سردیوں کی اندھیری رات تھی، ہر طرف سناٹا چھایا ہوا تھا،
سب لوگ خوابِ خرگوش کے مزے لے رہے تھے، کبھی کبھار کتوں کے بھونکنے کی
آوازیں رات کے ماحول کو مزید خوفناک بنا رہی تھیں، گھڑی کی طرف دیکھا تو
رات کے گیارہ بج رہے تھے۔ ابھی آنکھ بند ہی کی تھی کہ ایک خوفناک آواز
کانوں سے ٹکرائی۔ گردن اُٹھائی تو سامنے غیر معمولی قد کی حامل، کریہہ شکل
اور لمبے ناخنوں والی ایک خوفناک چڑیل کو اپنی جانب بڑھتے دیکھا۔ جس کے منہ
سے خون ٹپک رہا تھا، ماتھے پر صرف ایک آنکھ تھی جو روشن دان کی طرح بڑی تھی،
ناک پانچ فٹ لمبی اور طوطے کی چونچ کی طرح تھی، پاؤں اُلٹے تھے جبکہ دس، دس
فٹ لمبے دانت باہر نکلے ہوئے تھے، دیکھتے ہی اوسان خطا ہو گئے۔ بستر سے
اُٹھا، پیچھے دیکھے بغیر بجلی کی تیزی بھاگنا شروع کیا، چڑیل لمبے لمبے قدم
اُٹھائے پیچھا کر تی رہی۔ اچانک ہی چڑیل نے دبوچ لیا، ابھی گردن پر خون
پینے کیلئے دانت گھاڑھے ہی تھے کہ زوردار چیخ سے آنکھ کھل گئی۔ بیگم ہڑبڑا
کر اُٹھ بیٹھی، کیا ہوا، کیا ہوا؟ ہکلاتے ہوئے جواب دیا، ’’وہ وہ چ چ۔ چو۔
چڑیل‘‘۔ فرمانے لگی آپ بھی ناں! کئی بار بتا چکی ہوں آیت الکرسی پڑھ کر
سویا کریں۔ چڑیل ایک ایسی بدوروح ہے جسے اُردو میں ڈائن یا چڑیل اور
انگریزی میں Witchcraftکہا جاتا ہے۔ ہزارہ اور کشمیر کے پہاڑی علاقوں میں
یہ ’’پڑلی‘‘ کی پہچان رکھتی ہے۔ چڑیل کو مختلف ادوار میں مختلف لوگ مختلف
مقامات پر دیکھنے کا دعویٰ کر چکے ہیں۔ مختلف علاقوں کے لوگوں سے جب اس کے
خدوخال پوچھے گئے تو سب کے جواب میں یکسانیت پائی گئی، یعنی کہ اس کے پیر
اُلٹے ہوتے ہیں، پاؤں کے تلوے کمر کی سمت ہوتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ بعض کا
خیال ہے کہ چڑیل کی آواز پر اگر کوئی بول پڑا تو وہ اُس کا دِل نکال دیتی
ہے۔ چاند میاں کا کہنا ہے کہ رات کے وقت کسی راہ چلتی دوشیزہ کو حسین لڑکی
سمجھ کر اُس کے پیچھے کبھی نہ جائیں، ہو سکتا ہے اُس کے پاؤں اُلٹے ہوں اور
پھر آپ کو اُلٹے پاؤں بھاگنا پڑے۔ کبھی یہ مری، کبھی کشمیر اور کبھی ہزارہ
کے جنگلات میں رپورٹ ہوتی ہے۔ آیا اِن دعوؤں میں کوئی حقیقت بھی ہے یا یہ
محض دعوے اور افواہیں ہیں، اس بارے تو وقت ہی بتائے گا۔ گزرے سال یہ اسلام
آباد میں دیکھی گئی، میڈیا پر بھی خوب چرچا ہوا، بعد میں معلوم ہوا کہ وہ
چڑیل نہیں بلکہ اس کا کوئی سرتاج تھا جو ماسک پہن کر چڑیل کا روپ دھارے
لوگوں کو ڈراتا رہا۔ اسلام آباد کے باسی چڑیل کے نام سے اتنے ہی ڈرتے ہیں
