر قانون حرکت میں آتا ہے
اور نبی کی شان میں گستاخی پر ادارے خاموش رہتے ہیں ایسے معاشروں میں مردان
جیسے واقعات ہونا کوئی بڑی بات نہیں-رہی بات آزادی اور انسانیت کی ، تو یہ
ہر ایک کو حاصل ہے لیکن ایک حد کے اندر ، اگر کوئی یہ حد پار کرنے کی کوشش
کرتا ہے تو پھر نہ رشتے رہتے ہیں نہ انسانیت اور پھر اللہ کی حد نافذ ہو
جاتی ہیں اور پھر وہی ہوتا ہے جو ہر ایک صاحب ایمان کو کرنا چاہیے-
اگر اس معاشرے میں صاحب ایمان کو جاہل ، بدتمیز ، گنوار اور جانور کہا جاتا
ہے تو میری خواہش ہے کہ اللہ تعالی مجھے ایمان کی روشنی دے خواہ مجھے یہ
معاشرہ ، لبرلز اور موم بتی مافیا جانور اور جاہل کہہ دے مجھے یہ قبول ہے
کہ دنیا کی رسوائی آخرت کی رسوائی کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں-ویسے لوگوں
کو اسلام کا درس دینے والو خود بھی اسلام کا مطالعہ کرلو -دنیا کی چند روزہ
زندگی کی خاطر ابدی زندگی کا سودا کبھی مت کرنا- |