سنو ۔! مسٹر آج کل بڑے سوٹڈبوٹڈ پھرتے ہو۔تھری پیس سوٹ
۔۔ٹائی اورجوتے بھی برانڈڈ ہیں۔ تمہیں یاد نہیں؟ ۔ بچپن میں ہم گدھے تھے ۔کچی
جماعت سے دسویں تک۔بلکہ ہمارے بہت سے دوست تو بڑے ہو کر بھی گدھے ہی رہے ۔اور
ہمارے بچے گدھے کے بچے ہیں۔خواہ ۔۔ تمہارے پاس ۔ نوکری۔ گاڑی۔ گھر۔بیوی اور
بچے ہیں۔میرے پاس بھی ہیں۔۔لیکن ہیں تو ۔ہم گدھے۔
میرا دوست شیخ مرید ۔۔سالوں بعد ملاتھا۔مگر اس کی باتیں ۔وہی کتےکی
دم۔۔سارا مزہ کِرکرا کر دیا۔کھوتا ہی کھُو میں ڈال دیا ۔ ۔ برانڈڈکپڑے
اچانک یوں محسوس ہونے لگے۔۔گویا۔۔ جسم پر لنڈا ۔لٹکا ہو۔اُس ناٹھے(مرید) کی
روح ۔۔بچپن سے ہی ۔آوارہ تھی۔ اللہ جانے ۔آسیب نے آج مجھے کیسے آن لیا۔
؟۔ کئی بار۔ جی چاہا۔کہ مرید کو تین چار ۔دولتیاں ۔رسید کروں اور بغیر بریک
کے ۔بھاگ نکلوں۔۔ لیکن مجھے یقین تھا کہ میرے بھاگتے ہی۔ وہ۔باقی۔کوسنے ۔با
۔آواز بلند میری کمر پرمارے گا۔ گِچی بھن کھیل میں ست ربٹی گیند کی طرح۔۔۔۔لیکن
ناگواری مسلسل بڑھ رہی تھی۔ گدھے ۔تومیں کئی سال کی مسافت پر چھوڑ آیا
تھا۔بلکہ میں نے اپنی ۔ جُون (جلد) بدل لی تھی ۔آج۔ وہ ملا تو ۔ دیپک راگ
کی طرح ۔اچانک۔ دماغ کی ساریاں بتیاں ٹِمٹما۔اٹھیں ۔بجلی کی ہائی ٹینشن
تاروں ۔کی طرح کانوں میں سائیں سائیں ہو رہی تھی۔وہ پھر بولا۔۔ ابےےےے۔
مجھے یاد آیا۔ ۔ تمہارا دل ۔تو ایک گدھی پر آگیا تھا ۔ وہ کیسی ہے۔؟ ۔اچانک
یوں لگا ۔کسی نے ۔ تان سین کے سارے سُر میرے بن گوش میں چھیڑ دئیے ہوں۔ میں
اور میرے بچے کافی دیر سے گدھا اور گدھے کے بچے بن رہے تھے۔اچانک گدھی کا
تذکرہ چھڑ گیا۔خوشی اورغم کا عجب امتیاز تھا ۔ گدھا فیملی مکمل ہو چکی تھی۔
۔نگوڑا۔تھا تو ۔گدھا۔لیکن زندگی میں پہلی بار۔انسان لگا ۔
انسان اور گدھا۔۔ ایک پاکستانی فلم کا نام ہے۔جس میں مرکزی کردار گدھے کا
تھا۔ لیکن ہیرو ۔ مرحوم رنگیلا تھے۔ رنگیلا نے فلم میں کافی سارےگدھے اکھٹے
کرخطاب کیا اور کہا کہ ’’ مجھے خوشی ہوئی ہے کہ آپ لوگوں نے مجھے اپنا
صدربنایا۔ انسان بننے کے باوجود میں آپ کے حقوق کی حفاظت کروں گا۔ انسان
ضرورت کے وقت ہمیں باپ بنا لیتاہے۔جب وہ ایک دوسرے کو گدھا اور کھوتے دا
کھُر کہتے ہیں تو ہماری کافی بے عزتی ہوتی ہے‘‘۔اچانک شور مچ گیا کہ مرحوم