جتنا سانپ کا ڈسا رسی سے ڈرتا ہے۔ دارالحکومت کے سیکٹرجی ایٹ میں بہت سناٹا
تھا، لوگوں میں چڑیل کے متعدد دفعہ دیکھے جانے پر شدید خوف و ہراس تھا۔ کچھ
کہتے یہ ان کا وہم ہے، مگر کچھ قسم کھاتے کہ انہوں نے بھدی چڑیلوں کو گلیوں
میں چلتے دیکھا ہے۔ ہر رات کو دروازے بجتے، مگر لوگ ڈر کے مارے بستروں میں
دبکے رہتے۔ ایسے ہی ایک پورشن میں اصغری بھی اپنے بستر میں دبکی تھی کہ
دروازہ دھڑ دھڑ، بہت زور سے بجا۔ لائٹ تھی نہیں، بیچاری کے دماغ پر چڑیلیں
چھانے لگیں۔ جب کافی دیر تک دروازہ بجتا رہا، تو وہ دِل میں آیتیں پڑھنے
لگی۔ پھر یکدم ہی خاموشی چھا گئی، اصغری نے سکون کا سانس لیاہی تھا کہ اسے
کچن کی طرف کھلنے والی کھڑکی میں کچھ کھٹکا سا ہوا، اُس کی تو جیسے جان ہی
نکل گئی، پہلے اُس نے سوچا کوئی بلی ہو گی، مگر جب ایسے لگنے لگا کہ کوئی
کھڑکی کی سلاخوں میں ہاتھ ڈال کر کنڈی کھولنے کی کوشش کر رہا ہے، تو اصغری
تھر تھر کانپنے لگی، اُس میں اتنی ہمت نہیں تھی کہ ساتھ والے کمرے میں جا
کر پولیس کو ہی فون کر سکے۔ ڈر کے مارے اُس کے رونگٹھے کھڑے ہو گئے، اُوپر
سے وہ اکیلی تھی، اس نے آیت الکرسی پڑھنے کی کوشش کی مگر وہ اسے یاد ہی
نہیں آ رہی تھی۔ خوف نے اس کا دماغ ماؤف کر دیا تھا، اچانک کھڑکی ایک جھٹکے
سے کھلنے کی آواز آئی اور ایسے لگا جیسے کوئی دبے پاؤں اندر کی جانب کود
پڑا ہے۔ اصغری نے چیخنا چاہا مگر اس کی آواز گلے میں ہی گھٹ گئی، موم بتی
کی روشنی میں، موہوم سی روشنی میں ایک ہیولا سا، عین اپنے کمرے کے سامنے
نظر آیا۔ ’’چ چچ چڑیل‘‘ اور ایک دلدوز چیخ مار کر بے ہوش ہو گئی۔ جب آنکھ
کھلی تو ٹی وی آن تھا، اور اصغری کا میاں ’’صفورا‘‘ بڑے مزے سے ڈرامہ دیکھ
رہا تھا، صفورا نے اصغری کو جاگا دیکھا، تو بولا ’’رہی نہ اوت کی اوت، میں
اتنی دیر سے دروازہ کھٹکھٹاتا رہا، مگر تم نے نہ کھولا، پھر کچن کی کھڑکی
کے راستے آیا، تو دیکھا تو بیہوش پڑی تھی، چلو اُٹھو اور کھانا بناؤ‘‘۔
اصغری پر تو جسے گھڑوں پانی پڑ گیا، خود کو کوستی کچن میں گئی ہی تھی کہ
کھڑکی کے سامنے گلی میں سے کوئی تیزی سے گزرا، اصغری نے لحظہ بھر کو سوچا
اور چمٹا لے کر کھڑکی میں کھڑی ہو گئی۔ ’’آج میں اس چڑیل کو مار کر ہی دم
لوں گی‘‘۔۔۔ وہ یہ دہرائے جا رہی تھی، اور جونہی سایہ ایک جگہ رُکا، اصغریٰ
نے آؤ دیکھا نہ تاؤ، چمٹا پوری طاقت سے اُسکے سر پر دے مارا ، چمٹا لگتے ہی
محلے کا چوکیدار سر پکڑ کر ’’چڑیل، چڑیل‘‘ کی آوازیں لگائے بھاگ گیا۔ |