رنگیلا نے بھٹو کی نقل اتاری ہے ۔فلم پرپابندی لگ گئی ۔لیکن گدھے قومی
سیاست میں داخل ہو چکے تھے ۔ ملک کی باگ دوڑ گدھوں کے ہاتھ آگئی تھی۔
وگرنہ ۔گدھوں کو ۔ تو گھاس بھی نہیں ڈالی جاتی تھی۔ ظالم سیاستدان۔ دشمن
دار نکلے۔آج وہ ہمارے ساتھ گدھوں والا سلوک کر رہے ہیں۔اسی لئےووٹ مانگتے
ہوئے وہ ہمیں اپنا باپ سمجھتے ہیں۔آج کل تو گدھوں سے رشتہ داری بھی قابل
فخر سمجھی جا تی ہے۔۔
’’گدھے ہمارے بھائی ہیں‘‘۔یہ جملہ ۔ معروف سیاح ،محقق اور کالم
نگار۔مستنصرحسین تارڑ کی کتاب کا عنوان ہے۔ وہ انسان اور گدھے کو ایک ہی
آنکھ سے دیکھتے ہیں۔گدھے ہمارے ۔ گھروں ۔ بازاروں ۔ کتابوں ۔اور۔ کہاوتوں
میں ۔روزانہ ہمارے ساتھ رہتے ہیں۔ بلکہ کئی سال سے ایوانوں میں بھی رہتے
ہیں۔تار ڑ صاحب لکھتے ہیں کہ ’’امریکہ میں ڈیموکریٹ پارٹی کا انتخابی نشان
گدھا ہے۔ اور پچھلے دو الیکشن میں امریکی عوام نے گدھے کو پسند کیا ہے ۔یوں
سابق صدراوباما ۔سب سے بڑے گدھے تھے۔ پاکستان کی حکمران پارٹی کا نشان شیر
ہے۔۔یہ عجیب شیر ہیں جو گدھوں سے نہ صرف مشورے لیتے ہیں۔ بلکہ ان کے سامنے
دُم بھی ہلاتے ہیں ‘‘۔یوں ہم کہہ سکتے ہیں کہ امریکہ میں سیاستدان گدھے ہیں
اور پاکستان میں گدھے سیاستدان ہیں۔
امریکی کانگرس میں ری پبلکن اور۔ ڈیموکریٹ دو بڑی سیاسی قوتیں ہیں۔۔۔۔ایک
بار کانگریس کے اجلاس کے دوران ری پبلکن ممبر نے کہا دیا۔۔’’ جناب اعلی
۔۔اس ہاوس کے آدھے ممبر گدھے ہیں ‘‘۔جس پر ہنگامہ ہوگیا۔ تو ری پبلکن ممبر
نے یہ کہہ کر الفاظ واپس لے لئے کہ’’اس ہاؤس کےآدھے ممبر گدھے نہیں
ہیں‘‘۔یوں الفاظ ۔ کارروائی سے حذف بھی ہو گئے۔اس کے باوجود امریکی کانگرس
کے آدھے ممبر گدھے ہی رہے۔الحمد اللہ۔ پاکستان آزاد ملک ہے۔ہندوستان میں
مسلمانوں کو گائے کاٹنے کی بھی اجازت نہیں۔ ہم تو یہاں گدھا بھی کاٹ لیتے
ہیں۔ گدھے اسی وجہ سے گمُ ہو جاتے ہیں۔
سردار جی کا گدھا گم ہو گیا ۔ بہت تلاش کی ۔دوستوں سے بھی پوچھا ۔کچھ پتہ
نہ چلا۔رات گئے اچانک گدھا مل گیا۔
دوست :سردار جی کہاں سے ملا ۔؟
سردار: میں نے سوچا کہ اگر میں گدھا ہوتا ۔تو کہاں جاتا ۔یہ سوچتا سوچتا
میں ایک مقام پر پہنچا ۔ گدھا وہاں کھڑا تھا۔
چین بھی گدھے ڈھونڈتاڈھونڈتا پاکستان آپہنچا ہے۔کیونکہ اسے گدھوں کی ضرورت
ہے ۔چین اورخیبرپختونخواہ کی حکومت نے 11 ارب روپے کا معاہدہ کیا ہے۔ ہر
سال دو لاکھ گدھے چین جائیں گے کیونکہ ہمیں گدھوں کی ضرورت نہیں
۔۔پختونخواہ نے ۔ سی پیک میں مناسب حصہ نہ ملنے پر کافی احتجاج کیا تھا۔
سو۔ چین نے ڈونکی پیک کر لیا۔وہ گدھے جو ۔رُوڑی پر بیٹھتے تھے۔اب فارم ہاوس
میں پلیں گے۔مینڈکی کو زکام ہونے والا ہے۔چین گدھے کی کھال ،چربی اور خون
سے میڈیسن ۔و۔ کاسمیٹک بنائے گا۔ ۔چین معاشی میدان میں دنیا بھر ۔کو۔ دولتی
۔ مارچکا ہے ۔ہم زرعی معیشت ہیں اور چین گدھئی معیشت۔۔گدھوں نے چین کی ترقی
میں برابر کا حصہ ڈالا ہے اور ہماری تنزلی میں۔۔۔ گدھوں کی قدر نہ کرنے
والی دنیا۔اب ۔ڈہینچو ۔ ڈہینچو۔کرتی پھرتی ہے۔
گدھا۔ غریب آدمی کی ایمبولینس ہے اورخطاکارکی سواری ۔خطاکار۔ منہ کالا
کرکے گدھے پر سیرکرتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ بڑھاپے اور گدھے کی بریکیں نہیں
ہوتیں۔اسی لئے گدھا گاڑیوں کی جگہ چنگ چکی رکشے نے لے لی ہے۔۔ چنگ چی
ہماری۔ مکینکل گدھا ریڑھی ہے۔ جس میں گدھے کی جگہ پر موٹر۔ فِٹ ہے۔یوں
گدھےکم ہوتے جا رہے ہیں ۔سی این این کا تو دعوی ہے کہ گذشتہ20 سالوں میں
گدھوں کی تعداد11ملین سے کم ہو کر6 ملین رہ گئی ہے۔ شائد چند سالوں بعد
گدھے خواب میں ہی دکھائی دیں۔ ۔!
سردارجی(ڈاکٹر سے): میں کم خوابی کا شکار ہوں۔مجھے نیند میں گدھے فٹ بال
کھیلتے نظر آتے ہیں۔
ڈاکٹر:آپ یہ دوائی کھائیں۔ایسے خواب نہیں آئیں گے۔
سردار:ڈاکٹر صاحب دوائی کل سے نہ کھا لوں۔؟۔
ڈاکٹر:وہ کیوں۔ ؟
سردار:کیونکہ آج گدھوں کا فائنل ہے۔۔
گدھا۔ ایک استعارہ ہے۔ ہمارے ہاں۔ گدھے کو احمق،نادان اور بےعقل
سمجھاجاتاہے ۔اور انسان کو بھی۔۔ مماثلتی اعتبار سے دونوں۔ ہم وز ن
ہیں۔عادات اور اطوار بھی ایک۔انسان بھی مار کھاتا ہے ۔۔ بھوک سہتا
ہے۔۔گالیاں سنتا ہے۔ بے ہنگم ہنہناتا بھی ہے۔ حتی کہ انسان کو ۔لطیفہ بھی
دوسرے دن سمجھ آ سکتا ہے ۔لیکن ہم نے گدھوں کی قدر نہیں کی اور گدھوں نے
پاکستان کی قدر نہیں کی۔ ہمارے گدھے اب چین جا رہے ہیں۔ لیکن اصل گدھے پھر
بھی پاکستان رہ جائیں گے۔ اگر وہ پاکستان میں رہ گئے تو مرید کی بات سچ
ثابت ہو جائے گی کہ ہم گدھے ہیں۔سوٹڈ۔ بوٹڈ گدھے۔ |